CM RizwanColumn

عوام دشمن پارٹیوں کا انجام

عوام دشمن پارٹیوں کا انجام

سی ایم رضوان
پاکستان میں اس وقت انسانی حقوق کی پامالیوں اور عوامی حقوق کی بدحالیوں کی جتنی ذمہ دار یہاں کی سیاسی جماعتیں ہیں کوئی اور سٹیک ہولڈر نہیں۔ ہر قسم کی سیاسی اور تنظیمی قباحت نہ صرف ان پارٹیوں میں موجود ہے بلکہ ان پارٹیوں کی انہی اندرونی قباحتوں کا ہی شاخسانہ ملکی سیاسی اخلاقیات کی تباہی، باہمی انسانی رویوں کی ابتری اور انتظامی معاملات کی بدحالی کی صورتوں میں معاشرے کے رگ و ریشہ کو بری طرح سے جکڑے ہوئے ہے۔ نتیجتاً جو زیادتیاں ملک اور معاشرے کے ساتھ یہ سیاسی جماعتیں کرتی ہیں اکثر اوقات وہی کچھ ان سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی ہو جاتا ہے۔ بظاہر عوامیت اور جمہوریت کے نام پر جبکہ درحقیقت طاقتور حلقوں کے ایمائ، اثر انگیزی اور بھروسے پر یہاں اکثر جماعتیں ترتیب پاتی اور اقتدار میں آتی ہیں۔ یوں یہ اپنے ازل سے ابد تک اپنے حقیقی خالق انہی حلقوں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں اور اقتدار میں ہوں یا اختلاف میں ہمیشہ ان ہی حلقوں کی دست نگر رہتی ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک یہاں یہی کچھ ہوا ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ سادہ لوح عوام ان جماعتوں کی قیادتوں کی طرف دیکھ رہے ہوتی ہیں اور یہ انقلابی سیاستدان طاقت ور حلقوں کے موڈ اور تیور دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کب ان کی نظر التفات ہو اور وہ اقتدار کی بھیک ان کے کاسہ سیاست میں ڈال دیں۔ البتہ اس کھیل میں کسی سیاسی جماعت پر وہ عرصہ بڑا انقلابی اور انٹی اسٹیبلشمنٹ ہوتا ہے جب وہ اقتدار سے باہر ہوتی ہے اور جونہی یہ اقتدار کے ایوانوں پر براجمان ہوتی ہیں پھر یہ نہ عوامی حقوق کا تحفظ کرتی ہیں اور نہ ہی ملکی خزانے کے حوالے سے دریغ کرتی ہیں اور لوٹ کھسوٹ ایسے کرتی ہیں جیسے کئی دنوں کا بھوکا پیاسا دستر خوان پر ٹوٹ پڑے۔ سابقہ ساڑھے تین سالہ اقتدار انجوائے کرنے والے کپتان کی اچانک سیاسی اٹھان، جماعت کی ازسر نو تشکیل اور احیائ، 2018ء کے انتخابات میں متنازعہ کامیابی، اقتدار میں تاریخی لوٹ کھسوٹ، عدم اعتماد میں ذلالت، اقتدار سے محرومی پر انقلاب کی بے وقت راگنی، عوامی سطح پر اسٹیبلشمنٹ کو گالیاں اور درپردہ پیغام رسانی کے ذریعے معافی تلافی کی درخواستیں اور کپتان کی مذکورہ پارٹی کے متعدد حصے بخرے ہوجانا اس حوالے سے ایک تازہ اور عبرتناک مثال اور انجام ہے۔
اس وقت مختلف ممالک میں مختلف اقسام کی سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ کسی ملک میں ایک پارٹی، کسی میں دو تو کسی میں زیادہ پارٹیوں کا نظام موجود ہے۔ جس طرح کہ چائنہ میں ایک پارٹی، امریکہ میں دو پارٹیوں اور پاکستان میں زیادہ پارٹیوں کا نظام موجود ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان دنیا کے 167جمہوری ممالک میں سے جمہوری فہرست میں ایک سو چھٹے نمبر پر ہے جبکہ یہ تماشا بھی دیدنی ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ سیاسی جماعتیں مصروف انقلاب ہیں۔ اس وقت دو نئی سیاسی جماعتوں استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کی انٹری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ 132سیاسی جماعتیں رجسٹر ہو جائیں گی جبکہ غیر رجسٹرڈ پارٹیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ ان پارٹیوں میں قومی، علاقائی، مذہبی، لسانی، نسلی، لبرل، کمیونسٹ نوعیت کی جماعتیں شامل ہیں۔ کئی پارٹیاں ملتے جلتے ناموں مثلاً عام لوگ پارٹی، عام عوام پارٹی، عام آدمی تحریک، عام لوگ اتحاد، عام لوگ اتحاد پارٹی، عام لوگ اتحاد تحریک، عوام لیگ، عوام جسٹس پارٹی، عوامی جسٹس پارٹی، عوامی مسلم لیگ، عوامی نیشنل، عوامی پارٹی پاکستان، عوامی تحریک اور عوامی ورکرز پارٹی کے ناموں سے کام کر رہی ہیں۔ ان تمام سیاسی جماعتوں میں لفظ عوام اور عوامی کا ذکر بقدر وافر ہے کیونکہ ان سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ وہ یہ کہ عوام کو جیسے بھی ہو دھوکا دینا اور اپنے گروہی مفادات حاصل کرنا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان عوامی جماعتوں کے دفاتر ملک کے پوش ایریاز ڈی ایچ اے، بحریہ، ماڈل ٹائون، ایف سکس، گلبرگ وغیرہ میں قائم ہیں۔ متعدد پارٹیاں شکست و ریخت کا شکار بھی ہوئی ہیں مگر آج بھی سب سے زیادہ دھڑے پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کے ہیں۔ جن میں آل پاکستان مسلم لیگ، آل پاکستان مسلم لیگ جناح، عوامی مسلم لیگ، پاک مسلم لیگ، پاکستان مسلم لیگ، پاکستان مسلم الائنس، مسلم لیگ ج، مسلم لیگ ف، مسلم لیگ ز، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، مسلم لیگ شیر بنگال، مسلم لیگ کونسل، مسلم لیگ آرگنائزیشن قابل ذکر ہیں۔
30نومبر 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قائم ہونے والی سوشلسٹ نظریات کی حامل پاکستان پیپلز پارٹی اس وقت چار دھڑوں میں منقسم ہے جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی شہید، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین اور پاکستان پیپلز پارٹی ورکرز شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف علی زرداری ہیں۔ یوں ایک ہی گھر میں دو سیاسی جماعتیں اور باپ بیٹا بالترتیب چیئرمین اور صدر ہیں۔ مذہبی جماعتیں زیادہ تر فرقوں کے ناموں سے رجسٹرڈ ہیں۔ مثلاً سنی تحریک، سنی اتحاد، تحریک درویش، تحریک لبیک، تحریک لبیک پاکستان، تحریک اہلسنت، سنی اتحاد، تحریک اجتہاد وغیرہ جبکہ جنت پاکستان پارٹی نامی ایک جماعت بھی موجود ہے جن کا مقصد مسلمانوں کی عالمگیر حکومت کا قیام اور دنیا میں نفاذ شریعت ہے۔ حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ پاکستان کی اقلیتی برادری کے لوگ بھی سیاست میں سرگرم عمل ہیں۔ اس وقت اقلیتی برادری کی رجسٹرڈ پارٹیوں میں مسیحی عوامی پارٹی، پاکستان مسیح پارٹی، آل پاکستان اقلیت موومنٹ اور آل پاکستان اقلیتی الائنس شامل ہیں۔ نسلی اور علاقائی جماعتوں میں سرفہرست بہاولپور نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، مہاجر قومی موومنٹ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور تحریک صوبہ ہزارہ پارٹی شامل ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف جو کہ 1996میں قائم ہوئی۔ اس کے تین دھڑے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی اور پاکستان تحریک انصاف گلالئی شامل ہیں جبکہ پچھلے ایک ماہ میں اس کے دو مزید دھڑے معرضِ وجود میں آ چکے ہیں۔ تازہ ترین دھڑے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے سابق وزیر داخلہ پرویز خٹک کی قیادت میں معرض وجود میں آنے پر تحریک انصاف کے چیئرمین نے گزشتہ روز کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا کہ اچھا ہے زیادہ جماعتیں ہوں گی تو مقابلہ زیادہ ہوگا۔ ایک اور سوال کہ ’’ آپ نے جو آشیانہ بنایا تھا وہ اب بکھر رہا ہے‘‘ کے جواب میں چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلامی تاریخ کا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ جب جنگ خندق ہوئی، ایک ماہ کی وہ جنگ تھی، جب جنگ ختم ہوئی تو نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے لئے ایک آیت آئی، کیا نبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم آج آپ کو پتہ چل گیا ہے کہ آج آپ کے ساتھ کون ایمان والے لوگ تھے اور کون لوگ تھے جن کے ایمان کمزور تھے جو منافق تھے۔ یہاں خود کو اعلیٰ اسلامی شخصیت ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے تاثر دیا کہ جس طرح نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر آزمائش کا دور گزرا تھا ان پر بھی گزر رہا ہی جبکہ اسی روز ایک عدالت نے ان کے خلاف بشریٰ بی بی کے ساتھ ان کے مبینہ غیر شرعی نکاح کے مقدمہ کو ان کے خلاف قابل سماعت قرار دیتے ہوئے دونوں مبینہ میاں بیوی کو 20جولائی کو روبرو عدالت پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا جبکہ ماضی کے اس صادق امین کے خلاف ایک اور عدالت نے وفاقی حکومت کی اس درخواست پر بھی سماعت کا حکم جاری کر دیا ہے جس میں یہ التجا کی گئی تھی کہ امریکہ پر سائفر جاری کرنے کے کپتانی الزام کے سچ یا جھوٹ ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ خود کو عالم اسلام کا عظیم قائد کہلوانے پر اصرار کرنے والے کپتان کی حکومتی کارکردگی کرپشن، دروغ اور عوام کو دھوکہ دینے کے درجنوں الزامات کی زد میں ہے۔ دوسری طرف ایک بہت بڑا مبینہ قومی جرم اس کا یہ ہے کہ اس نے اپنی جماعت کے نوجوانوں کو پاک فوج پر حملے پر اکسایا اور ملک پر ایک نائن الیون برپا کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ملک بھر کے محب وطن عوام و خواص اس کپتان سے متنفر ہو چکے ہیں بلکہ خود اس کی اپنی پارٹی کے زعماء اس پر سانحہ نو مئی کے ارتکاب کا الزام لگا رہے ہیں اور عملاً سیاسی طور پر پی ٹی آئی ف۔۔ فارغ ہو چکی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button