ColumnImtiaz Ahmad Shad

سیاستدانوں کی مکاری اور سیاسی چالاکیاں

سیاستدانوں کی مکاری اور سیاسی چالاکیاں

امتیاز احمد شاد
سیاست بڑی بے رحم چیز ہے اور مفادات کی خاطر سیاستدانوں کا پارٹیاں بدلنا اور بے وفا ہونا پاکستان کی سیاست میں لازمی جز ہے۔ ہر الیکشن کے موقع پر نئی پارٹیوں کا اجراء ہوتا ہے۔ موسمی پرندے اڑان بھرتے ہیں، جدھر کے اشارے ہوں اس مقام کو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست میں ایک عرصہ تک دو سیاسی جماعتوں نے عوام کو اس قدر بیوقوف بنائے رکھا کہ لوگ ان جماعتوں کی محبت میں اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی رشتے توڑ بیٹھے۔ سیاست میں بھونچال اور عوام میں سیاسی شعور تب بیدار ہوا جب تیسری سیاسی قوت کے طور پر عمران خان نے سیاست میں قدم رکھا۔ بہت سے سیاستدان جن کی کوئی مروجہ سیاسی حیثیت نہ تھی عمران خان کے گرد اکٹھے ہوئے اور قوم کو ایک نئی امید دی۔ پھر وہی قصہ پرانا دہرایا گیا ۔الیکٹیبلز کو عمران خان کا ساتھی بنایا گیا، اقتدار دیا گیا اور جب صاحب بہادر کا موڈ آف ہوا تو عمران خان اور اس کے ساتھیوں کو راندہ درگاہ کر دیا گیا۔ پھر سے الیکشن کا زمانہ ہے، نئی جماعتیں تشکیل پا رہی ہیں۔ جہانگیر ترین کی قیادت میں قائم ہونے والی نئی پارٹی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی تاہم خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک کی قیادت میں نئی پارٹی کا وجود قائم ہو چکا۔ ہر بار ہونے والے انہی تجربات نے سیاست، ریاست اور معیشت کو عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے۔ ذاتی مفاد ات نے اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ سیاستدانوں کی رنگ بازیوں کا یہ عالم ہے کہ الیکشن کا ماحول بنتے ہی ایک دوسرے کے دست و گریبان ہورہے ہیں۔ پرانے اتحادی بکھر رہے ہیں اور نئے اتحاد قائم ہو رہے ہیں۔ مگر یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ سیاست میں ہر سیاستدان اپنے مفاد کو مقدم رکھتا ہے۔ الیکشن میں سیاستدان اپنے مفاد اور مطلب کیلئے دن رات عوام سے اپنے رابطے بڑھا دیتے ہیں۔ ہر سیاستدان اور سیاسی جماعت ایک دوسرے سے بڑھ کر خود کو ملک و قوم کا ہمدرد ثابت کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی لیکن جب الیکشن گزر جاتے ہیں تو یہی مطلبی سیاستدان اپنے اپنے حلقہ انتخابات سے یوں غائب ہوتے ہیں جیسے دوبارہ انہوں نے کبھی عوام کی عدالت میں پیش ہونا ہی نہیں۔ آج جبکہ ہر سیاستدان کو خود عوام کا تابع، خادم، فرمانبردار، ملازم اور نہ جانے کیا کیا ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان ہی سیاستدانوں نے کل اپنے حلقہ کے ووٹرز کو پہچاننے سے بھی انکار کر دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام بھی ووٹوں کی بھیک مانگنے والے سیاستدانوں کو کھری کھری سنا رہے ہیں۔ الیکشن کے بعد کا منظرنامہ عوام کو بخوبی یاد ہے۔ انہیں وہ درد کے لمحات کیسے بھول سکتے ہیں جب وہ اپنی گلی محلے یا گائوں کے کسی کام کیلئے اپنے منتخب نمائندوں کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ اول تو وہ اپنے ایم این اے یا ایم پی اے کو ڈھونڈ نہیں پاتے۔ اگر یہ ارکان اسمبلی مل جائیں تو اُن میں الیکشن کے دنوں والا خلوص، محبت، گرم جوشی اور اخلاق غائب ہو چکا ہوتا ہے۔ عوام اپنے کسی کام کیلئے اصرار یا تکرار کریں تو یہ عوامی نمائندے اکثر اوقات بد مزاجی اور بعض اوقات بدزبانی پر بھی اُتر آتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عوام کو اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی میں افسر شاہی کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھانے پڑتے ہیں۔ کون سا سرکاری ادارہ ہے جو عوام کے ساتھ ظلم و ناانصافی سے پیش نہیں آتا۔ کرپشن کے ناسُور نے سرکاری اداروں کو تباہ کر دیا ہے۔ بدعنوان افسر اور اہلکار کرپشن کی چُھری سے مظلوم عوام پر وار کرتے ہوئے کبھی ترس نہیں کرتے۔ عوام اپنی شکایات لیکر اپنے منتخب نمائندوں تک پہنچتے ہیں تو انہیں کبھی انصاف نہیں ملتا۔ الیکشن میں تھانہ کلچر کے نعرے بلند کرنیوالے سیاستدان بعد میں ظالم اور رشوت خور محکمہ پولیس کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں۔ پٹواری کی دھونس، دھاندلی اور رشوت خوری کا عذاب بھی سیاستدانوں کی سرپرستی میں عوام کے سروں پر مسلط رہتا ہے۔ تمام صوبائی اور وفاقی سرکاری ادارے جتنی کرپشن کرتے ہیں اس میں ایم این اے اور ایم پی اے حضرات برابر کے حصہ دار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ظلم کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ عوام چیختے اور چلاتے ہیں لیکن اُن کی چیخ و پکار صحرا میں آواز کی طرح اس لئے بے سود اور بے اثر ثابت ہوتی ہے کیونکہ عوام کے منتخب حکمران اپنے مطلب و مفاد کیلئے عوام کے بجائے افسر شاہی کے ساتھی اور رفیق بن جاتے ہیں۔ عوام کی سادگی دیکھئے کہ جن عیار سیاستدانوں کو فریب میں آ کر وہ اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں، یہ سیاستدان عوام کی سادہ دلی اور بھولپن کا کوئی ایک مرتبہ فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ اپنے اپنے حلقہ میں ایک ہی ایم این اے اور ایم پی اے کئی کئی دفعہ منتخب ہوتا رہتا ہے۔ جب وہ ایم این اے یا ایم پی اے بوڑھا ہو جاتا ہے یا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو ان کا کوئی بھائی یا بیٹا اُن کی جگہ سنبھال لیتا ہے۔ سیاستدانوں کی مکاری اور سیاسی چالاکیاں اُن کے بچوں کو منتقل ہو جاتی ہیں اور عوام کی سادہ دلی اور مجبوریاں غریب عوام کے بچوں کو منتقل ہو جاتی ہیں۔ عوام کے دکھوں کا مداوا ہمارے ملک میں اسی لئے نہیں ہو پاتا کہ عوام اپنی بیماریوں اور دکھ درد کے علاج کیلئے ان ہی نام نہاد مسیحائوں کو بار بار منتخب کرتے چلے جاتے ہیں جو دراصل ان کی تمام تر بیماریوں کے ذمہ دار ہیں۔ ہمارے ملک کے سیاستدانوں میں وفاداریاں تبدیل کرنا ایک مستقل عارضہ ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں کسی اصولی اختلاف کی بنیاد پر تبدیل نہیں کی جاتیں بلکہ صرف الیکشن جیتنے یا دیگر کسی وقتی مفاد کیلئے کوئی بھی سیاستدان کسی بھی وقت اپنی جماعت سے بے وفائی کر سکتا ہے نہ کوئی سیاستدان جماعتی وفاداریاں تبدیل کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت بار بار وفاداریاں بدلنے والے سیاسی مسافروں کو قبول کرنے اور انہیں اپنا انتخابی ٹکٹ دینے میں کسی اصول پسندی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ تاہم کچھ بدقسمت سیاستدان ایسے بھی ہیں کہ جن کو بدنامی کی حد تک سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا مجرم قرار دیکر کوئی بھی سیاسی جماعت قبول نہیں کرتی۔ ایسے بدنام سیاستدانوں پر قدرت اس قدر مہربان ہوتی ہے کہ وہ آزاد الیکشن لڑتے ہیں اور نادیدہ قوتیں ان کی مدد گار ہوتی ہیں۔ وہ اس قدر مقدر کے سکندر ہوتے ہیں کہ سیاسی پارٹیوں کو حکومت بنانے کے لئے ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو بعد میں حکومتوں کی رخصتی کا سبب بنتے ہیں۔ الیکشن قریب آتے ہیں سیاستدانوں کے انداز یکسر بدل جاتے ہیں۔ سیاستدانوں کے اصلی چہرے کچھ اور ہوتے ہیں لیکن الیکشن کے دنوں میں انہوں نے اپنے چہروں پر مصنوعی چہرے سجا رکھے ہوتے ہیں۔ بادہ خوار بھی اپنے آپ کو ولی اور پرہیز گار کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔ بے نماز مسجدوں میں جا کر با جماعت نماز ادا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جھوٹ بولنے کے عادی خدا کو گواہ بنا کر خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو عام حالات میں سلام کا جواب دینا گوارہ نہیں کرتے وہ ووٹرز سے ہم آغوش ہو کر ان کے ماتھوں کا بوسہ لے رہے ہوتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button