ColumnJabaar Ch

ری سیٹ پاکستان

ری سیٹ پاکستان

جبار چودھری
خبر یہ ہے کہ الیکشن میں تاخیر ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ عام انتخابات نومبر میں ہوجائیں گے۔ ویسے تو اکتوبر میں بنتے تھے لیکن قومی اسمبلی دو دن پہلے تحلیل کرکے الیکشن کے لیے دو کی بجائے تین ماہ کا وقت دینے کا فیصلہ ہوا ہے ۔ اس کا اعلان خود وزیراعظم شہباز شریف اب کر چکے ہیں اس لیے ابہام نہیں ہے۔ یہ فیصلہ پہلے دبئی میں اور اب فائنل دو دن پہلے شہباز شریف سے آصف علی زرداری کی ملاقات میں ہوا ہے۔ دو کی بجائے تین ماہ کا وقت شاید الیکشن کمیشن کی درخواست تھی۔ میرے خیال میں اگر الیکشن کمیشن کی درخواست تھی بھی تو اس پر ہرگز غور نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ یہ بات الیکشن کمیشن کو کیسے نہیں معلوم تھی کہ قومی اسمبلی کی مد ت کب پوری ہونی ہے اور الیکشن کے لیے دو ماہ کا وقت ہوگا؟، یہ کوئی وہ حادثہ تو نہیں تھا جس سے خان صاحب نے پنجاب اور کے پی کی اسمبلیوں کو دوچار کر دیا تھا۔ نتیجہ کیا نکلا یہ سب کے سامنے ہے۔ آئین پر عمل کروانے میں مائی لارڈ بھی ناکام رہے اور سازشی ذہن کا استعمال کرکے عمران خان بھی الیکشن تو نہ لے سکے البتہ اپنی پوری پارٹی اس’’ جہاد ‘‘ میں خرچ کر بیٹھے۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو جیل کی ذلالت دلابیٹھے اور باقی لوگ مفروری کاٹ رہے ہیں۔
غصہ اور انتقام دو ایسے منفی جذبے ہیں جس کا نقصان ہی نقصان ہوتا ہے اپنی ذات کو بھلے کم ہی کیوں نہ ہو اردگرد بھی محفوظ نہیں رہتا۔ سوچیں اگر خان صاحب پر اقتدار کی آگ سوار نہ ہوتی تو پہلے تو وہ عدم اعتماد کوہی تسلیم کرکے سکون سے بیٹھ جاتے۔ پرامن جدوجہد کرتے۔ اس حکومت کو چڑانے کے لیے صرف ایک الیکشن کا مطالبہ ہی کوئی آخری اور لازمی چیز تھوڑی تھی ۔ الیکشن تو آپ کا لالچ تھا کہ فوری ہوجائیں اور آپ ہمدردی کا ووٹ سمیٹ کر ایک بار پھر کرسی پر بیٹھیں اور اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں انگلیاں ماریں کہ دیکھا میں پھر آگیا ہوں۔ اور ساتھ ہی اپوزیشن کو دیواروں میں چنوانے کا سلسلہ وہیں سے شروع کریں جہاں سے چھوڑا تھا۔ لیکن قدرت کو ایسا منظور نہیں تھا کیونکہ غصہ اور انتقام کسی کا بھلا ہونے دے ہی نہیں سکتا۔ خان صاحب انہی دو منفی جذبوں کو اپنے اوپر سوار کرکے خود ہوا کے گھوڑے پر بیٹھ رہے۔ انہوں نے اپنے سامنے کسی کو دیکھا نہ کسی کی سنی۔ اب پتہ نہیں ان کے ساتھ اور سامنے بیٹھنے والے لوگ انہیں کیا بتاتے تھے کیا سمجھاتے تھے جیسا کہ وہ اب باہر آکر یہی کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب کو بڑا سمجھایا تھا لیکن وہ اپنی مرضی کرتے ہیں۔ جس ریاست مدینہ کی وہ بات کرتے ہیں اس کے والی میرے آقا ٔ تو فرما چکے کہ ’’ شوریٰ فی الامر‘‘ یعنی معاملات میں مشورہ کیا کرو۔ مشورہ بھی ایسا کہ جتنی مشاورت وسیع ہوسکے کرو۔ ٹھنڈے دل سے اس پر سوچو دوسری بار سوچو پھر عمل کی طرف جائو۔ اتنے سوچ بچار کے بعد کوئی کام غلط بھی ہوجائے پھر بھی اس کا نقصان نہیں ہوتا کہ اللہ کے رسول ٔ کی سنت اس میں شامل ہوجاتی ہے۔ لیکن یہاں لانگ مارچ نہ کرنے کے بدلے الیکشن کا مطالبہ پورا ہورہا تھا۔ سب مان چکے تھے۔ پی ڈی ایم حکومت چھوڑنے کو تیار ہوچکی تھی۔ مئی کے دوسرے ہفتے میں وزیراعظم شہباز شریف مستعفی ہوکر الیکشن کا اعلان کرنے والے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ نے درخواست کی کہ قطر میں آئی ایم ایف سے اگلے ہفتے مذاکرات ہیں ۔ اس لیے ایک ہفتہ مزید حکومت برقرار رکھ دی جائے ۔
حکومت مان جاتی ہے کہ ملک کا معاملہ ہے آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوجائیں تو پھر تحلیل کر دیں گے تاکہ نگران حکومت کے دوران قرض منظور ہو جائے اور ملک ڈیفالٹ کی طرف نہ جائے۔ اسٹبلشمنٹ یہی بات خان صاحب کو بتاتی ہے کہ ملک کا معاملہ ہے لانگ مارچ کے اعلان سے رک جائیں۔ الیکشن کا کام ہوگیا ہے بس یہ آئی ایم ایف مذاکرات ہو جائیں۔ سوچیں پورا پاکستان ایک طرف ہے کہ مذاکرات کے فوری بعد یونہی وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نتیجہ لے کر دوحا سے واپس آئیں گے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری تیار ہوجائے گی۔ لیکن خان صاحب کے لیے ان کی اپنی ذات ملک سے کہیں بڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہونے دوں گا ابھی اسمبلی توڑو نہیں تو میں لانگ مارچ کی تاریخ دیدوں گا۔ آخری وقت تک خان صاحب کو اس خود کش مشن سے روکنے کی کوشش ہوتی ہے ان کے اپنے دائیں بائیں بیٹھے لوگ کہتے ہیں خان صاحب رک جائیں ’’ وہ ‘‘ بات کرنا چاہتے ہیں لیکن خان صاحب کا جواب پورے ملک نے سنا کہ کسی سے کوئی بات نہیں ہوگی اور پچیس مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔ پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے کہ مشاورت کی بجائے اپنا غصے اور انتقام سے بھرا فیصلہ۔ جب خان صاحب نے باجوہ صاحب اور فیض کی بھی نہیں مانی تو پھر پی ڈی ایم نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر بھاگ جائیں کوئی الیکشن نہیں۔ جس دن خان صاحب نے روکنے کے باوجود لانگ مارچ کا اعلان کیا اسی دن پی ڈی ایم نے اپنی مدت پوری کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اور ون پوائنٹ ایجنڈے پر اتفاق کہ کچھ بھی ہوجائے الیکشن وقت سے پہلے نہیں کروائیں گے۔ اس کام کے لیے کیا کچھ ہوا یہ تاریخ ہے۔ حکومت نے آئین کی پروا نہ کی۔ سپریم کورٹ تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی۔ سپریم کورٹ کے اندر وہ عناصر جن کو خان صاحب کی جھولی میں الیکشن ڈالنے کا ٹاسک ملا تھا وہ ایکسپوز ہوئے۔ کہاں سے سوموٹو لے کر کہاں تک پہنچایا۔ حکومت کی ناک رگڑوانے چلے تھے اپنی رگڑ کر جان چھوٹی۔
الیکشن اب آگے جانے کے امکانات اور خدشات نہیں ہیں لگ تو یہی رہاہے کہ یہی سیٹ اپ کچھ معمولی تبدیلیوں کے بعد واپس اقتدار میں آجائے گا۔ الیکشن کے نتیجے تو آئیں گے لیکن پاکستان میں بدلے گا کچھ نہیں۔ اس ملک کے مسائل الیکشن سے بہت زیادہ بڑے اور پیچیدہ ہوچکی ہیں۔ یہاں اس حکومت کے نزدیک آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر نکلوا لینا، وہ بھی قرض۔ یہی سب سے بڑی کامیابی اور کارکردگی ہے۔ اسی کارکردگی کو لے کر مسلم لیگ ن الیکشن میں جائے گی۔ کھانے پینے کی بنیادی چیزیں۔ آٹا چینی، چاول اور گھی۔ ان کی قیمتیں اس قدر زیادہ ہوگئی ہیں کہ کسی حکمران میں اللہ کا خوف ہو۔ اس کے اندر کوئی سادہ سی لطیف روح ہو تو گلیوں میں روتا اور اس قوم سے معافیاں مانگتا پھرے لیکن یہاں اقتدار کی کرسی اور سسٹم پر قبضہ کئے رکھنا سب سے اہم اور پہلا نقطہ ہے۔ باقی عوام لوگ یہ ریاست بعد کے مسائل ہیں۔ قرض دینی والے ہمیں اتنا ہی رسوا ہونے دیں گے کہ ہم کبھی عزت دار ہونے کا دعویٰ نہ کر سکیں۔ وہ ہمیں قسطوں میں بھیک دیتے رہیں گے کبھی نو ماہ لگیں گے تو کبھی منت ترلوں میں سال نکل جائے گا۔ جن حکمرانوں سے اس ملک کی بجلی پوری نہیں ہوسکی۔ نظام ٹھیک نہیں ہوسکا۔ ریاستی طاقت کے باوجود بل پورا نہیں وصول کر سکے اور اس کی چوری نہیں روک سکے ۔ اس میں سب حکمران شامل ہیں۔ رینٹل پاور پلانٹ والے بھی شامل ہیں۔ مہنگے بجلی گھر لگانے والے بھی شامل ہیں اور خود کسی کام کاج کے جو نہیں ہیں لیکن مہنگی بجلی پر سیاست کرتے ہیں وہ بھی شامل ہیں۔ ان حکمرانوں نے اور ملک کیا چلانا اور کیا اس قوم کو دینا ہے۔
اگر کچھ واقعی بدلنا ہے کہ تو پہلے حکمرانوں کو گیم کے رولز طے کرنے ہوں گے۔ پہلے سے کئے گئے تماشوں کا حساب نہیں تو اعتراف کرنا لازمی ہوگا۔ میں شاہد خاقان عباسی صاحب کی اس ایک بات سے متفق ہوں کہ اس ملک میں ایک ’’ ٹروتھ کمیشن‘‘ لازمی اب بن جانا چاہئے ۔ اس ملک کے ساتھ جس نے بھی جو جو زیادتی کی ہے۔ کی ہے یا ہوگئی ہے۔ سیاسی انتقام اور غصے کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں ۔ اپوزیشن کو دیوار سے لگاکر اپنے اقتدار کی دیوار کھڑی کرنے والے بھی سچ بول دیں۔ ملک کے وسائل کو اپنی ذات پر لٹانے والے بھی سچ بول دیں۔ نیب کے ذریعے پارٹیاں توڑنے والے بھی سچ بول دیں۔ الیکشن کو تباہ کرنے والے۔ الیکشن کو سلیکشن بنانے والے بھی اپنا سچ بول دیں۔ معیشت پر سیاست کرنے والے بھی اپنا سچ بول دیں۔ اپنے مفاد کے لیے بیرونی اور دشمن قوتوں سے ہاتھ ملانے والے بھی اپنا سچ بول دیں۔ ہر کوئی اپنا گناہ لے کر آئے اور اس کمیشن میں اعتراف کرکے آگے بڑھ جائے۔ اس کے بعد الیکشن ہوں۔ پھر لوگ سب چہرے دیکھ کر فیصلہ کریں کہ اس ملک کے قابل کون ہے اور کس کو اقتدار دیا جانا درست ہوگا۔ شاہد خاقان عباسی صاحب تو پاکستان کی ’’ ری امیجننگ ‘‘ کی بات کرتے ہیں لیکن میں تو کہتا ہوں پاکستان کو مکمل ’’ ری سیٹ‘‘ کرکے نیا آغاز کیا جانا چاہئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button