ColumnImtiaz Ahmad Shad

لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟

لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟

امتیاز احمد شاد
لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں؟ ایک ایسا بنیادی سوال ہے جس کا سامنا ہم سب کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے عزیزوں میں، جاننے والوں میں یا دوستوں میں کوئی نہ کوئی خودکشی کی کوشش لازمی کرتا ہے۔ ان میں سے کچھ بچ جاتے ہیں جبکہ زیادہ تر انتقال کر جاتے ہیں۔ ہر خودکشی کرنے والا اپنے بعد ایک بنیادی سوال چھوڑ جاتا ہے کہ آخر اس نے خود کشی کیوں کی؟ کیا وہ زندگی سے اس قدر تنگ اور مایوس تھا یا اس کے حالات ایسے تھے کہ اس نے موت کو ہی گلے لگا لیا، درجنوں ایسے لوگ جنہیں زندگی کی تمام رعنایاں میسر ہوتی ہیں، وہ بھی خود کشی کر جاتے ہیں تو مطلب یہ ہوا کہ زندگی کی تکالیف اور مصائب کا خود کشی سے اتنا گہرا تعلق نہیں ہے جتنا عمومی طور پر جوڑا جاتا ہے۔ زیادہ تر خودکشی کرنے والوں کے بارے میں یہی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ اسے فلاں مصیبت تھی، فلاں پریشانی تھی یا کوئی فلاں گھمبیر مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے اس نے خود کشی کی حالانکہ زیادہ تر محققین نے ایسی قیاس آرائیوں کو غلط قرار دیا ہے۔ درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ امانت ہے۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ اسلام نے ان اسباب اور موانعات کے تدارک پر مبنی تعلیمات بھی اسی لیے دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانہِ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔ یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ حالیہ دنوں میں جہانگیر خان ترین کے بھائی عالمگیر ترین کی خود کشی بھی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ خبریں ہیں کہ ان کی خود کشی کے پیچھے بھی بلیک میلنگ، عیاشی کے دوران بنائی گئیں نازیبا ویڈیوز کا عمل دخل ہے۔ بہر حال خود کشی کی وجہ کوئی بھی ہو بنیادی کردار ذہنی تنائو کا ہے جو کسی بھی شخص کو کسی بھی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ دنیا میں مسائل ہر ایک کے ساتھ ہوتے ہیں، ان میں سے بعض لوگ مسائل کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں ہی سے ختم کر لیتے ہیں، اسے ہم خودکشی کہتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ خود کشی اسلام میں حرام ہے جبکہ پاکستان پینل کوڈ 306 PPCکے مطابق بھی یہ ایک جرم ہے۔ خود کشی کرنے والوں کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے یعنی جو لوگ ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں وہی ایسے حرام کام کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر سال آٹھ سے10لاکھ لوگ خودکشی کرتے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ سال میں6069 لوگوں نے اپنی زندگی اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کی جن میں3813مرد2250 خواتین اور 6 خواجہ سراء ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن یعنی مایوسی ہے۔ دنیا میں ہر40 سیکنڈ میں ہر ایک فرد خود کشی کرتا ہے۔ پاکستان میں بھی خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، اس کی وجہ سے معاشرے میں پھیلی نا انصافی، افراتفری، بے راہ روی، مایوسی، غربت، مشترکہ خاندانی نظام کا تنزلی کی جانب سفر، تشدد، دماغی اور نفیساتی عوارض و انتشار، طلبہ میں غیر ضروری تعلیمی مسابقت اس کے خاص اسباب ہیں۔ پاکستان میں خود کشی کا بڑھتا ہوا رحجان ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے جس کی ایک بڑی وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی بد اخلاقی اور مذہب سے دوری بھی ہے۔ آج کل ہم اپنے بچوں کو نئی گاڑیاں اور موبائل فونز مہیا کرتے ہیں لیکن انھیں صحیح طرح سے دین کی تعلیم اور فہم نہیں دیتے۔ خودکشی کرنے والا آسانی سے اس کا ارتکاب نہیں کرتا بلکہ وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ بات عام ہے کہ لوگ غربت سے تنگ آکر خود کشی کرتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق ڈپریشن کے ہر 16مریضوں میں سے ایک فرد خودکشی کرتا ہے۔ خودکشی کرنے والے 90فیصد لوگوں میں ذہنی صحت کے ایشوز ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثریت صاحب دولت مگر قلبی سکون سے عاری ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 30کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہے۔ عالمی سروے کے مطابق ہر چوتھا شخص اور ہر دسواں بچہ ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں50لاکھ سے زائد افراد نفسیاتی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جن میں اینگزائٹی اور ڈپریشن سرفہرست ہیں۔ لوگ سیاسی اور معاشی حالات سے پریشان ہوکر بھی خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ ماحولیات کی بناء پر بھی امراض بڑھ رہے ہیں یعنی فضائی اور زمینی آلودگی، بڑھتا ہوا شور وغیرہ۔ زیادہ تر ذہنی امراض لڑکپن میں شروع ہوتے ہیں اور ان کی تشخیص نہیں ہوتی اور نہ ہی علاج ہوتا ہے کیونکہ آگاہی نہ ہونے کے سبب والدین اور اساتذہ ان امراض کی علامات کو پہچان نہیں سکتے۔ پاکستان میں ٹین ایج میں25۔18سال کی عمر والوں میں خودکشیوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ مالدار افراد اخلاقی مسائل کا شکار ہوتے ہیں، اعصابی تنائو ختم کرنے اور سکون آور ادویات کا استعمال عام ہوتا ہے جو بعد میں خود کشی کا سبب بنتا ہے۔ شادی شدہ عورت میں خودکشی کا رسک بڑھ جاتا ہے جبکہ شادی شدہ مرد میں خودکشی کا رسک کم ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں ہر چھ میں سے ایک فرد کو ذہنی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔
10 سے20 سال کی عمر کے نوجوانوں میں گھبراہٹ، خوف، مایوسی، ڈپریشن، منشیات کی لت، غصہ، تشدد، عد م برداشت، فحاشی اور جنسی بے راہ روی، مشاغل کا نہ ہونا، کیئریر کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال اور ان جیسے حالات میں ذہنی ونفسیاتی امراض تیز ی سے بڑھ رہے ہیں۔ یادرکھیے کہ زندگی ایک دفعہ ملتی ہے، اسے اپنے ہاتھوں سے ضائع نہ کیجئے۔ اس مسئلے کے حل کیلئے خاندان، اسکول اور مقامی معالجین کی سطح پر شعور اور آگاہی کے نظام کو بہتر بنا نا ہوگا۔ ذہنی صحت سے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا۔ خودکشی پر آمادہ لوگوں کی کونسلنگ کرنا ہوگی۔ میڈیا کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مثلاً خودکشی سے دور لے جانے والے اخلاقیات بھرے پروگرام متعارف کرانا ہوں گے۔ مختلف سرگرمیوں کے ذریعے مثبت پیغامات دینے ہوںگے، قرآن و سنت کے مطابق عملی زندگی میں مشکلات اور ان کا حل آسان انداز میں عام کرنا ہو گاتا کہ خود کشی ایسے رحجان کو کم کیا جا سکے۔ بین الاقوامی طبی ریسرچ کے مطابق غذا میں سبزیوں اور پھلوں کا استعمال کرنے اور لوگوں سے مثبت رویہ سے پیش آنے سے بھی اس کا تدارک ہو سکتا ہے۔ اسی طرح روزانہ خالی پیٹ 20سے 30منٹ کی واک کرنا، جلدی سونا اور صبح سویرے اٹھنا، زندگی کے معاملات کو مثبت طریقوں اور مثبت سوچ کے ساتھ حل کرنا بھی لوگوں کو خودکشی کی طرف جانے سے روک سکتا ہے۔ اللہ رب العزت کے احکامات اور نبی پاک ٔ کے طریقوں کے مطابق زندگی گزارنا ہوگی، ان تمام کاموں کے ذریعے سے ذہنی صحت کے مسائل سے بچا جاسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button