Ali HassanColumn

آئی ایم ایف عمران خان ملاقات

آئی ایم ایف عمران خان ملاقات

علی حسن
بدھ یعنی آج کے روز آئی ایم ایف کے بورڈ کا اجلاس امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں منعقد ہو رہا ہے جس میں پاکستان کو دیئے جانے والے قرضے کی منظوری دی جائے گی۔ ادارے کا یہ طے شدہ طریقہ کار ہے لیکن اس مرتبہ ادارے کی ٹیم نے حکومت سے تمام معاملات پر کامیاب مذاکرات کے بعد حکومت مخالف جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے لاہور آکر ان کے گھر میں ان سے ملاقات کی۔ عمران خان کے بارے میں ان کے مخالف سیاسی عناصر بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ انہیں نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کی شرائط سے انحراف کیا تھا، غالبا اسی لئے ادارے کی ٹیم نے ان سے ملاقات کی ہے۔ غیر مصدقہ طور پر یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ عمران خان نے ٹیم سے کہا کہ حکومت پر انتخابات کرانے کے لئے دبائو ڈالیں۔ یہ بات تو عمران خان جانتے ہی ہیں کہ موجودہ حکومت جب آئین کے فیصلے سے انحراف کر سکتی ہے اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کر سکتی ہے وہ کیوں کر انتخابات کرانے کے معاملہ پر آئی ایم ایف کے دبائو کو قبول کرے گی۔ ایک اخبار نے خبر لگائی ہے کہ عمران خان نے پروگرام کی منظوری کے بدلے آئی ایم ایف سے پاکستان میں وقت پر انتخابات کی ضمانت مانگ لی لیکن آئی ایم ایف نے ضمانت دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ کسی ملک کے معاملات میں ایک حد سے زیادہ دخل اندازی نہیں کر سکتے۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کو بتایا گیا کہ قرض پروگرام ڈیزائن ہی ایسے کیا ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں، تاہم کوئی ضمانت نہیں دے سکتے۔ آئی ایم ایف کے مقامی معاملات کے لئے سربراہ ناتھن پورٹر نے بتایا کہ نو ماہ کے سٹینڈ بائی پروگرام میں موجودہ حکومت کو ایک ارب ڈالر ہی ملے گا ، ایک ارب ڈالر نگراں حکومت کو ملے گا اور اس کے بعد آخری ایک ارب ڈالر الیکشن کے بعد بننے والی نئی حکومت کو دیا جائے گا۔ بورڈ کے ڈائریکٹرز بارہ جولائی کے اجلاس میں اپنا نکتہ نظر رکھیں گے لیکن ان کا کیا موقف ہوگا اس کے متعلق کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کی ٹیم کی ملاقات پر عمران خان کے حامی بغلیں بجا رہے ہیں کہ ادارہ عمران خان سے ملاقات کرنے پر مجبور ہوا۔ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب عمران خان اور تحریک انصاف شدید دبائو کا شکار ہیں۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ امریکہ نے بھی اس حقیقت کو جان لیا ہے کہ عمران خان پاکستانی سیاست کا وہ مہرہ ہے جس کے بغیر شطرنج کا کھیل ہی ممکن نہیں ہے۔
ایک ٹی وی پروگرام میں سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ عمران خان کا آئی ایم ایف سے الیکشن کی بات کرنا حیران کن ہے، آئی ایم ایف کی پاکستان میں سیاسی جماعتوں سے ملاقاتیں غیر معمولی نہیں ہیں۔ الیکشن کے سال میں پاکستان کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں ایسا ہوا ہے، آئی ایم ایف نے ایکواڈور، میکسیکو اور کولمبیا میں بھی سیاسی جماعتوں سے بات کی تھی۔ عمران خان کی ٹیم نے پچھلی مرتبہ آئی ایم ایف معاہدہ سبوتاژ کرنے کی کوشش کی تھی، آئی ایم ایف ٹیم نے شاید اسی لیے خود جاکر ان سے بات کی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا پاکستان کے الیکشن یا سیاسی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں ہے، عمران خان کو الیکشن کے بارے پوچھنا ہے تو آئی ایم ایف سے نہیں کسی اور سے پوچھیں۔ آئی ایم ایف سے ڈیل کے بعد ڈیفالٹ کا خطرہ ختم اور الیکشن کا راستہ کھل گیا ہے۔ اسی پروگرام میں سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ تحریک انصاف جب تک کمزور نہیں ہوتی الیکشن نہیں ہوں گے۔ سہیل وڑائچ کا تجزیہ معتبر ہے کیوں کہ سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود اسی وجہ سے پنجاب اسمبلی کے الیکشن نہیں کرائے گئے تھے کہ تحریک انصاف کمزور ہو اور تحریک انصاف ہے کہ کمزور ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ آنکھ مچولی کا یہ کھیل کب تک جاری رہتا ہے وہ ہی دیکھنا ہے لیکن آئی ایم ایف نے جس چالاکی سے لیور لگایا ہے اس کے بعد گنجائش ہی نہیں رہتی ہے کہ الیکشن کو مزید ٹالا جا سکے۔ پاکستانی حکمران طبقہ کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ تمام معاملات اپنی سہولت کے حوالے سے دیکھتا ہے خواہ ملک اس کا متحمل ہو یا نہ ہو۔
انتخابات وقت پر ہوں یا نہ ہوں یا سرے سے ہی نہ ہوں ، سیاست میں کوئی نیا رخ آئے یا نہیں آئے، سیاسی جماعتیں نئی صف بندی کریں یا نہیں کریں، یہ سارے معاملات اپنی جگہ لیکن یہ طے ہے کہ ہر کوشش معاشی صورتحال میں بہتری کی محتاج ہے۔ آئی ایم ایف نے تین ارب ڈالر کے قرضہ کا پروگرام اس طرح بنایا ہے کہ موجودہ حکومت کو صرف ایک ارب ڈالر فراہم کئے جائیں گے۔ معاشی صورتحال ٹھیک نہیں ہوگی تو سیاسی صورتحال یوں ہی نہیں بلکہ اس سے زیادہ مخدوش ہو گی۔ عام لوگوں کو اس بات سے غرض نہیں ہے کہ ملک کی معاشی صورت حال بہتر ہوتی ہے یا نہیں بلکہ انہیں تو صرف اور صرف اس بات سے غرض ہے اور فکر بھی ہے کہ انہیں شام کی روٹی ملے گی یا نہیں۔ اب تو وہ تمام ضروریات کو بھلا کر روٹی کا سوچنے لگے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے بارے میں سوچنا انہیں نے بہت پہلے سے چھوڑ دیا ہے۔ علاج معاملہ کے لئے وہ ٹوٹکوں اور عطائی ڈاکٹروں کے محتاج ہیں۔ وہ تو سرکاری ہسپتال بھی نہیں جاتے کہ ڈاکٹر علاج نہیں کرتے ہیں۔ پینے کے لئے صاف شفاف پانی کی ضرورت ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ غرض عام لوگ سرکس میں چلنے والی موٹر سائیکل چلانے والے کی طرح زندگی سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ ممکن ہے عام لوگوں کی یہ بے نیازی پاکستانی حکمران طبقہ کو اچھی لگتی ہو لیکن دنیا بھر کے مہذب ممالک کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button