ColumnImtiaz Ahmad Shad

سیاست ریاست کھا گئی

سیاست ریاست کھا گئی

امتیاز احمد شاد
پاکستان میں ہر دن ظلم اور زیادتی کی ایک نئی داستان رقم ہو رہی ہے، ہر نئی زیادتی کے بعد پہلے والی زیادتی چھوٹی نظر آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے ملک میں اس وقت ایک جنگ جاری ہے، جس میں سب کچھ جائز ہے۔ اس جنگ میں آئینی، قانونی ، دینی، معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہاں کسی شخص کی جان اور مال کتنے محفوظ ہیں اس پر پہلے سوال اٹھتے تھے مگر اب ایسے لگتا ہے اس ملک میں کسی عام و خاص کی عزت بھی محفوظ نہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ایسے محاورے کی عملی شکل پاکستان کے ہر شہر، گلی محلے اور چوک چوراہے پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ بلا تفریق مرد و زن، بوڑھے، بچے سب کے سب اس بے ہنگم جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کچھ لوگ بنیادی ضروریات زندگی کی عدم دستیابی پر آواز اٹھا لیا کرتے تھے مگر آج تو زندگی کا وجود خطرے میں دیکھ کر بھی لبوں سے آہ تک نہیں نکلتی۔ اگر کہیں سے آہ و بکا، چیخ و پکار سنائی دے بھی تو اگلے لمحے زبان بندی کا ایسا لرزہ طاری کرنے والا حکم نامہ جاری ہوتا ہے کہ زمین کی تہہ میں پڑے مردے بھی کانپ اٹھتے ہیں۔ ملکی سیاست میں آڈیو ویڈیو لیک نے ایسا بھونچال پیدا کر دیا کہ بڑے بڑوں نے سیاست سے توبہ کر لی۔ شتر بے مہار سوشل میڈیا نے رہی سہی کسر نکال دی۔ اخلاقی طور پر جن خرافات سے نئی نسل کا بچانا تھا وہ گھر میں بیٹھی با پردہ بچیوں کے موبائل فون پر ثواب سمجھ کر وائرل کی گئی جس کے نتیجے میں متعدد گھرانے ٹوٹے اور معاشرتی بگاڑ الگ سے ہوا۔ سیاست کی کھینچا تانی میں ریاست خطرے میں پڑ گئی مگر بے حس، مفاد پرست سیاستدانوں نے اپنے پائو گوشت کے لئے ریاست ایسے مضبوط اور تندرست و توانا بکرے کو بے رحمی سے ذبح کر ڈالا۔ ریاست کا کام انسانوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنا اور برابری کی سطح پر مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے جبکہ سیاست انسانوں کے اجتماعی مفادات کو ریاستی قوانین کے مطابق ڈھالنے کا نام ہے۔ مگر ہمارے ہاں سب کا سب الٹ ہے۔ ریاست بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے سے قاصر ہے جب کہ سیاست کے میدان میں اجتماعی کے بجائے انفرادی مفادات کو ریاستی آئین اور قانون کو پامال کر کے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کا نام ہے۔ انسانوں نے ریاست کا وجود قائم ہی اسی لئے کیا تھا کہ وہ جنگل کے قانون سے بچ سکیں۔ سترہویں صدی کے انگریز ماہرِ سیاسیات تھامس ہابس کے بقول ریاست کے بغیر اگرچہ ہم دیگر جانوروں کی طرح فطری آزادی کی حالت میں ہی رہتے لیکن ہم سے ہر ایک کو شکار بننے اور شکار کرنے کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا۔ گویا ہر شخص ہر شخص کے خلاف ایک مستقل حالتِ جنگ میں رہتا۔ نہ تو خاندان کی تشکیل ہو پاتی اور نہ تہذیب کی اور نہ ترقی کی۔ ہم اتنی ہی ترقی کر پاتے جتنی بن مانس، ہاتھی یا کوا کر پایا ہے۔
چنانچہ اس صورتحال سے بچنے اور جنگل سے نکلنے کے لیے انسانوں نے ایک معاہدہ عمرانی کیا۔ حقوق سے دستبردار ہوکر کچھ فرائض قبول کئے اور یوں ریاست اور پھر ریاست کو چلانے کے لیے سیا ست اور پھر حکومت کا ادارہ وجود میں آیا۔ جس کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اپنی رعیت کے جان و مال، حرمت اور بھوک و ننگ اور بے گھری سے نجات کو یقینی بنائے گی۔ اس کے عوض رعایا ریاستی قوانین کی خلوص نیت سے پاسداری کریگی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس معاہدہ عمرانی کے بعد ریاست اور رعایا کے درمیان ماں اور اولاد جیسا رشتہ قائم ہوجاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ جس طرح جنگل میں طاقتور جانور کمزور پر ہاتھ صاف کر جاتا ہے اسی طرح ریاست کو بھی طاقتور نے اپنے پنجے میں دبوچ کر کمزوروں کے خلاف ایک ہتھیار بنا لیا۔ اس ہتھیار کے ذریعے کروڑوں کمزور جنگوں میں اجڑ گئے۔ کروڑوں غلام بن گئے اور کروڑوں اپنے سے طاقتور کے گماشتے اور طفیلی بن گئے۔ اگر ہم تقسیم سے قبل بر صغیر کی سیاسی صورتحال کو دیکھیں تو یقینا یہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ طاقت کو دوام رہا اور کمزور ذلیل و رسوا ہوتا رہا۔ ایک صدی پہلے مظلوم، محکوم اور اقلیتی تعداد میں پائے جانے والے برصغیر کے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا گیا کہ ایک ایسی ریاست قائم ہونے والی ہے جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہو گا، ظلم و ستم کے بادل چھٹ جائیں گے، بھوک ننگ کا خاتمہ یقینی ہے اور سب کے پاس اپنی چھت ہو گی۔ کمزور اور نحیف مسلمانوں نے تن من دھن سب قربان کر دیا تاکہ ان کی آنے والی نسلیں غلامی سے بچ کر آزادی کی پر مہک فضا میں سانس لیں گی۔ انسانی تاریخ نے پھر دیکھا کہ وہ ریاست قائم ہوئی جو لاکھوں انسانوں کی خوابوں کی سر زمین تھی۔ نومولود ریاست کے ابتدائی دو عشرے محنت، حکمت عملی اور جذبے سے اس قدر لبریز تھے کہ عوام کی خوشحالی اور ریاست کی ترقی واضح نظر آرہی تھی مگر اس کو رفتہ رفتہ لالچ، بے رحمی اور بے حسی کی دیمک نے ایسے کھوکھلا کر ڈالا کہ آج اس کی بنیادوں میں اپنا لہو دینے والوں کی اولادیںغم و الم کے پہاڑ کے ایسے بوجھ کے نیچے دب چکیں کہ وہ اپنی اگلی نسل کو دیار غیر میں منتقل کرنے پر مجبور ہیں۔ جس کی زندہ مثال یونانی ساحل پر پاکستانیوں کی تیرتی لاشیں ہیں۔ ریاست پاکستان پر متعدد بار مشکلات کے پہاڑ ٹوٹے، قدرتی آفات آئیں، حتی کہ ریاست کا ایک اہم جز مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بن گیا مگر اس قدر مایوسی، بد ظنی اور بد امنی دیکھنے کو نہیں ملی جس قدر آج وطن عزیز میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کسی سطح پر استحکام نظر نہیں آرہا، سیاست، معیشت، ادارے ، حتی کہ قومی مزاج اور رویے عدم استحکام کا شکار ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کون کر رہا ہے؟ ریاست اور ریاستی اداروں سے شہری کیوں بدظن ہورہے ہیں اور کون ہے جن کا رویہ ان کو بدظن کر رہا ہے؟۔ ان سوالات کا اگر بغور جائزہ لیں تو واضح ہو گا کہ مجموعی طور پر سیاستدانوں کے رویوں نے ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ ملک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو چکا، جس کی وجہ سے معاشی بھونچال آگیا، بھوک، افلاس میں مبتلا قوم نی جب حقوق کے لئے کسی بھی سطح پر آواز بلند کرنے کی جسارت کی تو فوری طور پر اس کا گلا دبا دیا گیا اور افسوس انصاف کے ادارے بھی چپ سادھ گئے۔ ناانصافی اور ظلم کا شکار، مفلوق الحال قوم اب یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ شاید سیاست کے طرم خان ریاست کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ اب ریاست میں وہ سکت ہی نہیں رہی کہ وہ قوم کے حقوق کا خیال کر سکے اور فرائض کی ادائیگی کے لئے ان کے اندر جذبہ پیدا کر سکے۔ یہ واضح ہو چکا کہ سیاست میری ریاست کھا گئی۔ کسی بھی ریاست پر اس سے برا وقت کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے شہری ہر لحاظ سے عدم استحکام کا شکار ہو جائیں اور ریاست پر ہی عدم اعتماد کر بیٹھیں۔ ابھی وقت ہے، مانگے تانگے کی معاشی معاونت کے بجائے عوام کو مستحکم کریں، اعتماد بحال کریں، سیاست کو ریاست پر قربان کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ وقت بھی ہاتھ سے نکل جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button