Columnمحمد مبشر انوار

مارچ کے بعد ۔۔۔

مارچ کے بعد ۔۔۔

محمد مبشر انوار( ریاض)
الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ پاکستان فوری طور پر دیوالیہ سے دوچار ہونے سے بچ گیا، آئی ایم ایف نے بالآخر عبوری طرز کا معاہدہ کرتے ہوئے پاکستان کو تین ارب ڈالر کا قرضہ منظور کر لیا ہے، جو شنید ہے کہ تین اقساط میں پاکستان کو جاری ہو گا۔ اسے موجودہ حکومت کی کامیابی تصور کیا جائے یا رجیم چینج کے وعدوں کی تکمیل کہا جائے، صورت کوئی بھی ہو، اس سے انکار ممکن نہیں کہ بہرطور پاکستان فوری دیوالیہ سے بچ نکلا ہے۔ ایک مختصر سی مدت پاکستان کو میسر ہوئی ہے کہ وہ اس دورانئے میں اپنی معیشت کو سنبھال لے، اب یہ حکمرانوں پر منحصر ہے کہ وہ پاکستانی معیشت کو کس طرح سنبھالتے ہیں، کیا اقدامات اٹھاتے ہیں کہ معاشی پہیہ بہتری کی جانب گامزن ہو، ملکی معیشت چلے اور عوام الناس کے حالات بہتر ہوں۔ بظاہر یہ ناممکن سی صورتحال دکھائی دیتی ہے کہ پاکستان اس قلیل مدت میں اپنے معاشی نظام کو بہتر بنا سکے کہ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط حکمران قبل از وقت ہی تسلیم کر چکے ہیں، جن میں روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں کمی واقع ہونے کا فوری امکان موجود نہیں البتہ اس قرض سے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی اونچی اڑان کو بریک ضرور لگی ہے۔ اشیائے روزمرہ کی قیمتوں میں، اس قرض کی منظوری کے فورا بعد اور روسی تیل کی درآمد کے باوجود، تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے ، جس سے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اشیائے ضروریہ مہنگی ہو چکی ہیں۔ لہذا یہ تصور کرنا کہ آئی ایم ایف سے قرض ی صورت ملنے والی رقم سے پاکستان کے دلدر دور ہوجائیں گے، دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں، کہ مہنگائی تو ان ممالک میں بھی تین گنا بڑھ چکی ہے جن کی معیشت انتہائی مضبوط تصور ہوتی ہے۔ یہاں میں سعودی عرب کی مثال دینا چاہوں گا کہ گزشتہ چند برسوں میں سعودی حکومت کئی ایک اصلاحات نافذ کر رہی ہے، جس کے باعث، مہنگائی کی شرح میں کافی اضافہ ہو چکا ہے لیکن اس مہنگائی کا پس منظر قطعا اشرافیہ کی لوٹ مار نہیں بلکہ اس مہنگائی کی وجہ وہ اصلاحات ہیں کہ جن کے باعث یہ مہنگائی متوقع تھی ۔ جبکہ دوسری طرف سعودی عرب میں اشیائے ضروریہ کی کثیر تعداد درآمد کی جاتی ہے اور عالمی معاشی صورتحال کے باعث، درآمد شدہ اشیاء کی قیمت قبل از کرونا بہت بڑھ چکی ہے، جس کا براہ راست اثر مقامی مارکیٹ پر ہوا ہے۔ علاوہ ازیں! یورپ یا امریکہ وغیرہ میں بھی مہنگائی کی شرح قبل از کرونا بہت بڑھ چکی ہے لیکن یہاں عوام الناس ہنوز قوت خرید رکھتی ہے اور حکومتیں سبسڈی بھی فراہم کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے عام آدمی کی صورتحال قدرے مستحکم ہے ۔ ان ممالک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا مقابلہ کسی بھی صورت پاکستانی زر مبادلہ کے ذخائر سے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پاکستان اپنی موجودہ معاشی صورتحال میں عوام کو سبسڈی دینے کے قابل ہے لیکن یہ بھی ممکن نہیں کہ اگر عوام اس سبسڈی سے مستفید نہیں ہو سکتی تو اشرافیہ کو بھی اپنی مراعات سے دستبردار ہونا چاہئے۔ پاکستان میں الٹی گنگا بہنے کے مناظر عام دیکھے جا رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کے فلور پر ایک طرف مٹھی بھی اراکین، بالخصوص جی ڈی اے کی رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو جس طرح عوامی نمائندگی کا حق ادا کر رہی ہیں، وہ نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ حکومت کو چاہئے کہ سائرہ بانو کی تجاویز کو بغور سنیں اور ان پر عمل درآمد کریں تا کہ پاکستانیوں کے لئے کچھ ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ بدقسمتی سے اشرافیہ ایسی کسی تجویز پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں کہ وہ بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ اقتدار کے حصول میں انہیں اب عوامی حمایت سے زیادہ طاقتوروں کی آشیرباد کی ضرورت ہے اور اس کے حصول میں وہ کسی بھی حد سے گزرنے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔
ملکی معیشت کو ٹھوس اور مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے، پاور ؍ انرجی کی بلا تعطل فراہمی ایک جزو لاینفک بن چکا ہے، جس کے بغیر صنعتی ترقی ممکن ہی نہیں رہی، جبکہ پاکستان میں دنیا کی سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے تمام تر وسائل موجود ہیں لیکن اشرافیہ اپنی ہوس زر اور بدنیتی کے باعث، ان وسائل کو بروئے کار لانے سے گریزاں ہے۔ ہنگامی بنیادوں پر مہنگے بجلی گھروں کی تنصیب، اس میں روزانہ کی بنیاد پر کھانچوں کی سہولت نے، ریاستی وسائل کو ان بجلی گھروں کے سامنے کروی تو بنایا ہی تھا، اب ملکی معیشت کو یرغمال کر دیا ہے، صنعتکار کے لئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ اتنی مہنگی بجلی سے اپنی مصنوعات سستے داموں تیار کر سکے، جبکہ چینی مصنوعات عام مارکیٹ میں اس سے کہیں کم قیمت پر میسر ہیں۔ ایسی صورت میں مقامی صنعتکار خسارے کا سودا کیسے اور کیونکر کر سکتا ہے؟ نتیجہ یہ ہے کہ مقامی ہنر مند اور صنعت دن بدن دفن ہوتی جا رہی ہے، پاکستان کے پاس ایسی کوئی قابل ذکر مصنوعات نہیں کہ جس کو عالمی مارکیٹ میں بیچ کر کچھ زر مبادلہ کمایا جا سکے۔ جو چند ایک بچی ہوئی صنعتیں ہیں، ان کا طریقہ کار بھی انتہائی پیچیدہ ہو چکا ہے کہ پاکستان عالمی مارکیٹ میں اپنی ساکھ بوجوہ، جس میں بھارتی فنکاری کا عمل دخل ہونے کے ساتھ ساتھ مقامی برآمد کنندگان کا کردار بھی شامل ہے، لہذا ایسی کئی ایک قابل ذکر مصنوعات اب میڈ ان پاکستان کے نام سے عالمی مندی میں میسر نہیں ہیں۔ جبکہ کل کا مشرقی پاکستان، کہ جن کی عوام کے لباس سے ہماری اشرافیہ کو پٹ سن کی بو آیا کرتی تھی، کاٹن میں خود کفیل نہ ہونے کے باوجود عالمی منڈیوں میں بنگلہ دیش کی بنی ہوئی کاٹن کی مصنوعات وافر میسر ہیں، جن سے بنگلہ دیش انتہائی قیمتی زر مبادلہ کما رہا ہے اور اس کے زرمبادلہ کے ذخائر برکیف پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔ ممکنہ طور پر کچھ احباب اس سب کے باوجود بنگلہ دیش کے آئی ایم ایف پروگرام میں جانے کا حوالہ دیں گے کہ اگر بنگلہ دیش کی ذخائر تسلی بخش ہیں تو پھر بنگلہ دیش کو آئی ایم ایف جانے کی کیا ضرورت تھی؟۔ یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ کیا آئی ایم ایف کے پاس صرف قرض کے حصول کے لئے جانا ہے یا آءی ایم ایف پروگرام میں شمولیت کا مقصد اپنی معیشت کو دستاویزی طور پر مستحکم کرنا ہے؟۔ آئی ایم ایف پروگرامز کا بنیادی مقصد بغور دیکھیں تو یہ حقیقت واضح نظر آتی ہے کہ آئی ایم ایف میں جانیوالے ممالک، جدید طرز پر اپنی ملکی معیشت دستاویز پر استوار کرتے ہوئے، ملکی معیشت کا حجم جانتے ہیں اور اس میں مزید بڑھوتری یا بہتری کے اقدامات کرتے ہیں۔ حتی کہ سعودی عرب بھی ان خطوط پر اپنی معیشت کو استوار کر رہا ہے اور آج VATکی بدولت سعودی معیشت کا حجم حکمرانوں کے علم میں ہے اور ان معلومات کی بنیاد پر مستقبل کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے، یہی صورتحال بھارت کی ہے کہ وہ بھی ایک آئی ایم پروگرام میں شامل ہو کر، اپنی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کر رہا ہے۔ تسلیم کہ ہر آئے روز وہاں میگا کرپشن کے سکینڈل منظر عام پر آتے ہیں لیکن نچلی سطح پر معیشت کو دستاویز کے تابع کیا جا رہا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو سب سے زیادہ مرتبہ آئی ایم ایف کے پروگرامز کر چکا ہے لیکن اس کی معیشت سنبھلنے کی بجائے دن بدن بگڑتی رہی ہے بمصداق مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی، جس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ایک ہی ہے کہ ان قرضوں سے پاکستانی معیشت سنبھلنے کی بجائی مزید دگرگوں ہوئی اور قرضے وصولنے والی اشرافیہ کی ذاتی معیشت اور تجوریاں مسلسل پھلتی پھولتی رہیں، اور آج بھی پھل پھول رہی ہیں۔ اب تو حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ کسی بھی دوست ملک سے لیا جانیوالا قرض، گزشتہ قرضوں کے سود کی ادائیگی میں استعمال ہو جاتا ہے۔ اشرافیہ ہے کہ بنیادی مرض کا علاج کرنے کی بجائے ہنوز اللے تللوں اور سراب میں گم نظر آتی ہے، کرونا کے دوران پاکستان کو ملنے والے مواقعوں میں تسلسل لاتے ہوئے اگر صنعتی پہئے کو متحرک رکھا جاتا تو عین ممکن تھا کہ پاکستانی معیشت اگلے چند سال میں اپنے پائوں پر کھڑی ہو جاتی، کم از کم مزید قرضوں کا حصول درکار نہ ہوتا، بتدریج اپنے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا جاتا لیکن رجیم چینج سے یہ امید بھی دم توڑ چکی اور کل تک آئی پی پیز لگوانے والے اب سولر انرجی کا لالی پاپ لے کر پاکستان میں داخل ہوچکے ہیں۔ کل بھی ان کے نزدیک ذاتی تجوریاں اولین ترجیح تھی اور آج بھی ذاتی تجوریاں ہی اولین ترجیح ہیں، اس سب کے باوجود آئی ایم ایف سے ملنے والا موجودہ قرض، جو مارچ تک میسر ہو گا، اس کے بعد پاکستان کی معاشی سمت کیا ہوگی، یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button