Ahmad NaveedColumn

بھارت کے حسین گناہ

بھارت کے حسین گناہ

احمد نوید
گزشتہ دنوں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی جب امریکہ کے دورے پر پہنچے تو انہیں وائٹ ہائوس میں امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں میڈیا کی جانب سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ وائٹ ہائوس میں امریکی صدر جوبائیڈن کے ساتھ اس مشترکہ پریس کانفرنس میں پہلا سوال وال سٹریٹ جرنل کے ایک رپورٹر کی طرف سے کیا گیا۔ جنہوں نے پوچھا تھا کہ ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے تحفظ کے لیے ایک جمہوریت کے طور پر ہندوستانی حکومت کیا اقدامات کرنے جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے سوال پر مودی نے کہا کہ ہندوستان کی جمہوریت میں امتیازی سلوک کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ پریس کانفرنس میں ہندوستانی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہندوستان تو ہے ہی جمہوریت کا نام ۔ جیسا کہ صدر بائیڈن نے کہا کہ ہندوستان اور امریکہ دونوں کے ڈی این اے میں جمہوریت ہے۔ جمہوریت ہماری رگوں میں ہے۔ ہم جمہوریت جیتے ہیں۔ ہماری حکومت جمہوری اقدار کو مدنظر رکھ کر بنائے گئے آئین پر چلتی ہے۔ اس پریس کانفرنس میں مودی کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ جمہوریت اچھے نتائج دے سکتی ہے۔ ہمارے یہاں ذات، پات، عمر، جنس وغیرہ کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی بالکل جگہ نہیں ہے۔ جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں، اگر انسانی اقدار نہ ہوں، انسانیت نہ ہو، انسانی حقوق نہ ہوں تو اس حکومت کو جمہوریت کہا ہی نہیں جا سکتا۔
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکہ کے دورے کے دوران جمہوریت، مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا چیمپئن بننے کی جو کوشش کی اس کا پول سابق امریکی صدر بارک اوباما نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکہ کے دورے کے دوران ہی سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کھول کر رکھ دیا تھا۔ سی این این کو اپنے انٹرویو میں سابق امریکی صدر بارک اوباما نے کہا کہ اگر میں نریندر مودی سے بات کرتا تو میری بات چیت کا ایک حصہ اس بات پر مشتمل ہوتا کہ اگر وہ ہندوستان میں نسلی اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ فراہم نہیں کریںگے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ کسی نقطہ پر پہنچ کر ہندوستان کا شیرازہ بکھرنا شروع ہو جائے گا۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے اندرونی تنازعات کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا اور یہ ہندوستان کے مفادات کے بھی خلاف ہوگا۔ میرے خیال میں ان چیزوں کے بارے میں ایمانداری سے بات کرنا ضروری ہے۔ ایتھنز میں موجود سابق امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ آمروں یا جمہوریت مخالف رہنمائوں سے ملاقات امریکی صدارتی عہدے کے پیچیدہ پہلوئوں میں سے ایک ہے۔ انہوں نے سی این این کو بتایا کہ جب وہ صدر تھے تو وہ کچھ ایسی شخصیات سے ملتے جلتے تھے کہ جن کے بارے میں اگر آپ مجھ سے نجی طور پر پوچھیں کہ کیا وہ اپنی حکومتیں اور اپنی سیاسی پارٹیاں اس طریقے سے چلاتے ہیں جسے میں جمہوری مانتا ہوں، تو میرا جواب ہوگا کہ نہیں۔ آپ کو ان کے ساتھ کاروبار کرنا ہوگا کیونکہ وہ امریکی مفادات کی وجہ سے اہم ہیں۔ ہندوستان بھی امریکی معاشی مفادات کی وجہ سے امریکا کے لئے اہم ہے۔
اپنے انٹرویو میں سابق امریکی صدر بارک اوباما نے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ اپنے کام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے خراب ریکارڈ کے باجود انہیں نے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ کام کیا تھا۔ اوباما کا یہ تبصرہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات سے چند گھنٹے قبل سامنے آیا تھا۔ اوباما نے ایک سوال کے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ بائیڈن اور مودی کی ملاقات میں ہندو اکثریتی ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کی سلامتی کا ذکر ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا تھا کہ دونوں ملکوں میں ہندو، مسلمان، عیسائی، سکھ، یہودی، بدھ، جین اور بہت سارے مذہب ہیں اور ہم گاندھی کی فلاسفی کو یاد کرتے ہیں کہ جنہوں نے کہا تھا کہ میرے لیے مختلف مذاہب ایک ہی باغ کے خوبصورت پھول ہیں یا ایک ہی درخت کی شاخیں ہیں لیکن آج ہندوستان میں مسلم اقلیتوں کی سلامتی خطرے میں ہے۔
جمہوریت کے دعویدار ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی امریکہ کے دورے کے دوران ہندوستان سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس کے بنیادی اصولوں کے گن گاتے رہے۔ وہ امریکا میں یہ کہتے دکھائی دیتے رہے کہ ہندوستان میں عوام کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ ان تمام لوگوں کے لیے ہیں جو ان کے حقدار ہیں۔ اسی لیے ہندوستان کی اقدار میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔ نہ مذہب کی بنیاد پر، نہ ذات، پات اور عمر یا علاقے کی بنیاد پر جبکہ غور طلب بات یہ ہے کہ مودی کے دورے سے پہلے کئی انسانی حقوق کی تنظیموں اور امریکی قانون سازوں نے امریکی صدر جوبائیڈن کی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران ہندوستان میں انسانی حقوق کے مسائل اور جمہوری زوال کا مسئلہ اٹھانے کی اپیل کی تھی جس پر وائٹ ہائوس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون نے کہا تھا کہ جب امریکہ پریس، مذہبی یا دیگر آزادیوں کے لیے چیلنجز کو دیکھتا ہے توہم اپنے خیالات سے آگاہ کراتے ہیں لیکن ہم ایسا اس طرح سے کرتے ہیں کہ ہم لیکچر دینے یا اس بات پر زور دینے کی کوشش نہیں کرتے، جب تک کہ وہ چیلنجز خود ہمارے سامنے نہ ہوں۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کے امریکہ کے دورے کے دوران انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ نے بھی امریکی صدر سے ہندوستان میں آزادی صحافت کا مسئلہ مودی کے ساتھ اٹھانے کے لئے کہا تھا مگر امریکی صدر جوبائیڈن وائٹ ہائوس میں مودی کے ساتھ بھارتی ڈانس دیکھتے رہے۔
بھارت میں منی پور میں دو ماہ سے پرتشدد واقعات جاری ہیں۔ مساجد میں جے شری رام کے نعرے بلند کئے جارہے ہیں۔ عید قرباں پر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک امریکہ سمت دنیا کے بیشتر ممالک دیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ دنیا اسے بھارت کے حسین گناہ ما نتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button