ColumnImtiaz Aasi

زندان میں پی سی او اور موبائل

زندان میں پی سی او اور موبائل

امتیاز عاصی
ایک عشرہ پہلے تک پنجاب کی جیلوں میں موبائل فونز کا غیر قانونی استعمال جیل ملازمین کی آمدن کا بڑا ذریعہ تھا چنانچہ جیمررز کی تنصیب سے موبائل کے غیر قانونی استعمال کا سلسلہ کچھ رک گیا، اس کے باوجود قیدی اور حوالاتی جیل ملازمین کی مبینہ ملی بھگت سے موبائل کا غیر قانونی استعمال کرتے تھے۔ جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے جیمرز کی رفتار کم کر دی جائے تو سگنلز آجانے کے بعد موبائیل کا سلسلہ چل پڑ جاتا ہے۔ جیل کے ایک چیف چکر نے ہمیں بتایا تھا اسلام آباد پولیس کا ایک سب انسپکٹر کسی کیس میں جیل آیا تو اس سے موبائل برآمد ہو گیا۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے چیف چکر سے کہا پچاس ہزار سے کم مت لینا، یہی ہوا نذرانہ لینے کے بعد اسے چھوڑ دیا گیا ورنہ اسے قصوری چکی میں ایک ماہ گزارنا پڑ جاتا۔ اس واقعہ کے بتانے کا مقصد موبائل فونز کے غیر قانونی استعمال کے بند ہونے سے جیل ملازمین کی آمدن کا اچھا خاصا ذریعہ قریباً ختم ہو گیا ہے۔ پنجاب کی جیلوں میں پی سی او کی تنصیب کے باوجود کوئی دعوے سے نہیں کہہ سکتا کہ جیلوں میں موبائل کا غیر قانونی استعمال بالکل ختم ہو گیا ہے۔ قیدیوں سے موبائل فونز برآمد ہو جائے تو جیل ملازمین کی عید ہو جاتی تھی۔ قیدی ماہانہ بھتہ دے کر باقاعدہ پی سی او چلاتے تھے۔ پی سی او کی تنصیب کے بعد حوالاتیوں اور قیدیوں کو اپنے اہل خانہ سے فون پر بات کرنے کی سہولت کئی سال پہلے دے دی گئی تھی، سزائے موت کے قیدی جنہیں چوبیس گھنٹے میں صرف دو گھنٹے چہل قدمی کے لئے سیلوں سے باہر پہروں میں نکالا جاتا ہے پی سی او کی سہولت نہ دینا بڑی زیادتی تھی۔ حال ہی میں پنجاب حکومت نے پی سی او کی سہولت کا دائرہ کار سزائے موت کے قیدیوں تک بڑھانے کا اعلان کیا ہے جو خوش آئند ہے۔ حوالاتیوں اور قیدیوں کو پی سی او پر بات کرنے کے لئے مختص جگہ لے جایا جاتا ہے لیکن سزائے موت کے قیدیوں کو ان کے سرکلوں سے دوسری جگہوں پر لے جانا ممکن نہیں ہوتا۔ پہلی بات تو یہ ہے کسی جیل میں اتنی تعداد میں ہتھکڑیاں نہیں ہوں گی کہ وہ موت کی سزا پانے والوں کو لگا کر ان کے سرکلوں سے کسی دوسری جگہ لے جا سکیں۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب پی سی او سزائے موت کے ہر سرکل میں نصب کئے جائیں تاکہ موت کی سزا پانے والوں کو اپنے اپنے سرکل میں رہتے ہوئے پی سی او پر اپنے گھر والوں سے بات کر سکیں۔ اب تک قیدی مرد اور خواتین کو ان کی باری کے روز بیرکس سے پی سی او تک لے جایا جاتا ہے۔ نئے پروگرام کے مطابق پی سی او کی تنصیب سزائے موت کے سرکلوں کے علاوہ نوعمر وارڈز اور خواتین کی وارڈز میں ہوگی تاکہ سزائے موت کے قیدیوں کی طرح خواتین، نوعمر قیدیوں اور حوالاتیوں کو ان کے وارڈز سے باہر نہ جانا پڑے۔ پنجاب حکومت نے جیل ریفارمز لانے کا اعلان تو بہت پہلے کیا تھا البتہ اب مرحلہ وار اس پر عمل درآمدہو رہاہے۔ حکومت نے ایکسپلوسو ایکٹ کے تحت سزا پانے والے قیدیوں کی سزائوں میں رعایت دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ایسے قیدی جن سے صرف بارودی مواد برآمد ہوگا اسے دہشت گردی کرنے والوں کے مساوی قرار نہیں دیا گیا ہے لہٰذا اب وہ قیدیوں کو ملنے والے ماہانہ کواٹرز اور صوبائی معافیوں کے حقدار ہوں گے۔ کئی عشرے پہلے تک موت کی سزا پانے والے قیدیوں کو سزائے موت کی چکیوں میں ٹائلٹ کی سہولت نہیں تھی اور نہ انہیں پانی کی سہولت میسر تھی، وقت گزرنے کے ساتھ سزائے موت کے سیلوں میں جدید ٹائیلٹ سسٹم اور پینے کا پانی وافر مقدار میں میسر ہے۔ بعض فلاح و بہبود کی غیر سرکاری تنظیموں کی وساطت سے جیل حکام نے جیلوں میں پانی کے بور کرا دیئے ہیں جس سے صوبے کی کسی جیل میں نہ تو ٹائلٹ اور نہ صاف پانی کا کوئی مسئلہ ہے ورنہ ایک دور میں سزائے موت کے قیدی گندے پانی کو نتھار کر پیا کرتے تھے۔ ٹائلٹ کی تو سزائے موت کے قیدیوں کو سہولت اس طرح میسر تھی لوہے کے ٹین میں ریت ڈال کر رکھ دیا جاتا تھا۔ گرم موسم میں پنکھوں کا تصور نہیں تھا۔ اب تو ہر جیل خواہ وہ ڈسٹرکٹ ہو یا سنٹرل پنکھوں کا
انتظام ہے۔ سزائے موت کے قیدیوں کو پی سی او کی سہولت کا سب سے بڑا فائدہ جہاں قیدیوں کو ہوگا وہاں جیل حکام کے مسائل میں کافی حد تک کمی ہو جائے گی۔ سزائے موت کی چکیوں میں بند رہ کر اور گھر والوں سے دوری بہت سے اخلاقی اور انتظامی مسائل کا باعث ہے، پی سی او کی سہولت سے ان کے خاتمے میں خاصی مد د ملے گی۔ مشرف دور سے فوجداری مقدمات میں سزا یاب ہونے والے قیدیوں کو معافی دینے کا سلسلہ بند ہو چکا تھا خاص طور پر دہشت گردی کی دفعات میں سزا یافتہ قیدیوں کو معافی بالکل بند تھی۔ چلیں حکومت کی طرف سے کچھ قیدیوں کو فائدہ ہو گا۔ موجودہ دور میں سزائے موت کے قیدیوں کو جو سہولتیں میسر ہیں ماضی میں ان کا تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آج کل سزائے موت کے قیدی اپنے سرکل کے پہروں میں بغیر ہتھکڑی کے ڈھلائی کرتے ہیں ورنہ بیس برس پہلے قیدیوں کو ہتھکڑی لگا کر ڈھلائی دیا کرتے تھے تاکہ قیدی آپس میں کہیں لڑائی جھگڑا نہ کر سکیں۔ یہاں تک کہ سیلوں کی چکیوں کو باری باری کھولا جاتا تھا۔ اب تو پہروں کے قیدیوں کو بیک وقت چہل قدمی کے لئے کھول دیا جا تا ہے۔ ایک طویل عرصے بعد گریڈ سترہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کو گریڈ اٹھارہ میں سپرنٹنڈنٹس کے عہدے پر ترقی دینے سے جیل افسران دل جمعی سے اپنے فرائض انجام دیں گے۔ پنجاب حکومت کو قیدیوں کو حوالاتیوں کی طرح عام کپڑے پہننے کی اجازت دے دینی چاہیے جس سے خزانے پر مالی بوجھ کم کرنے میں خاصی مدد ملے گی۔ ویسے بھی ٹوری قسم کے قیدی پرائیویٹ کپڑے پہن کر چہل قدمی کرتے ہیں لہٰذا تمام قیدیوں کو پرائیویٹ کپڑے پہننے کی اجازت سے حکومت کو مالی بچت بھی ہوگی۔ پنجاب حکومت کو پیرول پر رہائی کے منتظر قیدیوں کے کیسز پر جلد فیصلہ کرنا چاہیے تاکہ برسوں سے قید لوگ اپنے اہل و عیال کے لئے معاش کا ذریعہ بن سکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button