Ahmad NaveedColumn

ہندوستان اور پاکستان کو افراتفری میں تقسیم کیا گیا

احمد نوید

تقسیم کی لاکھوں المناک کہانیوں کے ساتھ اگست پھر آنے والا ہے! دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ کے پاس اپنے سب سے بڑے سامراجی اثاثے کو کنٹرول کرنے کے لئے وسائل نہیں تھے اور اسے ہندوستان سے ہر صورت نکلنا تھا۔ لیکن وہ نہایت عجلت اور اناڑی طریقے سے ہندوستان سے بھاگے۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ ہندوستان میں برطانوی حکمرانی طویل عرصے سے پرتشدد بغاوتوں کی زد میں تھی۔ اس لئے برطانیہ کو واپس لوٹنا تھا، مگر وہ جاتے جاتے ہندوستان کی دو قوموں میں نفرت کے بیج بو گئے۔ جس کا میٹھا پھل آج تک ہندو اور مسلمان کھا رہے ہیں۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کی پولرائزیشن بیسویں صدی کی چند ابتدائی دہائیوں کے دوران ہوئی، لیکن صدی کے وسط تک یہ اس قدر بڑھ گئی کہ دونوں طرف کے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے اب پرامن طریقے سے ساتھ رہنا ناممکن ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں وہ کمیونٹیز جو تقریباً ایک ہزار سال سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ اچانک تشدد کے خوفناک حملوں کی زد میں آ گئیں۔ قتل عام، آتش زنی، اجتماعی اغوا اور جنسی تشدد کے ساتھ تقریباً 75ہزار خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ کچھ برطانوی فوجیوں اور صحافیوں نے جنہوں نے نازی موت کے کیمپوں کا مشاہدہ کیا تھا، دعویٰ کیا کہ تقسیم کی بربریتیں اس سے بدتر تھیں۔ شیر خوار بچوں کو آگ پر بھنا ہوا پایا گیا۔ المناک ہجرت جب اپنے اختتام کو پہنچی تو پندرہ ملین سے زیادہ لوگ دربدر ہوئے تھے اور ایک سے دو ملین کے درمیان ہلاک ہو چکے تھے۔ اس المناک تقسیم پر مورخین کا خیال ہے کہ سیاستدانوں کے درمیان شخصیات کے تصادم نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا۔ انیس سو چالیس کے اوائل تک ان کے تعلقات اس قدر زہر آلود ہو چکے تھے کہ انہیں بمشکل ایک کمرے میں بیٹھنے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ قائد محمد علی جناح ؒ پاکستان کی تخلیق کا سب سے بڑا کردار ہیں۔ جبکہ ہندوستانی انہیں اپنا سب سے بڑا ولن سمجھتے ہیں، مگر پاکستانیوں کے لئے وہ بابائے قوم ہیں۔ تاہم فرانسیسی مورخین کا خیال ہے کہ پاکستانیوں نے انہیں صرف اسلامی لباس میں بینک کے نوٹوں پر نظر آنے تک محدود کر دیا ہے۔ ان کی متوازن شخصیت سے پاکستانیوں کو کوئی لینا دینا نہیں۔ مورخین کا ماننا ہے کہ جناحؒ کئی طریقوں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے ایک حیران کن معمار تھے۔ وہ صاف ستھری اور سجیلی شخصیت کے مالک تھے۔ مارچ 1947ء میں لارڈ لوئس مائونٹ بیٹن آخری وائسرائے کے طور پر دہلی پہنچا تھا۔ اس کا مشن اقتدار سونپنا اور جلد از جلد ہندوستان سے نکل جانا تھا۔ جون کے اوائل میں، مائونٹ بیٹن نے 15اگست 1947کو اقتدار کی منتقلی کی تاریخ کے طور پر توقع سے دس ماہ پہلے کا اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا۔ اس جلد بازی کی وجوہات اب بھی بحث کا موضوع ہیں، تاہم جلد بازی نے افراتفری کو مزید بڑھا دیا۔ ایک برطانوی جج سیرل ریڈکلف کو دو نئی ریاستوں کی سرحدیں کھینچنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا۔ اسے جنوبی ایشیا کا نقشہ دوبارہ بنانے کے لیے بمشکل چالیس دن کا وقت دیا گیا۔ ہندوستان کی آزادی کے دو دن بعد بالآخر سرحدوں کا اعلان کر دیا گیا۔ تنازعات سے بھری اس تقسیم پر کوئی فریق بھی خوش نہیں تھا۔ مائونٹ بیٹن نے سب کو اس تقسیم کو ماننے پر مجبور کیا تھا۔ لاہور ہندوستان کو جانا تھا ، مگر پاکستان کو دیا گیا۔ گرداس پور اور پٹھان کوٹ کشمیر تک رسائی کیلئے ہندوستان کو سونپ دیئے گئے۔ جناحؒ جنہوں نے ایک نیا ملک بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ انہیں دو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ریاست دی گئی تھی۔ ہندوستان کی مشرقی اور مغربی انتہائوں کا ایک ٹکڑا جو ایک ہزار میل ہندوستانی سرزمین سے الگ کیا گیا تھا۔ یہ ایک معذور زمین کا وہ ٹکڑا تھا، جس کے لئے جناحؒ نے فائٹ نہیں کی تھی۔ پنجاب اور بنگال کی تقسیم سے ایک نئے ملک پاکستان کے لئے مستقبل کی سنگین پریشانیوں کے بیج بوئے گئے تھے۔ 14اگست 1947کی شام نئی دہلی میں وائسرائے ہائوس میں مائونٹ بیٹن اور ان کی اہلیہ فلم’’ مائی فیورٹ برونیٹ‘‘ دیکھ رہیں تھے اور باہر تقسیم کی قتل و غارت جاری تھی۔ نئی دہلی کی محفوظ انکلیو کے باہر خوف و ہراس جاری تھا۔ اسی شام لاہور میں موجود برطانوی اہلکار ریلوے سٹیشن سے بمبئی ایکسپریس میں سوار ہوئے، جیسے ہی بمبئی ایکسپریس لاہور سے باہر نکلی اور اپنا سفر جنوب کی طرف شروع کیا۔ برطانوی اہلکاروں نے دیکھا کہ پنجاب جل رہا ہے۔ چند مہینوں میں جنوبی ایشیا کا منظر نامہ بدل گیا تھا۔ 1941میں کراچی میں جسے پاکستان کا پہلا دارالحکومت نامزد کیا گیا، 47.6فیصد ہندو تھے۔ ہندوستان کا دارالحکومت دہلی ایک تہائی مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ دہائی کے آخر تک کراچی کے تقریباً تمام ہندو بھاگ چکے تھے۔ جبکہ دو لاکھ مسلمانوں کو دہلی سے زبردستی نکال دیا گیا تھا۔ چند مہینوں میں کی گئی تبدیلیاں دہائیوں بعد بھی انمٹ رہتی ہیں۔ تقسیم کی لاکھوں المناک کہانیوں کے ساتھ اگست پھر آنے والا ہے!۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button