ColumnRoshan Lal

جماعت اسلامی اور وہ ہوائیں

روشن لعل

جماعت اسلامی کو عام طور پر پاکستان کی ایک منفرد سیاسی جماعت تصور کیا جاتا ہے۔ اس تصور کے باوجود، جن اوصاف کی بنا پر پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت پر تحفظات ظاہر کئے جاسکتے ہیں وہ بڑی حد تک جماعت اسلامی میں بھی موجود ہیں۔ کئی دیگر خاصیتوں کے ساتھ جماعت اسلامی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی عوامی پذیرائی پر ہمیشہ سوالیہ نشان موجود رہا ہے۔ اپنی عوامی پذیرائی پر سوالیہ نشان کے باوجود جماعت اسلامی نے بنگلہ دیش کے قیام سے قبل اس یقین کے ساتھ1970کے عام انتخابات میں حصہ لیا کہ ملک کے مشرقی اور مغربی حصوں میں اسے اتنی زبردست کامیابی ملے گی کہ اس کے علاوہ کوئی بھی دوسری پارٹی حکومت بنانے کا دعویٰ نہیں کر سکے گی۔ اس یقین کے باوجود جماعت اسلامی قومی اسمبلی کی صرف چار سیٹیں جیت سکی تھی۔1970ء کے انتخابات کے نتائج سے قبل جماعت اسلامی یہ خواب دیکھتی رہی کہ حکومت بنانے کے بعد وہ پاکستان میں اپنی مذہبی توجیہات کے مطابق نظام نافذ کرکے رہے گی۔ پرانے خواب چکنا چور ہونے پر جماعت اسلامی نے کچھ سیاسی و مذہبی گروہوں کو ہم خیال تصور کرتے ہوئے ان کے ساتھ اتحاد بنانے کے نئے خواب دیکھنا شروع کر دیئے۔ ایسے مبینہ ہم خیال گروہوں کے ساتھ مل کر جماعت اسلامی نے بھٹو کے خلاف1977کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے قومی اتحاد بنایا۔ قومی اتحاد کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے تحت بھٹو کے خلاف چلائی گئی تحریک کے نتیجے میں ضیاء الحق کا مارشل لا نافذ ہو نے کے کچھ عرصہ بعد اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں نے تو پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر بحالی جمہوریت کی تحریک شروع کردی مگر جماعت اسلامی نے افغان جہاد کے نام پر لڑی جانے والی امریکی جنگ میں ضیاء الحق کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ جماعت اسلامی کی طرح ضیا کا ساتھ دینے والے دوسرے لوگوں کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ ضیا دور میں جماعت اسلامی اپنے مفادات کے تحت کبھی مسلم لیگیوں کے قریب اور کبھی ان سے دور ہوتی رہی۔ ان دوریوں نزدیکیوں کے لیے جماعت اسلامی کی طلبہ سیاست سے وابستہ مفادات نے بنیادی کردار ادا کیا۔ جماعت اسلامی نے نہ صرف ضیا کے صدارتی ریفرنڈم کی حمایت کی بلکہ اس کے کرائے گئے غیر جماعتی انتخابات میں بھی بھر پور حصہ لیا۔ ان غیر جماعتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو توقعات کے مطابق فائدہ نہ ہو سکا۔ ان انتخابات سے قبل لاہور شہر میں طلبہ سیاست کی وجہ سے میاں نوازشریف اور جماعت اسلامی کے درمیان چپقلش شروع ہو گئی تھی۔ اس چپقلش کے اثرات میاں نوازشریف کے
خلاف غیر جماعتی الیکشن میں حصہ لینے والے جماعت اسلامی کے سید اسعد گیلانی کی انتخابی مہم میں بھی نظر آئے۔ لاہور سے جماعت اسلامی کے تین ایم این اے جیتے مگر نوازشریف کے مقابلے میں سید اسعد گیلانی ہار گئے۔ حسب روایت جماعت اسلامی نے اسعد گیلانی کی شکست کو میاں نوازشریف کی طرف سے کی گئی بدترین دھاندلی کا نتیجہ قرار دیا۔ میاں نوازشریف نے لاہور سے قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی نشست بھی جیتی تھی۔ جب انہوں نے پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کی خواہش کے تحت قومی اسمبلی کی نشست چھوڑی تو اس پر سید اسعد گیلانی نے ضمنی الیکشن میں بھی دوبارہ حصہ لیا۔ میاں نوازشریف کے کہنے پر ان حواریوں نے اسعد گیلانی کے ساتھ اسی طرح تعاون کیا جس طرح کا تعاون وہ قبل ازیں میاں صاحب کو فراہم کر چکے تھے۔ اس تعاون کی وجہ سے جماعت اسلامی نے کچھ عرصہ میاں نوازشریف کے لیے نرم رویہ اختیار کئے رکھا۔ جب میاں نوازشریف وزیر اعلیٰ پنجاب بنے تو ان نام نہاد طالب علم لیڈروں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا جو مارشل لا کے دوران جماعت اسلامی کی اسلامی جمعیت طلبہ کے سامنے کسی حد تک دب کر رہتے تھے۔ میاں نوازشریف کے ایسے حامی طلبہ کے ساتھ ایک لڑائی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے نواز خان نامی ایک سٹوڈنٹ لیڈر کی موت واقع ہو گئی۔ جماعت اسلامی سے وابستہ طالب علموں نے میاں نوازشریف کو نواز خان کی موت کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے لاہور کی ہر دیوار پر ’’ نواز کے بدلے نوازشریف‘‘ کا نعرہ لکھ دیا۔ ان نعروں کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ1988کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوگیا۔ اس الیکشن میں جماعت اسلامی جنرل (ر) حمید گل کی کاوشوں سے میاں نوازشریف کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے خلاف بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ بن گئی۔ یوں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کے وہ نوجوان جو چند ماہ پہلے تک دیواروں پر ’’ نواز کے بدلے نوازشریف‘‘ جیسے نعرے لکھا کرتے تھے وہ میاں نوازشریف کی تقریروں کے لیے سٹیج سجاتے ہوئے نظر آنے لگے۔ میاں نوازشریف کے ساتھ جماعت اسلامی کی دوریوں نزدیکیوں کا یہ سلسلہ اس کے بعد بھی جاری رہا۔
بعض لوگوں کے لیے یہ بات شاید حیران کن ہوکہ میاں نوازشریف کی نسبت پیپلز پارٹی کی قیادت سے بہت زیادہ فاصلے پر نظر آنے والی جماعت اسلامی ایک وقت پی پی پی کے بھی کچھ نزدیک ہوئی تھی۔ کراچی میں میئر کے عہدے کے لیے ہونے والے حالیہ الیکشن میں جماعت اسلامی، پی پی پی کی بد ترین دشمن بنی نظر آئی، اسی جماعت اسلامی نے مشرف دور میں ہونے والے ناظم لاہور کے ایک الیکشن میں پیپلز پارٹی کا اتحادی بن کر اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رکن میاں عامر کے خلاف حصہ لیا تھا۔ اس الیکشن کے کونسلر ووٹروں میں پیپلز پارٹی سے وابستہ لوگوں کی تعداد حالانکہ زیادہ تھی مگر مسلم لیگ ن کے اصرار پر پی پی پی کو ناظم کا بڑا عہدہ جماعت اسلامی کے مرحوم حافظ سلمان بٹ کے لیے چھوڑکر اپنے امیدوار عزیز الرحمان چن کے لیے نائب ناظم کے معمولی عہدی پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔ حافظ سلمان بٹ اور عزیزالرحمان چن کی جوڑی میاں عامر کے مقابلے میں بری طرح شکست سے دوچار ہوئی۔ اس الیکشن کی شکست کی وجوہات میں دھاندلی کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی بیان کی گئی تھی کہ پی پی پی کے کئی کونسلروں نے ان تحفظات کے تحت ا پنی پارٹی کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ووٹ نہ دیا کہ پیپلز پارٹی کے کونسلروں کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود کیوں حافظ سلمان بٹ کو ناظم کا امیدوار تسلیم کیا گیا۔
میئر کراچی کے حالیہ الیکشن کے نتیجے سے پہلے اور بعد میں شہید ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی پر جماعت اسلامی کی طرف سے جس سیاق و سباق کے تحت الزامات لگائے جارہے ہیں وہ سیاق و سباق اس وقت بھی موجود تھا جب جماعت اسلامی نے مشرف دور میں لاہور کی نظامت کے لیے پی پی پی کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔ آج بھی اگر پیپلز پارٹی زیادہ سیٹیں ہونے کے باوجود جماعت اسلامی کو میئر کراچی کا عہدہ دے کر خود ڈپٹی میئر کے عہدے پر گزارہ کر لیتی تو جماعت اسلامی اور اس کے حواریوں کے ذہن میں کبھی وہ الزامات نہ آتے جن کا وہ اب تو اٹھتے بیٹھتے ذکر کر رہے ہیں۔ اپنی خواہشوں پر اوس پڑی دیکھ کر جماعت اسلامی کے لوگ اس وقت کچھ بھی کہنے اور کرنے کے لیے تیار نظر آ رہے ہیں مگر شاید انہیں احساس نہیں کہ اب وہ ہوائیں چلنا بند ہو چکی ہیں جو انہیں ضیا اور مشرف کے دور میں دستیاب ہوا کرتی تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button