ColumnJabaar Ch

تخریب .. جبار چودھری

جبار چودھری

جب کوئی دیوار یا عمارت بنائی جارہی ہوتی ہے تو اس کے نازنخرے ہی الگ ہوتے ہیں۔ بنیادیں کھودی جاتی ہیں۔زمین کو مضبوط کیا جاتاہے۔ لیول کیا جاتا ہے ۔ایک ایک اینٹ سیدھی اورترتیب کا خیال ۔سیمنٹ کی تیاری میں تمام اجزا کی مناسب مقدار اورپھرعین نقشے کے مطابق اس کا قد کاٹھ ۔ڈیزائن اور خوبصورتی کا مکمل سامان۔اس کے بعد دل لبھانے والارنگ و روغن ۔لیکن جب دیوار کوتوڑاجاتا ہے توپھر نہ کسی نقشے کا خیال رکھا جاتا ہے نہ کوئی ترتیب اور نہ ہی کوئی سمت۔جوکمزور اینٹ ہاتھ لگی وہیں سے شروع ۔پھر ہتھوڑا،کدال اور گینتی کے مسلسل وار۔دیوارکوبنانا تعمیراور گرانا تخریب ۔تعمیرانسان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہے لیکن تخریب تکلیف دہ ہوتی ہے۔بنی ہوئی عمارت کی توڑپھوڑبلاوجہ کوئی نہیں کرتا۔عمومی طورپردووجوہات ہوتی ہیں۔ ایک تویہ کہ عمارت بوسیدہ ہوجائے اورگرنے کا خطرہ ہواور دوسرااس کی بنیاد غلط پڑجائے۔عمارت ٹیڑھی بن جائے یا ہوجائے۔ آجکل ہمارے ہاں بھی پی ٹی آئی کی عمارت کی توڑپھوڑجاری ہے۔جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کی توڑپھوڑکوئی بہترکارنامہ نہیں کہلاتا۔لیکن یہاں چلتا ہے۔کیا ذمہ دارصرف توڑنے والے ہی ہیں یا وہ زیادہ ذمہ دارجو ٹوٹنے اور کسی کے ساتھ بھی جڑنے کے لیے ہروقت تیار رہتے ہیں؟آئین نے تریسٹھ اے کے تحت فلوکراسنگ پر پابندی لگارکھی ہے ۔اور مائی لارڈ نے اس کو دوبارہ ضبط تحریر میں لاتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی اورعمران خان اینڈکمپنی کے لیے ووٹ تک شمارکرنے پر پابندی لگادی ۔لیکن یہ جو ایوان سے باہر فلورکراسنگ ہوتی ہے اس پر مائی لارڈزبھی خاموش ہیں۔ شاید اس لیے خاموش ہیں کہ براہ راست ان کے کسی اختیارکو چیلنج درپیش نہیں ہے ورنہ تو بیک جنبش پریس ریلیز تین یا پانچ رکنی بینچ تشکیل پاچکا ہوتا۔عجب مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں کہ منصف اپنے خلاف ہرکیس کی سنوائی خود ہی کیے جاتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ عدلیہ اور منصف کہاں ہیں یا کہاں چلے گئے ہیں جو مفادات کے ٹکرائو کے شبہ میں بھی بینچ چھوڑدیا کرتے ہیں۔ہمارے ہاں بھلے عدلیہ کا نمبر دنیا کے ایک سو چالیس ممالک میں ایک سو تیسواں ہو لیکن مائی لارڈزاپنے خلاف مقدمہ خود ہی سنتے ہیں ۔بلکہ ایسے مقدمات کے لیے فرمائشی اور آرڈر پرپٹیشنیں کروانا بھی شرمناک دھندہ ہے۔ مائی لارڈز سے متعلق آڈیوزسامنے آئیں۔ چودھری پرویز الٰہی اور جوجا صاحب کی گفتگوپورے ملک نے سنی اورپھر ویسا ہی ہوا۔مائی لارڈ جسٹس اعجازالاحسن صاحب اورمائی لارڈجسٹس مظاہرعلی اکبرنقوی کے پاس سی سی پی او لاہور کا کیس لگایا گیا۔ اس ٹرانسفرپوسٹنگ کے ایک کیس سے بالکل اسی طرح الیکشن پر سوموٹونکل آیا جیسے نوازشریف کے کیس میں پانامہ سے اقامہ نکال کرتاحیات نااہلی کی سزاصادرکردی گئی تھی۔ایسی منظم پلاننگ کسی مہذب ملک تو دورافریقی ملک میں بھی سامنے آتی تو کسی نہ کسی منصف کو عبرت کا نشان بنادیا گیا ہوتا لیکن ہمارے ہاں یہ مکمل پیٹرن موجود ہے۔ جب عمران خان صاحب گرفتارہوئے تو ان کی آڈیوسامنے آئی ۔وہ مسرت چیمہ کو کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں میری گرفتاری چیلنج کرو۔پھر وہ چیلنج ہوگئی اور انصاف مرسڈیز میں ڈال کرریسٹ ہاؤس میں ڈیلیورکردیا گیا۔اسی رات جب انصاف ڈیلیورہورہا تھا۔سینئر رپورٹر عبدالقیوم صدیقی اورخواجہ طارق رحیم کی آڈیوآئی کہ اگلے دن اسلام آباد ہائی کورٹ میں کیا ہوگا۔اس سکرپٹ میں صرف جج کا نام تبدیل ہوا۔جج کی جگہ مائی لارڈمیاں گل حسن اورنگزیب نے لے لی لیکن ریمانڈ کے دوران ہی عمران خان کو بحفاظت زمان پارک پہنچادیا گیا۔تھی تو شرارت ہی لیکن وفاقی حکومت نے جوابی وارکیا اورآڈیولیکس پر کمیشن بنادیا۔حالانکہ اگر مائی لارڈانصاف کی اعلیٰ مثال قائم کرنے کے روادار ہوتے تو جس وقت پرویز الٰہی کی آڈیو سامنے آئی تھی اس سے اگلے دن سب کردارکورٹ روم نمبرایک میں کھڑے ہوتے ۔لیکن سب کچھ پلان کے مطابق ہونے دیا گیا۔سپریم کورٹ بار کے صدرعابد زبیری بھی اسی سپریم کورٹ میں ۔ معزز چیف جسٹس کے سامنے وکالت کے چشمے بہاتے رہے لیکن مجال ہے کسی بہانے سے ہی پوچھ لیا ہوکہ زبیری صاحب آپ سپریم کورٹ بار کے صدر ہیں ۔یہ کیا دھندہ کرتے ہیں یہاں میری عدالت میں کہ مقدمات کے بینچ فکس کرواتے ہیں ؟ لیکن نہیں کبھی نہیں ۔بلکہ عابد زبیری بھی خاموش رہے ۔جب وفاقی حکومت نے عدلیہ سے جاری تصادم میں اپنا اگلا پتہ شوکروایا اورکمیشن بنادیا تو سب سے پہلے اس کو جناب عمران خان نے چیلنج کیا۔عمران خان صاحب اس پورے کیس میں’’ توکون میں خوامخوا ‘‘سے زیادہ نہیں ہیں لیکن انہوں نے اسی رات درخواست ڈال دی ۔اس پر سماعت نہ ہوئی کہ مائی لارڈ کو اس کیس کو بھاری بھرکم وزن داربنانا تھا ۔پھر وہی عابد زبیری کو حکم ملا کہ آپ بھی پٹیشن لے آئیں۔ عابد زبیری کی اس فرمائشی پٹیشن کا بھانڈا سپریم کورٹ کے سینئررپورٹر۔ جناب عمران وسیم بول نیوزپرعابد زبیری کے ساتھ پروگرام میں بیٹھ کر پھوڑچکے۔عمران وسیم نے انکشاف کیا کہ جناب عابدزبیری کی پٹیشن جب تیار ہورہی تھی تو سپریم کورٹ کا عملہ ان کے ساتھ تھا۔اب آپ کرلیں اس انصاف کی جانچ ۔تیسری درخواست پیشہ وردرخواست باز عابد راہی سے لکھوائی گئی ۔اس کے بعد فوری پانچ رکنی بینچ بنا۔جونئیرججز بینچ میں شامل کیے گئے۔آدھ گھنٹے کی سماعت ہوئی ۔درخواست دینے والوں کو سنا گیا۔اٹارنی جنرل نے منہ پر ہی کہہ دیا کہ مائی لارڈ آپ کدھر؟ یہ لیکس تو ساری آپ اور آپ کی عدالت کے گردطواف کررہی ہیں آپ اس کیس میں منصف کیسے ہوسکتے ہیں لیکن مائی لارڈ نے کہا کہ انصاف تو وہی کریں گے ۔اٹارنی جنرل نے کہا کمیشن غیرقانونی کیسے کہ قانون میں کہاں لکھا ہے کہ حکومت کمیشن بنانے کے لیے کسی سے پیشگی اجازت لینے کی پابندہے؟مائی لارڈ نے کہا قانون کا پتہ نہیں لیکن روایت ہے کہ چیف جسٹس کو کہا جاتاہے ۔یوں قانون کو چھوڑکر روایت کو بنیاد بناکر نئی روایت ڈال دی گئی۔اچھا چلیں کمیشن کی کارروائی روکنے پر بھی جبرکرلیتے ہیں ۔کمیشن کو سنے بغیر فیصلہ دینے پر اعتراض کو بھی پیا جاسکتا ہے اگرمائی لارڈ فیصلہ یہ دے دیتے کہ یہ عدلیہ اور ججز پر حملہ ہے ہم خود اس معاملے کو سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل میں چلائیں گے۔لیکن ایسا نہیں ہوا نہ ہوگا۔انہوں نے اس کمیشن کو اسٹے کردیا ہے اب نہ کبھی اس کیس کا فیصلہ ہوگا نہ اس کی ضرورت محسوس کی جائے گی کہ وطن عزیزمیں انصاف نہیں ٹیکنیکل انصاف رائج ہے ۔جس کیس میں اسٹے آرڈر آگیا یا ملزم کوضمانت مل گئی وہ کیس مٹی کے تلے دبا دیا جاتا ہے۔جناب قاسم سوری کے الیکشن میں جعل سازی ثابت ہوگئی۔ بیلٹ پیپرپر پائوں کے انگوٹھے تک لگانے سے گریز نہیں کیا سوری صاحب کو جتوانے کے لیے۔ نچلی عدالت نے جھٹ سے دھاندلی پکڑکرقاسم سوری کونااہل کردیا۔دوبارہ الیکشن کا حکم ہوا لیکن سپریم کورٹ زندہ باد۔ ہمارے انصاف کے معیار کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ اس دھاندلی پراسٹے آرڈر جاری کردیا اور پھر دوبارہ کبھی وہ کیس سنا ہی نہیں گیا۔جعل سازی کے ذریعے ایم این اے بننے والے قاسم سوری ساڑھے تین سال اس ملک میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بناکررکھے گئے ۔چلیں اسٹے آرڈر دے دیا لیکن کیا مقدمہ ختم ہوگیا؟بتائیں کیا ایسے اقدامات سے دھاندلی ختم ہوگی؟اسی سے ملتے جلتے فیصلے گزشتہ اسمبلی میں خواجہ سعد رفیق اورخواجہ آصف کے کیس میں بھی اسی سپریم کورٹ سے آئے تھے۔دھاندلی کے مقدمات میں ان کی اسمبلی کی پوری مدت نکل گئی اور فیصلے آخری دوماہ میں صادرکیے گئے تھے۔ اس ملک میں عمران خان کی پارٹی ٹیڑھی بنی تھی یا نہیں اس پر تحقیق کی جاسکتی ہے لیکن اس کو گرانے کا کام زورشور سے جاری ہے۔جو کچھ بھی ہورہا ہے میں اس میں خان صاحب کو بری الذمہ نہیں سمجھتا کہ ایک سال انہوں نے اس تخریب کے لیے خود بھی بہت محنت کی ہے لیکن نظام انصاف کی پوری عمارت ٹیڑھی ہوچکی ہے اس کو گرا کر نئی بنیادیں ڈالنے کی سب سے پہلے ضرورت ہے۔ یہ والی تخریب محروم اور غریب ،بے اثر طبقے کے لیے ثواب کا کام ہے۔ ہے کوئی جو ترازو کے پلڑے اصل میں برابر کر دے؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button