ColumnNasir Naqvi

مرے وطن تجھے کس واسطے بنایا گیا؟ .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

75سال کے بعد بھی یہ سوال ہر محفل اور تقریب میں لوگ ایک دوسرے سے کرتے ہیں کہ ہندوستان کی تقسیم کیوں کی گئی؟ ’’ پاکستان‘‘ کیوں بنایا گیا؟ کچھ سیانے اور سمجھدار یہ کہتے بھی نہیں گھبراتے کہ قائداعظمؒ نے پاکستان بنا کر غلطی کی۔ ہم اگر برصغیر کی انگریزوں سے آزادی کے بعد ایک ملک کی حیثیت سے رہنا پسند کرتے تو خطے میں آج جو غربت اور بھوک افلاس دیکھنے کو مل رہی ہے وہ نہ ہوتی۔ خطہ پھولتا پھلتا اور دنیا کے نقشے پر ’’ ہندوستان‘‘ ایک بڑی طاقت ہوتا۔ تقسیم ہند اور اقبالؒ کے خواب کی تعبیر اچھی نہیں نکلی۔ لہٰذا یہ آج بھی سوال سامنے کھڑا ہے کہ ’’ مرے وطن تجھے کس واسطے بنایا گیا‘‘ ۔ گزشتہ 75سال کے شب و روز میں ’’ ہم اور آپ‘‘ اَن گنت تماشے دیکھ چکے، حکمرانوں کے ہزاروں وعدے اور ان سے نظریں چرانے کے منتظر بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اس بات کے بھی گواہ ہیں کہ حالات و واقعات سے وطن عزیز کے لیے قربانیاں دینے والی نسل بھی ایسے مایوس دیکھی کہ اکثر ناامید اور مایوسی میں یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ ہماری حرکتیں ایسی نہیں کہ ہم اسے چلاسکیں۔ خدانخواستہ یہ ملک ہی نہیں رہنا۔ پھر ہم نے وطن عزیز کو دو لخت ہوتے بھی دیکھا ، بہت پریشان ہوئے، تلملائے، لیکن کچھ نہیں کر سکے۔ پھر بھی مطمئن اس لیے رہے کہ ’’ سقوط مشرقی پاکستان‘‘ ہماری نہیں حکمرانوں کی غلطیوں پر عالمی سازش کا کارنامہ تھا، ملک کا آدھا حصّہ گنوایا، دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی اور 90ہزار قیدی بھی ازلی دشمن بھارت کی قید میں دے دئیے۔ ہر جانب مایوسی کے گھپ اندھیرے تھے پھر بھی جس حکمران پر ملک توڑنے کا الزام ہے اسی ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف مملکت کو سنبھالا بلکہ باوقار مذاکرات سے قیدیوں کو بھی رہائی دلوائی اور دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کا فارمولا ’’ ایٹمی طاقت‘‘ بننے کا خواب دیا بلکہ اسے اس طرح تک لازمی قرار دیا کہ غریب اور ترقی پذیر پاکستان کو اس منزل تک پہنچنے کے لیے اگر گھاس کھانی پڑی تو وہ بھی کھائیں گے۔ مخالفین نے مذاق اڑایا۔ دنیا نے بھی کان نہیں دھرے اس لیے کہ دو لخت ہونے والے غریب پاکستان کے حوالے سے یہ پیغام دیوانے کا خواب سمجھا گیا پھر بھی دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے بُرے حالات اور بار بار آمرانہ تسلط کے باوجود ’’ ایٹمی طاقت‘‘ بننے کا خواب نامساعد حالات میں بھی پورا کر لیا۔ آج پاکستان اپنے باصلاحیت سائنسدانوں اور جیسے تیسے حکمرانوں کی تمام تر غلطیوں اور کوتاہیوں میں دنیا کی ساتویں اور امت مسلمہ کی پہلی ’’ ایٹمی طاقت‘‘ بن کر زیرو سے ہیرو ہو گیا۔ پھر بھی گلے شکوے اور طعنے موجود ہیں۔ بھارت نے بہت ترقی کی، پاکستان پیچھے کیوں رہ گیا؟ سب جانتے ہیں کہ وسائل اور مسائل کے حوالے سے دونوں ملکوں کے حالات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور 75سالہ تاریخ میں پاکستان نے جو واقعات دیکھے ان کا سامنا بھارت اور بھارتی حکمرانوں کو نہیں کرنا پڑا، نہ ہی وہاں کبھی آمریت مسلط ہوئی۔ لہٰذا جمہوریت کا نہ صرف بول بالا ہوا بلکہ دوسرے قومی ادارے بھی مستحکم ہوئے۔ سیاسی توڑ جوڑ، پکڑ دھکڑ، پارلیمنٹ میں مار دھاڑ سابق وزرائے اعظم کی قتل و غارت گری بھی ہوئی لیکن اداروں کی مضبوطی سے نظام پٹری سے نہیں اُترا بلکہ ہمارے ہاں اس سے برعکس رہا، نہ قومی ادارے مضبوط ہو سکے اور نہ ہی جمہوریت و جمہوری اقدار، ہماری ترقی اور خوشحالی کے راستے تلاش کر لیے گئے لیکن ہماری ’’ بکل‘‘ میں چور تھے یوں سمجھئے کہ ہم نے اپنے بوسیدہ نظام سے آستین میں سانپ پالے جو دودھ اور ملائی کھا گئے، جو آیا اس نے اپنی منصوبہ بندی کی اور کمزور نظام حکومت کے باعث دیگر قوتوں نے بھی اصولی موقف کی بجائے مصلحت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اپنے مفادات حاصل کئے اور قومی مفادات بالائے طاق رکھ دئیے گئے نتیجہ برسوں کی اس مشق سے نکل آیا، امیر امیر تر اور غریب مارا گیا، یہی نہیں، اس انفرادی سوچ سے نہ قومی اداروں کو استحکام ملا اور نہ ہی نظام پروان چڑھ سکا۔ وطن عزیز کو تجربہ گاہ بنا کر تجربات میں وقت گزاری کی گئی لہٰذا ایک زرعی ملک اپنی پہچان تک کھو بیٹھا۔ آج بھی یہ سوال انتہائی دیدہ دلیری سے کیا جاتا ہے کہ پاکستان کیوں بنا؟ ہمیں اس نے کیا دیا؟ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ اشرافیہ کی چمکتی دمکتی گاڑیاں کہاں سے آئیں؟ ان سرمایہ دار اور اتراتے چہروں کے آبائو اجداد کتنے امیر اور دولت مند تھے؟ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ یہ سوال اٹھائے کہ قومی اداروں، پارلیمنٹ اور انصاف کے لیے کس نے کیا کِیا؟یہ سوال و جواب اور بحث و مباحثہ ہمیشہ سے جاری ہے۔ بس اس کی شدت میں حالات کے مطابق تیزی اور کمی ہوتی رہتی ہے جیسے 9مئی کے پرتشدد واقعات اور اس ہنگامہ آرائی میں حساس اداروں اور مخصوص اہم عمارات کو نشانہ بنایا گیا لہٰذا قوم ہر سطح پر جذباتی دکھائی دے رہی ہے ان جذبات کی حقیقت کچھ بھی ہو، فی الحال وطن عزیز سے محبت اور اداروں کے احترام کی بات کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ اب تجزیہ کرنا یہ ضروری ہے کہ جو نظر آرہا ہے وہی درست ہے کہ پس پردہ معاملات کچھ اور ہیں۔ ایک تاریخی سانحہ ہوا، ہر شعبہ فکر نے مذمت کر دی اور کوئی بھی محب وطن پاکستانی شرپسندوں اور دہشت گردوں کی اس سازش کی حمایت نہیں کر سکتا، رشتے وہی خوبصورت ہوتے ہیں جن میں احساس کا جذبہ ہو کیونکہ ہمدردی تو ہر کوئی کر لیتا ہے مگر احساس کوئی کوئی کرتا ہے اور یہ احساس لفظوں سے ظاہر نہیں ہوتا بلکہ انسانوں کے روئیے اور برتائو سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مخلص کتنے ہیں ، جو واقعہ ہوا اس میں ایک خاص طبقے کے لوگ ملوث پائے گئے ان کا ٹارگٹ بھی ’’ خاص ‘‘تھا۔ پاکستان نے اپنی75سالہ زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے، اسے غیروں نے نقصان صرف اس وقت پہنچایا جب جب اس نے سر اٹھا کر چلنے کی کوشش کی لیکن اسے اپنوں نے بھی لوٹ مار اور کرپشن کر کے ناقابل تلافی نقصان پہنچا کر معاشی بحران میں دھکیل دیا جس کی وجہ سے آج کے حالات دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ اس موقع پر مجھے شیخ سعدی کا یہ قول یاد آ رہا ہے کہ ’’ میرے اچھے وقت نے دنیا کو بتایا میں کیسا ہوں؟ اور میرے بُرے وقت نے مجھے بتایا کہ دنیا کیسی ہے؟ ‘‘ اب اسے ’’ پاکستان‘‘ کے تناظر میں پرکھیں، پاکستان نے عزت دی، پہچان دی لیکن سیاسی ناراضی پر لوگوں نے جس انداز کا ردعمل اپنے محافظوں اور اداروں کے خلاف دیا اس سے پتہ چل گیا کہ دنیا کیسی ہے؟ یعنی ’’ دنیا مطلب دی‘‘ ۔۔۔۔۔ ہم نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں، جو کہ کسی صورت بھی قومی سوچ نہیں، گرفتاریاں، پکڑ دھکڑ اور مقدمات کا سلسلہ جاری ہے۔ عدالتیں بلکہ خصوصی عدالتیں بھی سرگرم ہو چکی ہیں۔ ایسے میں ہمارے بھائی ممتاز شاعر فرحت عباس شاہ کی یہ نظم قابل توجہ ہے:
میرے وطن تجھے کس واسطے بنایا گیا
نہ رزق ہے میسر نہ راہ حق گوئی
نہ کوئی عزت شعراء نہ حرمت شہداء
نہ آبروئے معلم نہ غیر ت شمشیر
انا فروش شہنشاہ ہنہناتا ہے
مرے وطن کے پرندوں کو بھی ڈراتا ہے
عدالتوں پر لپکتے ہیں دو ٹکے کے وزیر
یہ پونڈ بھیج کے لندن بہت چہکتے ہیں
ہمارے بچوں کے لاشوں پر بھی قہقہے ہیں
صحافیوں کے لبادوں میں زرخرید غلام
کمال مکر سے خبریں اچھالتے ہوئے منہ
سپاہ جیسے ترے باسیوں پہ نافذ ہے
ہے لگ رہا مجھے لاہور خطہ کشمیر
محافظوں میں حفاظت کی بو نہیں باقی
درندے دوڑتے پھرتے ہیں دندناتے ہوئے
بتایا جاتا ہے مجھ کو کہ تو نہیں باقی
مرے وطن تجھے کس واسطے بنایا گیا
تجھے بنایا گیا تھا کہ ظلم راج کرے
یہ سر اٹھائے پھریں سرنگوں سماج کرے
میرے لئے تو یہاں قبر تنگ کی گئی ہے
پتہ چلا ہے کہ مجھ سے ہی جنگ کی گئی ہے
ہمارے قائد اعظمؒ کا گھر جلایا گیا
اور اس کے بعد بہت ظلم بھی کمایا گیا
سبھی عوام پہ اک حشر ہے اٹھایا گیا
تمہارے نام پہ میدان ہے سجایا گیا
تمہارے نام پہ چاروں طرف سے مل کر مجھے
کبھی سلایا گیا ہی کبھی جگایا گیا
مرے وطن تجھے کس واسطے بنایا گیا
بہرحال اس واسطے ہرگز نہیں بنایا گیا
یہ ایک ایسا وطن بنایا گیا تھا جہاں اقبالؒ کے خواب کی تعبیر میں مسلمان آزاد فلاحی معاشرے میں عزت سے ترقی و خوشحالی کی زندگی گزاریں گے اور یہاں اقلیتیں محفوظ ہوں گی۔ اپنی انسانی حقوق کے مطابق بلا امتیاز ۔۔۔۔ لیکن کچھ راستے کٹھن تھے، کچھ اپنے پرائے بدنیت نکل گئے۔۔۔۔ منفی ذہنوں نے اپنا کام دکھا دیا، اب مثبت انداز میں ازالہ درکار ہے، کیونکہ گھر تو آخر اپنا ہے اور اس گھر کو آگ لگی ہے اپنے چراغ سے۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button