Column

یوم تکبیر اور استحکام پاکستان .. یاور عباس

یاور عباس

پاکستان کو ایٹمی قوت بنے ہوئے 25سال ہوگئے ہیں اور ہم 2023ء میں ایٹمی طاقت بننے کی سلور جوبلی منا رہے ہیں ۔ دنیا میں ہر قوم دو طرح کی جنگ لڑ رہی ہوتی ہے ایک آزادی حاصل کرنے کے لیے اور دوسری اپنی آزادی کو بچانے کے لیے ۔ دونوں جنگیں اپنے اپنے محاذ پر مشکل ہوتی ہیں ۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے جانی ،مالی قربانی کے بے انتہا تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جیلوں میں جانا پڑتا ، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں مگر آزادی کے بعد اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانا بہت بڑا چیلنج ہوتا ہے ۔دنیا میں اس وقت بے شمار ممالک جنگوں کی لپیٹ میں ہیں ۔ کچھ اندرونی محاذ پر لڑ رہے ہیں تو کچھ بیرونی محاذ پر ۔ جنگ عظیم دوم کے بعد بھی دنیا میں سکون نہیں آیا گزشتہ چند دہائیوں کی بات کریں تو شاید کوئی ایسا سال ہو جس میں دنیا کے کسی نہ کسی کونہ میں جنگ نہ ہورہی ہو۔ کبھی عراق کو نشان عبرت بنانے کے لیے صف آرائی تو کبھی افغانستان، شام، لبنان کے لوگوں سے سکون چھین لیا گیا ، کشمیر ، فلسطین ، چیچنیا ، روہنگیا کے مسلمانوں پر جبر مسلسل ہورہا ہے ۔ اسلامی دنیا کے چند ممالک صرف ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کی حد تک ہی فرض سمجھتے ہیں جبکہ مغربی ممالک اور بہت سارے اسلامی ممالک عملی طور پر بھارت اور اسرائیل کے ساتھ تعاون کررہے ہیں ۔ برصغیر کے مسلمانوںنے انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی مگر ایک سازش کے تحت انگریز نے پاکستان کی شہ رگ کشمیر ہندئوں کے حوالے کر دی جس کی بناء پر آزادی کے ایک برس بعد ہی جنگ شروع ہوگئی اور پھر مسئلہ کشمیر دونوںملکوں کے لیے دشمنی کا سبب بنا ہوا ، 1965ء کی جنگ ہو یا کارگل کی جنگ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا اس خطہ پر امن قائم نہیں ہوسکتا۔ بھارت نے اپنی طاقت اور خطہ میں بالادستی کے لیے جب ایٹمی دھماکے کیے تو اس کے نتیجے میں پاکستان نے بھی 28مئی 1998کو چاغی کے پہاڑوں پر بھارت کے 5ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں 6کامیاب دھماکے کر کے اسلامی دنیا میں پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ۔ اب ان ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ بہت سارے لوگ اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں ۔ حالانکہ کافی عرصہ سی ٹی بی ٹی پر دستخط کے حوالے سے بحث چلتی رہی مگر دشمن کے ایٹمی دھماکوں کے بدلے میں ہمیں بحث کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔ امریکہ نے ایٹمی دھماکے رکوانے کی بے حد کوشش کی ۔پاکستانی عوام دل و جان سے ہر اس شخص کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جس نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کی باعث ہمارا دفاع ناقابل تسخیر ہے اور استحکام پاکستان کی ضمانت ہے لیکن اس کے ساتھ کسی ملک کے استحکام میں اس کی معیشت اور سیاسی استحکام کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ پاکستان میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہم آئی ایم ایف کے غلام بن چکے ہیں ۔ ہم اپنا بجٹ خود نہیں بناتے ، خارجہ پالیسی اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ ہمارے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ بھکاریوں کی اپنی کوئی چوائس نہیں ہوتی ۔ جس دوست ملک کے پاس جاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ پھر کچھ مانگنے آگئے ہیں ۔ ایٹمی طاقت کے سربراہ کے لیے یہ ندامت کوئی کم نہیں ہے ۔ ایٹم بم بنانے کے لیے قوم نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے ، ایٹم بم کی تیاری میں تو ہمیں گھاس کھانے کی نوبت پیش نہیں آئی البتہ ایٹمی قوت بننے کے بعد ہماری اپنی بداعمالیوں ، کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کی پالیسیوں کے سبب پاکستانی عوام اب گھاس کھانے پر ہی مجبور ہوگئے ہیں ۔ہمیں اپنی داخلی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کے ایٹمی سائنسدان کو ملک کا صدر بنادیا گیا مگر ہمارے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو نظر بند ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ قوم کو بتانا چاہیے کہ محسن پاکستان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں ہوا ؟
پاکستان اسلام کے نام سے معرض وجود میں آیا تھا اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ریاست اسلامیہ کے بہت سے سربراہان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ان کے گھروں سے مال دنیا تو کچھ نہ ملا البتہ تلواریں ضرور نکلیں جبکہ ہمارے حکمران جن کے باپ دادا تنگ دست تھے وہ قومی خزانے سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا خزانہ ہمیشہ خالی ہوتا ہے ، قوم غریب سے غریب تر ہوتی چلی جاتی ہے اور ہمارے حکمران دنیا کے چند امیر لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ لوٹ مار کے حساب سے بچنے کے لیے اپنے خلاف اُٹھنے والی ہر عوامی آواز کو دبا دیا جاتا ہے ۔ان حالات میں ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں بلکہ غریب عوام کا استحصال کرنے والے اشرافیہ کی وجہ سے پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے ۔ وطن عزیز میں معاشی اور سیاسی استحکام نہ ہونے پرحکمران اور ادارے پریشانی کا اظہار کرتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی ایسی قومی اور عوامی پالیسی نہیں بنائی جاتی جس سے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہواور ایسا تب ہی ممکن ہے جب معاشرے میں عدل و انصاف ہو، قانون کی حکمرانی ہو۔ امیر و غریب کے لیے تھانہ میں ایک ہی پروٹوکول ہو،پارلیمنٹ کے دروازے غریب کے لیے بھی کھولے جائیں ۔ صحت و تعلیم کی بنیادی سہولتیں ہر شخص کو میسر ہوں ۔ ریاست رعایا کے ساتھ ماں جیسا سلوک کرے ، سانحہ 9مئی اور ماڈل ٹائون جیسے سانحات کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو۔ ریاستی ادارے عوام کے ساتھ محبت کریں اور عوام ان سے محبت کرے ۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ ریاست قیامت تک قائم رہنے کے لیے وجود میں آئی ہے اس ہم اس کی حفاظت کرنے والوں کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں اوردعا کرتے ہیں کہ یا أ اس ملک کو لوٹنے والوں کو نشان عبرت بنادے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button