Ali HassanColumn

سندھ کے مفلوک الحال ہاری .. علی حسن

علی حسن

صوبہ سندھ کے معروف ہاری رہنماء کی 35ویں برسی بھی ہو گئی لیکن سیاست میں ان کی دلچسپی کی وجہ سے ان کی زندگی میں ہی ہاریوں کی فلاح و بہبود کے لئے کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو سکا تھا۔ موت کے بعد کی کسے فکر۔ صوفی عنایت شہید زندگی بھر ہمیشہ اصرار کرتے تھے کہ جو ہل چلائے وہ ہی کھائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد کے پاس اپنی اتنی ہی زمین ہونا چاہئے جتنی وہ کاشت کر سکے۔ لیکن پاکستان میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ ایک ایک فرد کے پاس اتنے بڑے رقبے ہیں جن پر وہ خود زندگی بھر ہل نہیں چلا سکتا۔ سندھ میں 1930ء سے ہاریوں کو زرعی زمین دینے کی مہم چل رہی ہے ۔ پاکستان میں زرعی اصلاحات کا مطالبہ ان بنیادی مطالبات میں شامل ہے جسے تعلیم یافتہ طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ زرعی اصلاحات ملک سے جاگیرداری اور بڑی زمینداری نظام کا خاتمہ کر سکیں گی اور ملک میں ایک ایسی تبدیل آئے گی جو عام لوگوں کی خوشحالی کا سبب بنے گی۔ پاکستان کی آبادی کی بھاری اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے ۔ وہ ان بہت ساری سہولتوں سے محروم ہے جو انہیں بہت پہلے مل جانا چاہئے تھیں۔ ان لوگوں میں سب سے زیادہ متاثر وہ آبادی ہے جو کھیت میں کام کرتی ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ زرعی اصلاحات پر جو سیاست طویل عرصے سے کی جارہی ہے وہ آخر رنگ کیوں نہیں لاتی ، کوئی نتیجہ بر آمد کیوں نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو زرعی اصلاحات کیوں اور کیسے جیسے اہم ترین سوالوں پر غور کرنا ہوگا اور ان کے جواب خود لکھنے ہوں گے۔ ان کے عالوہ تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی غور و فکر کرنا ہوگا۔ کیا پاکستانیوں کی طرح صرف خواب دیکھنے اور خواہش کا اظہار کرنے سے کسی معاشرے کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ خواب اور خواہش کی تعبیر تلاش کرنا ہوتی ہے جس کے لئے عمل سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا۔
بھارت میں دہلی سرکار کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کی طرح اپنی ملازمت سے مستعفی ہو کر اپنے مقاصد کا تعین کر کے کسی جدو جہد کا حصہ بننا ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے سندھ ہاری کمیٹی کے قیام کے پندرہ سال بعد معروف ہاری رہنماء حیدر بخش جتوئی نے کیا تھا۔ حیدر بخش جتوئی اور اروند کیجری وال میں ایک بات ملتی جلتی نظر آتی ہے کہ دونوں نے ایسی سرکاری ملازمتوں سے استعفیٰ دیا تھا جس میں بہتر تنخواہوں کے ساتھ پر آسائش سہولتیں بھی موجود تھیں۔ دونوں انتخابی راستہ اختیار کر کے تبدیل لانا چاہتے تھے۔ حیدر بخش نے اپنی سرکا ری ملازمت سے استعفیٰ دیا اور ہاری تحریک کا حصہ بن گئے۔ سندھ میں ہاریوں کی ناگفتبہ سماجی حالت ہی تو تھی کہ کراچی کی اپنے دور کی ممتاز سماجی شخصیت جمشید نسرواں جی جیسے بلند قامت سماجی رہنماء نے کراچی سے میر پور خاص جاکر سن 1930ء میں سندھ ہاری کمیٹی کی بنیاد ڈالی تھی۔ ان کے اس کام میں سائیں جی ایم سید اور دیگر حضرات بھی شریک کار تھے۔ معاشرے کی حالت کو بہتر بنانے کا خواب دیکھنے والے جمع ہوئے تھے ، تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔ تنظیم اپنی جڑیں اس لئے نہیں پکڑ سکی کہ کام کرنے ولا کوئی نہیں تھا۔ معاشرتی خدمت کے لئے قائم کی جانے والی کوئی تنظیم ہو یا سیاسی یا غیر سرکاری ادارہ، کل وقتی کام کرنے والوں کی انتہائی اہمیت اور ضرورت ہوا کرتی ہے۔ سندھ ہاری کمیٹی کسی کروٹ کے بغیر قیام پاکستان تک موجود رہی۔ جب حیدر بخش جتوئی نے اپنی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر 1948ء میں سندھ ہاری کمیٹی میں شمولیت کا فیصلہ کیا اور اسے منظم کرنے کی ٹھانی تو تنظیم میں جان پڑ گئی جو بہر صورت ان کی موت تک جاری رہی۔ اس دوران سینکڑوں ایسے لوگ سامنے آئے جو جی جان سے ہاریوں کی فلاح و بہبود کے جدو جہد میں جت گئے تھے۔ ملک کے سیاسی تغیرات و حالات اس تیزی سے تبدیل ہوتے گئے کہ سندھ ہاری کمیٹی جو محنت کشوں کی سماجی حالت بہتر بنانے کی غرض سے وجود میں آئی تھی، سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی اور ڈھیر ہو گئی۔ شعور اور اس کے حقوق سے آگاہی کے لئے ہندوستان سے ہجرت کرنے والے مرحوم عزیز سلام بخاری نے خود کراچی سے آکر ٹنڈو اللہ یار میں ڈیرہ ڈالا، زندگی وقف کر دی ، اس زمین کا ہی پیوند ہو گئے۔ عزیز سلام کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھے لیکن بعد میں سی پی کی نظریاتی تقسیم پر وہ چین یا مائو نواز ہو گئے تھے۔ حیدر بخش جتوئی ہوں، عبدالقادر ایندھر، مولوی نذیر جتوئی، کامریڈ غلام حسین ہوں، کامریڈ غلام محمد لغاری، رشید اندھر، کامریڈ جام ساقی ہوں ، کامریڈ غلام رسول سہتو ہوں یا شکیل پٹھان اور فقیر دین محمد کنبھر ہوں، ہر ایک نے اپنے اپنے وقت میں نامساعد حالات میں بھی ہاریوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کیا لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ہاری کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ زرعی اصلاحات ہوئیں، لیکن ان پر عمل در آمد نہیں کرایا جا سکا۔ ہاری اپنی حالت کی تبدیلی کا خواب بھی نہیں دیکھ پایا ہے۔ جسم پر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے ، ننگے پائوں، ننگے سر آدمی کو افسران کے دفتر میں کیوں کر داخلہ مل سکتا ہے، اس دفتر کا قالین اس کے پائوں میں لگی مٹی سے خراب ہوجا نے کا اندیشہ ہوتا ہے ، اس کا بہتر حل یہ ہے کہ اسے دفتر میں آنے ہی نہیں دیا جائے۔ سندھ ہاری تحریک منظم ہوئی ، سندھ میں ٹیننسی ایکٹ منظور کرایا گیا۔ اس ایکٹ کو منظور کرانے کے لئے ہاریوں کو سندھ اسمبلی کا گھیرائو کرنا پڑا تھا۔ سندھ بھر سے لوگ کراچی پہنچے تھے تو ایکٹ منظور کیا گیا تھا۔ ٹیننسی ایکٹ کی منظوری ایک بڑی کامیابی تھی کہ جا گیر دار اور زمیندار اراکین سے ہاریوں کی بنیادی زندگی میں قانون کا سہارا لیتے ہوئے تبدیلی لانے کی منظوری حاصل کی جائے۔ غیر زمیندار وزیر اعلیٰ یوسف ہارون تھے جن کی وجہ سے یہ قانون منظور ہو گیا تھا۔
پاکستان کا تعلیم یافتہ اگر پاکستان میں تبدیل چاہتا ہے تو اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے قربانی تو دینا ہی ہوگی۔ لوگوں کو منظم کرنا ہوگا۔ ہاری تحریک نے سندھ میں ایک آنہ کی بنیادی پر رکنیت سازی کی تھی۔ ایک آنہ آج اہم نہ سہی لیکن جس زمانے کی بات ہو رہی ہے اس زمانے میں ایک آنہ بڑی رقم تصور کی جاتی تھی۔ ایک لاکھ ساٹھ ہزار ہاریوں کو رکنیت دی گئی تھی۔ اس زمانے میں پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے لئے کمیونسٹ پارٹی موجود تھی۔ آج تجزیہ کیا جائے تو سندھ ہاری کمیٹی کی جلد بازی کی سیاست نے ہی اسے دھچکا لگایا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ اتحاد اور کمیونسٹ پارٹی کی طرف جھکائو سے اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ہاریوں کو اس وقت مزید منظم کیا جانا چاہے تھا۔ حیدر بخش جتوئی کو انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہئے تھا۔ حیدر بخش جتوئی خود ایک نشست پر انتخاب لڑ رہے تھے اور ان کے مقابلے پر تمام جاگیر دار اور زمیندار منظم ہو گئے تھے سو وہ شکست کھا گئے۔ ان کی سیاست میں دلچسپی اور ایک نشست پر انتخاب لڑنے نے ہاری کمیٹی کے لئے کئے ہوئے تمام کام پر پانی پھیر دیا۔ ان کی اس شکست اور بعد میں ایوب مارشل لاء کے دوران حیدر بخش جتوئی کی طویل قید نے ہاری کمیٹی کو بٹھا دیا ۔ اس کے بعد ہاری کمیٹی کو بھر پور دلچسپی لی کر ہاریوں کو منظم کرنے والا کوئی رہنما بھی نہیں مل سکا حالانکہ کمیونسٹ پارٹی نے اس دور کے معروف رہنماء جام ساقی کو ہاری کمیٹی کا سربراہ مقرر کر دیا تھا لیکن ہو بھی عملا کچھ نہیں کر سکے۔
حیدر بخش کی وفات کے بعد ان کے پانچ بیٹوں میں سے تین بیٹے سرکاری ملازمت میں تھے۔ ان بیٹوں کے انتقال کے بعد بھائیوں کے بیٹوں نے زمینداروں کی سیاسی پارٹیوں کی طرح ہاری کمیٹی کو بھی مورثی جماعت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان جوانوں کو بھی گائوں گائوں دیہات دیہات چکر لگا کر ہاریوں کو منظم کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا ہے۔ حیدر بخش جتوئی کے پوتوں کو ہاری کمیٹی کی سرپرستی ضرورت کرنا چاہئے لیکن اس کا عمل دخل اور فیصلہ سازی کا اختیار ہاریوں کے منتخب نمائندوں کو ہی دینا چاہئے۔
عام سیاست سے ہٹ کر سیاست کرنے والے لوگ سمجھتے ہیں کہ زرعی اصلاحات کی سب سے زیادہ ضرورت سندھ میں ہے کیوں کہ سندھ میں ہی سب سے زیادہ بے زمین ہاری ہیں۔ کھیتی کرنے کے لئے ان کے پاس زمین نہیں ہے، رہائش کے لئے نہ زمین ہے نہ مکان، انہیں اپنے ایک وقت کی روٹی کے لئے اپنے زمیندار کی طرف دیکھنا پڑتا پڑتا۔ غمی اور خوشی کے موقع پر انہیں اپنے ان ہاتھوں کو جن سے وہ زمیندار کے لئے دولت کماتے ہیں، پھیلانا پڑتا ہے اور مقروض بھی کہلاتے ہیں۔ نام نہاد قرضہ اترتا نہیں تو ان کی نسلیں اسی زمیندار کی محتاج رہتی ہیں ۔ ایسی محتاجی جو انہیں جبری مشقت کرنے اور نجی جیل میں رہنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ سیلاب آئے یا زیادہ بارش برسے، زمیندار اپنے ہاریوں کی دست گیری کرنے کی بجائے انہیں کہیں اور پناہ لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ سندھ میں جبری مشقت کے شکار ہاریوں کی ہولناک اذیت سے بھر پور روداد نئی نہیں ہیں۔ شکیل پٹھان مرحوم نے 1995میں زمینداروں کی نجی جیلوں سے زنجیروں میں جکڑے ایسے ہاریوں کو جنہیں اپنی مرضی سے نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہوتی ہے، رہا کرانے کی مہم کا آغاز کیا تھا۔ ان کی مہم کو ملک بھر میں ہی نہیں ، دنیا بھر میں پزیرائی حاصل ہوئی تھی۔ شکیل پٹھان مرحوم اگست 1998میں اپنی موت تک سینکڑوں ہاریوں کو جبری مشقت سے رہا کرا چکے تھے۔ سیاسی جماعتوں نے بھی ہاریوں کی عملی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا تو جبری مشقت سے رہائی پانے اور آزادی حاصل کرنے والے بعض مرد اور خواتین ہاریوں نے خود ساختہ کامریڈوں کی حیثیت اختیار کر لی اور ہاریوں کو رہا کرانا شروع کر دیا۔ زمیندار وں میں بہت کم ایسے زمیندار ہیں جو اپنے ہاریوں کو اولاد کی طرح عزیز رکھتے ہیں۔ ان کا ذکر کیا جنہیں اولاد بھی عزیز نہیں ہوتی وہ اپنے ہاریوں کو کیوں کر خیال رکھیں گے۔ کیسے کیسے لوگ ہاریوں کے نام پر چلائی جانے والی مہم کی وجہ سے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔
حکومت پر ذمہ داری عائد کرے کہ انہیں سرکاری زمین میں سولہ سولہ ایکڑ کا مالک بنائے تاکہ یہ لوگ بھی آزاد شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں ۔ ایک تنظیم کی ضرورت ہے۔ ایسی تنظیم جس میں شامل لوگ کسی سیاسی مفاد کا خیال دل میں لائے بغیر مخلوق کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں ۔اس تماش گاہ میں سیاسی حلقے آج بھی زرعی اصلاحات کے لئے مہم چلارہے ہیں لیکن وہ ایک ایسی مہم ہے جو صرف شہروں میں چلائی جارہی ہے ۔ مہم چلانے والے اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اور ہاریوں کو منظم کئے بغیر ان کی مہم کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button