ColumnM Riaz Advocate

توہین پارلیمنٹ ایکٹ کی منظوری .. محمد ریاض ایڈووکیٹ

محمد ریاض ایڈووکیٹ

قومی اسمبلی نے توہین پارلیمنٹ ایکٹ کی منظوری دے دی۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 70کی کلاز 4پارلیمنٹ کو وفاقی قانون سازی کی فہرست/ Federal Legislative Listکے لئے قانون سازی کرنے کا مکمل اختیار دیتا ہے۔ اور وفاقی قانون سازی فہرست کیپوائنٹ نمبر 42میں واضح طور پر درج ہے کہ پارلیمنٹ درج ذیل افعال کے لئے قانون سازی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ صدر مملکت، قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر، سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین، وزیراعظم، وفاقی وزرائ، وزرائے مملکت کی تنخواہیں، الائونسز اور مراعات اور ارکان سینیٹ کی تنخواہیں، الائونسز اور مراعات قومی اسمبلی؛ اور ان افراد کی سزا جو اس کی کمیٹیوں کے سامنے ثبوت دینے یا دستاویزات پیش کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اس بل کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:
توہین پارلیمنٹ کی تعریف:
اس ایکٹ کے شیڈول کے مطابق ہر وہ فرد توہین پارلیمنٹ کا مرتکب قرار پائے گا: جو جان بوجھ کر کسی ایسے قانون کی خلاف ورزی کرے جس میں رکن کے استثنیٰ یا استحقاق کا تعین کیا گیا ہو۔ جان بوجھ کسی ایوان یا کمیٹی کے حکم نامے کو ماننے سے انکار کر دیا۔ ثبوت دینے سے انکار کیا یا کمیٹی کے سامنے جھوٹا بیان ریکارڈ کرایا۔ دھمکی دے کر کسی گواہ کو متاثر کرنے کی کوشش کی یا دھمکی یا طاقت کا استعمال کرکے کمیٹی یا ایوان کے سامنے ثبوت، دستاویز فراہم کرنے یا پیش ہونے سے روکیں۔ کوئی دستاویز فراہم کرنے میں ناکام رہے یا ایوان یا کمیٹی کے سامنے جعلی سازی کیساتھ دستاویز جمع کرائے۔
توہین پارلیمنٹ جرم کا تعین:
پارلیمنٹ کی کوئی کمیٹی اپنے استحقاق کی خلاف ورزی یا توہین کے کسی بھی معاملے کو اس ایکٹ کے تحت کارروائی کے لیے استحقاق کمیٹی کو بھیجنے کی مجاز ہوگی۔ استحقاق کمیٹی ساٹھ دن کے اندر رپورٹ تیار کرکے قومی اسمبلی/سینٹ کی توہین پارلیمنٹ کمیٹی کے سامنے پیش کرے گی۔ اور توہین پارلیمنٹ کمیٹی کارروائی مکمل ہونے تک توہین پارلیمنٹ کے الزام والے فرد کو کسی بھی آفیشل ڈیوٹی کو سرانجام دینے سے روک دیا جائے گا۔
توہین پارلیمنٹ کمیٹی:
توہین پارلیمنٹ کمیٹی پانچ ممبران پارلیمنٹ پر مشتمل ہوگی۔ ایک ممبر سپیکر قومی اسمبلی نامزد کرے گا۔ قومی اسمبلی کا ایک ممبر وزیراعظم اور ایک ممبر اپوزیشن لیڈر نامزد کرے گا۔ اسی طرح سینٹ سے ایک ممبر لیڈر آف ہائوس اور ایک ممبر اپوزیشن لیڈر نامزد کرے گا۔ اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کا سیکرٹری اس کمیٹی کے سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے گا۔ اس کمیٹی کے چیئرمین کا انتخاب کمیٹی کے ممبران پہلی نشست میں طے کریں گے۔
سمن اور وارنٹ جاری کرنا:
کسی فرد کی حاضری اور دستاویزات کی طلبی کے لئے کمیٹی برائے توہین پارلیمنٹ کے پاس ضابطہ دیوانی 1908کے اختیارات حاصل ہونگے۔ ممبران کمیٹی کی سفارش کی بناء پر چیئرمین کمیٹی دستاویزات و ثبوتوں کو پیش کرنے کے لئے کسی فرد کی کمیٹی کے سامنے حاضری کو یقینی بنانے کے لئے سمن جاری کرنے کی ہدایات جاری کر سکتا ہے۔ اور یہ سمن سیکرٹری کمیٹی کے دستخط سے جاری کئے جائیں گے۔ سمن وصولی کے بعد کسی فرد کا کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہونا یا عدم تعاون کی بناء پر کمیٹی کی سفارش اور سپیکر قومی اسمبلی یا سینٹ چیئرمین کی منظوری کے بعد کمیٹی کسی فرد کے خلاف وارنٹ جاری کر سکے گی۔ اور وارنٹ کی تعمیل مقامی پولیس کے ذریعہ کروائی جائے گی۔
دستاویزات پیش نہ کرنے کی ٹھوس وجوہات:
تمام سرکاری ادارے، وزارتیں یا محکمے کمیٹی کے سامنے دستاویزات پیش کرنے کے پابند ہیں ماسوائے اس کے کہ دستاویزات پیش کرنے کی بناء پر انکشافات سے دفاع وطن، سیکیورٹی اور بیرون ممالک سے تعلقات خرابی کے خطرات لاحق ہوں۔ ایسی صورت میں ادارہ کا انتظامی سربراہ کمیٹی کے روبرو دستاویزات یا ثبوت پیش نہ کرنے کی ٹھوس وجوہات پیش کرے گا۔ ایسی صورت میں سپیکر قومی اسمبلی یا سینٹ چیئرمین ایوان میں جو بھی رولنگ دیں گے اور انکی رولنگ حتمی سمجھی جائے گی۔
سزا دینے کا اختیار و عملدرآمد:
الزام ثابت ہونے کی صورت میں کمیٹی کے پاس فرد کے خلاف سزا سنانے کا اختیار حاصل ہوگا۔ یہ فیصلہ کمیٹی ممبران کے اکثریتی رائے کی بنیاد پرہوگا۔ توہین پارلیمنٹ کا جرم ثابت ہونے کی بناء پر فرد کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی قید یا زیادہ سے زیادہ دس لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں ایک ساتھ دی جاسکیں گی۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری 1898کی متعلقہ شق کے تحت سزا پر عملدرآمد ضلعی مجسٹریٹ کے ذریعہ کروایا جائے گا۔
اپیل کا حق:
اس قانون کے تحت سزا کے فیصلہ کے خلاف تیس دن کے اندر مجرم کو اپیلٹ فورم کے سامنے اپیل کا حق حاصل ہوگا ۔ اپیلٹ فورم سپیکر قومی اسمبلی اور سینٹ چیئرمین پر مشتمل ہوگا۔ اور سیکرٹری سینٹ اپیلٹ فورم کے سیکرٹری کے طور پر خدمات سرانجام دیں گے۔
توہین پارلیمنٹ کمیٹی کارروائی:
کمیٹی کے سامنے تمام کارروائی نیم عدالتی تصور ہو گی۔ کمیٹی کی طرف سے ریکارڈ کیا گیا کوئی بھی ثبوت یا دستاویز کسی بھی عدالت میں ثبوت کے طور پر قابل قبول نہیں ہوگا۔
مشکلات /رکاوٹوں کا خاتمہ:
جہاں اس ایکٹ کی کسی شق کو اثر انداز کرنے میں دشواری پیش آتی ہو۔تو مشکلات/رکاوٹوںکے خاتمہ کے لئے صدر پاکستان کے پاس اختیار حاصل ہوگا کہ وہ سرکاری گزٹ کے ذریعہ کوئی حکم نامہ جاری کرے جس سے مشکلات/رکاوٹوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
قانون میں خامیاں:
یہ بات تو طے شدہ ہے کہ یہ بل غیر آئینی بالکل نہیں ہے کیونکہ آرٹیکل 70 (4) میں درج وفاقی قانون سازی فہرست کے پوائنٹ نمبر 42میں واضح طور توہین پارلیمنٹ بارے سزاکے لئے قانون سازی کا حق پارلیمنٹ کو دیا گیا ہے۔ بہرحال بطور قانون کے طالب علم پارلیمنٹ کی کمیٹی کی جانب سے کسی فرد کے خلاف سزا سنانا بظاہر ایک متوازی جوڈیشل نظام قائم کرنے جیسا ہے ۔ ریاست پاکستان کے تمام فوجداری و دیوانی قوانین میں ملزم کے پاس سول /مجسٹریٹ، ڈسٹرکٹ/ عدالت، سیشن، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل حاصل ہے جبکہ اس قانون میں ملز م کے پاس سزا کے خلاف پارلیمنٹ کے اپنے اپیلٹ فورم کے علاوہ کسی اور فورم میں اپیل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ امید یہی کی جاسکتی ہے کہ سینیٹ میں بل کو پیش کرنے سے پہلے چند ترامیم کی جائیں جس سے متوازی جوڈیشل سسٹم جیسے معاملہ کی حوصلہ شکنی ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button