CM RizwanColumn

نازک موڑ، ردالفساد ضروری ہو گیا .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

اس وقت ایک طرف ملک کی معیشت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے تو دوسری جانب معاشرہ سیاسی بے شعوری کا شکار ہے۔ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لاقانونیت اور قتل وغارت تو خیر ہمارے ازلی مسائل ہیں تازہ آفت یہ ہے کہ لاکھوں افراد ابھی تک گزشتہ برس آنے والے سیلاب کے اثرات سے باہر نہیں نکل پائے ہیں اور جن دوست ممالک نے ان سیلاب زدگان کی مدد کا وعدہ کیا تھا وہ مدد بھی ابھی تک نہیں ہو سکی۔ مہنگائی کے طوفان نے الگ سے لاکھوں شہریوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن بنا دیا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ایک طرف شدید مالی مسائل ہیں اور دوسری طرف سیاست دانوں کی ترجیح صرف اقتدار کی لڑائی رہ گئی ہے اس لڑائی میں اداروں کے مابین اختیارات کی رسہ کشی جاری ہے یعنی اس وقت اندازہ لگانا مشکل ہو چکا ہے آگے جا کر پاکستان کو کون چلائے گا۔ اس بے یقینی اور افراتفری کی سب سے بڑی وجہ عمران خان نامی وہ فتنہ ہے جو نہ تو اقتدار سے باہر ایک پل چین پا رہا ہے اور نہ ہی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اقتدار میں آ کر کوئی سنجیدہ قدم اٹھائے گا۔ روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی چینلوں پر چلنے والے مباحثے، سخت الٹی میٹم اور متعدد احتجاجی ریلیوں اور جلوسوں سے قطع نظر، پاکستان کا مجموعی دماغ آج بھی اس سوال کا جواب دینے سے قاصر نظر آتا ہے کہ ملک کے متذکرہ بالا تمام مسائل کا حل کب، کیسے اور کیونکر ہو گا۔ اب تو کسی ذی شعور کے پاس یہ کہنے کی بھی گنجائش نہیں رہی کہ یہ سیاسی خلفشار آخر کار ختم ہو جائے گا، صورت حال نارمل ہو جائے گی اور ہم وہاں پہنچ جائیں گے جو ہماری منزل ہے۔
پاکستان کی معیشت اس وقت مشکلات کا شکار ہے۔ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر، جو ایندھن سمیت دیگر درآمدات کی ادائیگی کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں، چند دہائیوں میں سب سے کم سطح پر گرے ہوئے آ رہے ہیں۔ اس سال کے شروع میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کے نتیجے میں 1.1ارب ڈالرز کی قسط ملنے کا معاہدہ ہونا ابھی باقی ہے جبکہ دوسری جانب عسکریت پسند سکیورٹی فورسز پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج نے حال ہی میں کہا ہے کہ رواں برس کے دوران اب تک 436دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ اس نوعیت کے حملوں کے بعد عسکریت پسند گروپ باقاعدگی سے انفوگرافکس جاری کرتے ہیں جن میں ان حملوں کی تعداد، سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو ہلاک یا زخمی کرنے اور ملک بھر میں کارروائی کے دوران اسلحہ قبضے میں لینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور ایسے میں جلتی پر تیل ملک میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اب تک گزشتہ برس آنے والے تباہ کن سیلاب کے اثرات سے نہیں نکل سکا ہے اور اس سال پھر سے بے موسمی بارشوں کا آغاز ہونے والا ہے۔ ایسے میں سیاستدانوں سے پوچھے جانے والے سوالات میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام کیسے دور ہو سکتا ہے؟ پاکستان کا نظام تباہ ہو رہا ہے اور اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کی عوام یا سیاستدانوں کسی کے لئے بھی فائدہ مند نہیں ہو گا۔
موجودہ صورتحال کا آغاز گزشتہ برس اپریل میں عمران خان کی حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کیے جانے کے بعد سے ہوا۔ عمران خان نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ایسے میں یہ واضح طور پر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کو عمران خان کی تحریک اور غصے کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے تھا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ گو کہ عمران خان نے ملک بھر میں ریلیاں نکال کر اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کر کے اپنی سیاسی اہمیت ثابت کی مگر اب نو مئی کے بعد اس کی پوزیشن ایک ہارے ہوئے جواری کی سی ہو گئی ہے۔ اس کی ملک دشمنی اور فوج دشمنی پر مہر تصدیق ثبت ہو چکی ہے اور یہ کہنا اب بالکل جائز ہے کہ ملک کبھی بھی اس کے حوالے نہیں کیا جاسکتا جو ہر سٹیک ہولڈر اور سیاسی جماعت کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور حکومت میں آنے کے بعد سارا عرصہ انتقام اور دشمنی کی آگ ٹھنڈا کرنے پر صرف کر دے گا۔ ایسے میں ملک کا مفاد کہاں جائے گا ہر ذی شعور جانتا ہے۔ دوسری جانب عمران خان کے خلاف حکومت کی جانب سے قائم کردہ عدالتی مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ توہین عدالت، کرپشن اور دہشتگردی کے دفعات کے تحت ان مقدمات میں سے کوئی ایک بھی اسے نااہلی کی تلوار کا نشانہ بنا سکتا ہے مگر اس کے قریبی عناصر اسے مزید اکڑ اور گھمنڈ پر مصر کیے ہوئے ہیں۔ عمران خان کے عدالت میں متعدد مرتبہ پیش نہ ہونے پر اسلام آباد پولیس دو مرتبہ انہیں لاہور میں ان کی رہائشگاہ سے گرفتار کرنے کے لئے پہنچی تھی مگر گرفتار نہ کر سکی۔ کم فہمی کا اندازہ لگایئے کہ عمران خان نے اس سے قبل دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے ملک میں عام انتخابات کروانے کی کوشش کی اور جب اس میں ناکامی ہوئی تو سپریم کورٹ میں مقدمہ کر دیا جو اب بھی زیر سماعت ہے۔ اس عدالتی رسہ کشی نے عدلیہ کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ حکومت کا الزام ہے کہ عدلیہ کے چند ججز عمران خان کی حمایت میں ہیں اور اس تقسیم اور سخت اختلاف سے ملک میں ایک آئینی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ یہ بھی طے شدہ ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے عمران خان حکومت کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیں گے جبکہ دوسری طرف اس حکومت کی تمام تر توجہ اپنی حکومت بچانے پر رہی ہے۔ اس تمام محاذ آرائی کا تعلق بھی عمران خان کی ذات سے ہے کیونکہ وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ حالانکہ ان کی طرف سے سمجھوتہ نہ کرنا بے سود ہے اور آخر کار انہیں ہی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس ڈیڈ لاک سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ پاکستان کے طاقتور اداروں کو اب صورتحال بہتر کرنے کے لئے مناسب کردار ادا کرنا چاہئے اور ایسا کرنا فی زمانہ بہت بڑی حب الوطنی ہو گی۔ ماضی میں بھی پاکستانی فوج نے ہمیشہ ملکی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض جرنیلوں نے کبھی فوجی بغاوت کر کے ملک کے اقتدار پر قبضہ کیا تو کبھی پس پردہ بیٹھ کر ڈوریں ہلائیں۔ لیکن موجودہ فوجی قیادت سے اس قسم کا کوئی خطرہ نہیں، آرمی چیف جنرل عاصم منیر یقیناً مثبت کردار ادا کریں گے۔
2018 ء کے انتخابات میں عمران خان کی الیکشن میں کامیابی فوج کی مدد سے ممکن ہوئی تھی لیکن اب وہ اقتدار سے محرومی پر اسی فوج کے موجودہ سربراہ کے خلاف غلیظ اور خطرناک مہم چلا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ اس سے قبل فوج کے خلاف اس کی مہم سے فوج کی مقبولیت میں کمی آگئی تھی۔ اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ فوج میں مستقبل کے لائحہ عمل میں سیاست میں دخل اندازی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ فوج کی اعلیٰ ترین قیادت اب خود کو سیاست میں مزید شامل نہ کر کے خوش ہو گی، جبکہ فوج کے نچلے اور درمیانے رینکس کے بہت سے عناصر کو عمران خان نے ڈی ٹریک کر کے عوام اور فوج میں بھی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ جسے ختم کرنا گو کہ ایک مشکل کام ہے مگر آرمی چیف سید عاصم منیر انشاء اللہ کامیاب ہوں گے۔ ملک میں عام انتخابات بھی اسی برس ہونے ہیں لیکن خدشہ ہے کہ انہیں بھی ملک کی سکیورٹی صورتحال، دیگر سیاسی وجوہات اور ناکافی فنڈز کی بنا پر مناسب وقت پر ملتوی کیا جا سکتا ہے ایسا کرنے سے کوئی قیامت نہیں آ جائے گی کیونکہ اگر اب اکتوبر میں انتخابات ہو بھی جائیں تو بھی ایک تنازع اس وقت تک رہے گا جب تک کہ سیاسی جماعتیں یہ فیصلہ نہ کر لیں کہ اُن کی اپنی اپنی حد کیا ہے۔ اگر دونوں فریقین یعنی حکومت اور پی ٹی آئی نے یہ طے نہ کیا کہ وہ کیسی الیکشن کے عمل کو شفاف اور غیر جانبدار رکھ سکتے ہیں تو نتائج متنازع ہوں گے اور ملک میں مزید سیاسی تقسیم اور خلفشار ہو گا اور اگر الیکشن پر اربوں روپے لگا کر بھی خلفشار ہی لینا ہے تو اس الیکشن سے پہلے اس ناسور کا خاتمہ ضروری ہے جو ملکی سیاست میں قمر جاوید باجوہ نے شامل کر کے ملک کی تباہی کا باعث بنا دیا ہے۔ اب بھی عمران خان سمیت تمام سیاستدانوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ سیاسی مخالفین ہیں ذاتی دشمن نہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ وہ معاملات کو آگے لے کر بڑھیں اور ایک دوسرے سے مذاکرات اور بات چیت کریں اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے اور یہ پورا نظام ہی تباہ ہو جائے۔ ایک سخت آپریشن کر کے فتنہ ختم کر دینا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button