ColumnImtiaz Ahmad Shad

فوری میثاق ناگزیر .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

کسی بھی فلاحی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، انصاف، جان و مال کا تحفظ، روزگار اور دیگر ضروریات کی فراہمی شامل ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم اپنے ملک کی بات کریں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان کو بنے 76سال ہوگئے، آزادی سے لے آج تک ہم بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ ابتداء سے اب تک جو بھی حکومت آئی، وہ یہی کہتی رہی ہے کہ ملک اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے، لیکن کسی نے بھی مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ہر کوئی اقتدار کے حصول کی سیاست کرتا رہا، عوامی مسائل پر کسی نے توجہ ہی نہیں دی۔ برسوں بیت گئے لیکن ہم آج بھی اپنے چند بنیادی مسائل ہی کو حل نہیں کر سکے۔ اس وقت بھی ملک بہت سے مسائل میں گھر ہوا ہے۔ جہاں نظام تعلیم اور صحت کا برا حال ہے، وہیں مہنگائی میں بھی بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے، اشیائے ضرورت کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان کے عوام جس ذہنی کرب سے آج گزر رہے ہیں شاید اس سے پہلے اس درد میں اتنی شدت نہ تھی۔ بد قسمتی سے ریاست کے باشندے مختلف خیالات میں منقسم ہو چکے۔ ہر گروہ انفرادی سطح پر مسائل کے حل کے لئے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد تعمیر کر چکا، اور اس زعم کا شکار ہو چکا کہ اس کے علاوہ جو بھی کوئی ریاست کی ترقی اور خوشحالی کا فارمولا پیش کرتا ہے وہ ناقص ہے۔ اجتماعی دانش اور فکر ہمارے معاشرے سے ناپید ہوچکے۔ ابن العربی لکھتے ہیں کہ قوم اناج کی قلت سے نہیں مرتی بلکہ خیالات کا گدلا پن قوم کو مار دیتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی، مذہبی اور سماجی قیادت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سوچ کے اعتبار سے بانجھ پن کا شکار ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں ایک حکومت آکر جو بھی فیصلے اور معاہدے کرتی ہے آنیوالی اگلی حکومت یکسر ختم کر دیتی ہے اور پچھلی حکومت کو چور اور کرپٹ قرار دیکر نئے نئے فیصلے معاہدے اور اعلانات کئے جاتے ہیں جس سے یقینی طور پر سرمایہ کار عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بات کون طے کریگا کہ ملک میں مقامی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے کون سے اہم ترین فیصلے اور اقدامات و سہولیات کی فراہمی ضروری ہے جس سے پاکستان میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھے اور وہ اپنا تمام ممکنہ سرمایہ پاکستان میں لگاکر وطن عزیز کی معاشی مضبوطی میں اپنا کردار ادا کریں اور لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں۔ ظاہر ہے جمہوریت میں تو سیاستدانوں نے ہی ایسا کرنا ہے مگر اب تک کے حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سیاستدانوں کو ملک میں سرمایہ کاروں کے تحفظ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بلکہ انہیں اپنے ذاتی اقتدار و سیاست کا ہی لالچ ہے جس میں ضد و انا کا عنصر غالب ہے۔ جن ممالک نے بھی ترقی کی ہے انہوں نے سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کیا ہے اور انہیں یہ احساس دلایا گیا ہے کہ وہاں بے شک جس کی بھی حکومت آجائے۔ آپ کا سرمایہ مکمل طور پر محفوظ ہوگا اور آپ کو مکمل کاروباری تحفظ حاصل رہے گا مگر یہاں ہر چند سال بعد تبدیل ہوجانے والی پالیسی کے باعث ملک میں سرمایہ کاری میں مسلسل کمی آئی ہے اور بے روزگاری کی شرح خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھیجی جانیوالی رقوم کے علاوہ پاکستان اپنی معاشی ضروریات کیمطابق برآمدات میں اضافہ کرنے میں مسلسل ناکام ثابت ہوا ہے۔ ہر حکومت آکر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم نے برآمدات میں اضافہ کرلیا ہے لیکن اصل حقائق دعووں کے برعکس ہوتے ہیں۔ سیاستدانوں میں تو اس حد تک اختلافات ہیں کہ ایک دوسرے کی ذاتی زندگیوں پر غیر اخلاقی کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں آتے اور ملک کو داخلی طور پر سیاسی انتشار کا شکار کر دیا گیا ہے۔ یہاں انتخابی نظام ایسا ہے کہ جس میں ہر امیدوار کروڑوں روپے خرچ کرکے اقتدار کی کرسی تک پہنچتا ہے اور پھر اقتدار میں آکر اپنی سیاسی سرمایہ کاری منافع سمیت وصول کرنے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ اس وقت پکڑ دھکڑ کا جو عمل جاری ہے یہ عمل ہر دور میں اسی طرح رہا ہے، عدم تحفظ کا یہ ماحول ہمیشہ سے پاکستان کی معیشت کو کمزور کرتا آیا ہے۔ سرمایہ کار واضح طور پر کہتے ہیں کہ پاکستان کسی بھی لحاظ سے سرمایہ کاری کے لئے محفوظ ملک نہیں ۔ ہماری پالیسیز اس قدر ناقص ہیں کہ ملک کے اندر اور باہر کوئی بھی سرمایہ کار یقین کرنے کو تیار نہیں۔ ہم سے کہیں زیادہ کئی مغربی ممالک کو بدترین معاشی بحرانوں کا سامنا رہا ہے لیکن جب انہوں نے مل بیٹھ کر نظام میں انقلابی اور موثر تبدیلیاں کیں تو وہ ممالک تیزی سے ترقی کی منازل طے کرگئے اور سیاسی دنگا فساد کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال کا بھی ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوگیا۔ ریاست کی خوشحالی کے لئے انصاف کا قیام بنیادی پہلو ہے۔ جس ریاست میں انصاف قائم ہو وہ کبھی ناکام ریاست نہیں ہو سکتی۔ مگر ہمارے ہاں عدالتی نظام میں یہ بات عام ہے کہ دیوانی مقدمہ آپ کریں تو آپ کے پوتے اس کا فیصلہ سنیں گے اور طویل عرصے تک عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ یہاں صرف دولت مند کیلئے انصاف کا حصول آسان ہے۔ غریب آدمی انصاف کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔ اس میں بھی سب سے زیادہ قصوروار حکمران ہی ہیں جن کی ذمہ داری ہے کہ اقتدار میں آکر ملک میں عام آدمی تک انصاف کی آسان ترین فراہمی کو یقینی بنائیں۔ یہ کام بھی حکومتوں نے ہی کرنا ہوتا ہے کہ ججوں کی تعداد میں ضرورت کے مطابق اضافہ کر دیا جائے اور سائلین کو جلد انصاف فراہمی کا موقع میسر آجائے۔ مگر افسوس ہمارے ہاں تو نظام عدل کو سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مخالفین کو دبانے کے لئے ہمیشہ حکومتیں عدلیہ کا سہارا لیتے آئی ہیں۔ ان کی انہی چالوں کی وجہ سے نظام عدل میں واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ ان دنوں اگر دیکھا جائے تو واضح نظر آئے گا کہ سیاستدانوں کی ساری توجہ توشہ خانہ، کال ریکارڈنگ، ٹویٹ اور ایک دوسرے کی کردار کشی پر مبذول ہے اور ملک کی کوئی فکر کرتا نظر نہیں آرہا۔ خدارا تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر عالمی طور پر سرمایہ کاروں کو یہ پیغام دیں کہ اب ملک میں سرمایہ کاروں کو مستقل تحفظ حاصل ہوگا اور حکومتوں کی تبدیلی سے پالیسی تبدیل بھی نہیں ہوگی اور ملک کو سیاسی انتشار کا شکار نہیں کیا جائے گا بلکہ ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرکے مثبت سیاسی کردار اپنایا جائے گا۔ تمام سیاستدان مل کر یہ قانون سازی و فیصلے کریں کہ ہم سیاستدان ذاتی کردار کشی و انا سے باہر آکر اس ملک کی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اپنے ماضی کے رویوں کو ترک کرتے ہیں۔ اب اس ملک میں وہی ہوگا جس سے صرف غریب آدمی کو فائدہ ہوگا اور یہاں پر سرمایہ داروں کے ناجائز فائدے کیلئے پالیسیاں بنانا ممکن نہیں رہے گا۔ غریب کو اسکے دروازے پر انصاف اور سہولیات بہم پہنچانا اولین ترجیح رہے گی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے میثاق جمہوریت کا تجربہ ہم کر چکے ہیں۔ ضد اور انا کے پہاڑ سے نیچے اتریں اور ایک بار پھر میثاق کریں تاکہ مفلوک الحال عوام کے حالات بہتر ہو سکیں۔ عوامی فائدے کے لئے کئے جانے والے اس میثاق میں جتنی دیر ہو گی ریاست اتنی کمزور ہو گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button