ColumnJabaar Ch

زوال ….. جبار چودھری

جبار چودھری

بحران جب گھرکا راستہ دیکھ لیتے ہیں تو گھر ہی کرتے چلے جاتے ہیں۔ زوال بھی ہمہ جہت ہواکرتا ہے۔زوال بچے جنتا ہے ۔ ہرشعبے کو متاثرکرتا چلا جاتا ہے۔اخلاقی گراوٹ زوال کی سب سے بڑی اور گھٹیاترین شکل ۔اس کے بعد کسی اور طرح کے زوال کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔اخلاقی گراوٹ ایسی شیطانی بیماری کہ پورا معاشرہ تباہ ۔اعمال کھوکھلے، تقسیم واضح،ہربرے سے برے کام کا جواز،ہربات کا جواب حاضر کہ پھرکیا ہوا۔فلاں بھی تو کرتا ہے۔اس نے بھی توکیا تھا۔زیادہ ترصورتوں میں زوال کااحساس ہوتا ہی نہیں۔ جب ہوتا ہے توواپسی کا راستہ ہی بند ہوچکا ہوتاہے۔اس بحران اور ہمہ گیر زوال نے ہمارے گھر کا راستہ دیکھ لیا ہے۔ ہم خود تباہی کو دعوت دے چکے۔ جن قوموں نے ترقی کی ، خوشحالی کا ذائقہ چکھا ان قوموں نے یہ کام کیا کہ اقتدارکوحکمرانوں کے لیے طاقت اورپروٹوکول سے نکال کرحکمرانوں کی ذمہ داری بنا دیا۔ جو ذمہ داری نبھائے گا وہ اقتدارمیں رہے گا ۔جوناکام ہوگا وہ گھرجائے گا۔ہمارے ہاں اقتدارسے چمٹے رہنے کے لیے پہلا فارمولا ہی مخالف کو راستے سے ہٹانا قرار پاتاہے۔ عمران خان کو اللہ نے اقتداردے دیا تھا ۔اچھا کرتے تو مخالفین کو زندہ رہنے کا حق دیتے۔ساری توجہ ذمہ داری پرلگادیتے۔لوگ خوشحال ہوتے تو دس سال کیا پوری زندگی سرپہ بٹھاتے لیکن انہوں نے زندان کا سہارالے لیا۔جس جس جگہ سے شائبہ بھی ہواکہ مخالف کو جیل کا راستہ دکھایا جاسکتا ہے اسی راستے پر چل پڑے۔ دس سالہ اقتدارکے منصوبے ۔شہزاد اکبر جیسے کردارآس پاس۔آج کل کہاں ہیں؟ کچھ معلوم نہیں۔ پاکستان کا قانون واپس بلارہا ہے لیکن وہ کسی جزیرے کے ساحل پربیٹھے ہماری دانش پرقہقہے لگا رہے ہیں۔ خان صاحب کی زبان سے کبھی نام تک نہیں سنا ۔جو خان صاحب نے مخالفین کے ساتھ کیا جس بھی ایجنڈے پر کیا۔ جس کے بھی کہنے پرکیا غلط کیا۔اور اب جو ان کے ساتھ ہورہا ہے اس میں بھی زیادہ تر غلط ہی ہے۔ انتقام بھی زوال کی طرح کی بچے جنتا ہے ۔انتقام ختم نہیں ہوتا۔واپس آتا ہے جو انتقام لیتا ہے ایک دن خود اسی انتقام کا شکار ہوتا ہے یہی قانون قدرت ہے ۔یہی کرما اوریہی مکافات عمل۔بدلہ لینے کی قدرت ہوتے ہوئے معاف کرنے کا نشہ سب سے بہتر ۔ ویسے توزوال کا یہ عالم کہ ہر شعبہ ہی تباہ وبرباد لیکن نظام عدل کی تباہی سب کچھ بہاکرلے جائے ۔ہمارا نظام عدل بے وقعت ہورہاہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب الیکشن کروانے کا فیصلہ دے کر عمل کروانے میں ناکام رہے۔ تاریخ گزرگئی لیکن ایسی خاموشی کہ قبرستان کا گماں۔عدالت کے پاس ایک اخلاقی اتھارٹی ہی تو ہوتی ہے جو فیصلوں پر عمل کرواتی ہے۔اگر یہی اخلاقی اتھارٹی اخلاقی گراوٹ میں بدل جائے توپھرکاہے کا عدل ،کاہے کی عدالتیں اور کاہے کا انصاف۔ دوسروں کو نصیحت تبھی کی جاسکتی ہے جب خود اعلیٰ اخلاقی پوزیشن پرہوں ۔انصاف تبلیغ کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔انصاف سے معاشرہ ترقی کرتا ہے۔برائی کی حوصلہ شکنی اور اچھائی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ لیکن اگر نصیحت کرنے والے خرافات کا شکار ہوجائیں ۔کسی کی محبت یا کسی کی نفرت میں گرفتارہوجائیں۔ غصے میں فیصلے کرجائیں تو دوسری طرف بھی تو انسان ہی ہیں نا۔اعتراض بھی ہوگا اورماننے سے انکار بھی۔نصیحت کرنے والے کامقام بلنداوراعلیٰ اخلاقی پوزیشن لازمی۔ حضرت گنج شکربابا فریدؒ سے ایک واقعہ منسوب ہے کہ دربار لگا۔ آپ تشریف فرماتھے۔ایک خاتون اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہوئی ۔آنے کی وجہ پوچھی تو خاتون نے کہا بیٹے کو نصیحت کر دیں یہ شکر بہت کھاتا ہے۔اس کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے ۔میری بات نہیں مانتا آپ نصیحت کریں گے وعدہ لے لیں گے تو باز آجائے گا۔بابا جی نے فرمایا آپ کل آجانا۔خاتون واپس ہوگئی لیکن غصہ بہت آیا ۔منہ میں کافی کچھ کہہ دیا کہ کیسے بزرگ ہیں یہاں بیٹھ کرتبلیغ کرتے ہیں ۔ایک منٹ کاکام تھا میں اتنی دور سے آئی ہوں اب کل پھر آنا پڑے گا۔اگلے دن خاتون پھر آگئی۔بابا جی نے دیکھتے ہی کہا آجائیں۔ بچے کو پاس بٹھایا۔اس کو نصیحت کی۔ زیادہ شکر کھانے کے نقصانات بتائے اور ساتھ ہی والدین کا کہا ماننے کا بھی حکم دیا۔ شکر نہ کھانے کا وعدہ لے کر واپس بھیج دیا۔ خاتون کے دل میں پچھلے دن کا واقعہ پھانس کی طرح پھنسا ہوا تھا ۔رہا نہ گیا پوچھ لیا ۔ باباجی اتنا سا کام تھا کل کر دیتے تو کیا بگڑجاتا مجھے اتنی دور سے دوچکر لگانے پڑگئے ۔بابا نے فرمایا کہ میں معافی چاہتا ہوں ۔ کل بھی میں نصیحت کر سکتا تھا لیکن کل میں نے خودشکر کھائی ہوئی تھی ۔ مجھے یہ بات گوارانہیں ہوئی کہ جو کام میں خودکرتا ہوں اس سے کسی دوسرے کو کیسے منع کرتا۔ اور پھر میری اس نصیحت میں کیا اثر رہ جاتا۔ ایک منصف کو ذاتی کنڈکٹ میں اس سے بھی زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ہمارے ہاں آنکھ کی یہ شرم اور منصب کا بھرم جاچکا ہے۔ ہمارے ہاں انصاف کا تہہ دار نظام پہلے ہی عدل کا قاتل ہے۔ایک مقدمہ اسسٹنٹ کمشنر کی عدالت سے شروع ہوتا ہے ۔وہاں سے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ پھر ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ پھر رحم کی اپیل اور درمیان میں بھی انٹراکورٹ اپیلیں ۔مطلب آپ انصاف لینے نکلیں تو راستے میں خرچ ہوجائیں۔اور پھر لوئر کورٹ کا فیصلہ ختم کرکے اپنا فیصلہ دینا اعلیٰ عدلیہ نے خود ساختہ فرض ہی کرلیا ہے۔گویا جو نیچے کی عدالت میں بیٹھا ہے وہ منصف ہی نہیں ہی۔شاہ رخ جتوئی جس کو نیچے سے اوپر تک ہرعدالت نے سزاسنائی اور پھر برقراررکھی لیکن سپریم کورٹ نے بری کرنے کا فیصلہ دے دیا۔ کراچی کی سڑک پر شاہ زیب کا قتل ہوا تھا۔لاش دفن ہے۔اگر شاہ رخ جتوئی کوبری کردیا تو پھر قاتل کون تھا؟کیا سپریم کورٹ کے جج کا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ ایک شخص کو بری کرتے وقت ان سب ججز کو بلاکرپوچھے ان کا ٹرائل کرے کہ انہوں نے آٹھ سال لگائے تو کون سے شواہد تھے جن کی بناکرسزاسنائی گئی ۔اورمیرے پاس کون سے شواہد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قاتل شاہ رخ جتوئی نہیں ہے۔ اور پھر اگر یہ قاتل نہیں ہے توقاتل کون ہے؟لیکن عدل کا یہ عالم کہ ہر طرف سے سزا یافتہ سپریم کورٹ کی ایک سماعت میں باعزت بری ۔مقتول موجود لیکن قاتل کوئی نہیں؟عمران خان صاحب کی گرفتاری اور چوبیس گھنٹوں میں عدلیہ کی طرف سے نوازشات کی بارش اورمیزبانی کسی بھی صورت عدلیہ کا شیوہ نہیں بنتا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ عمران خا ن کو ضمانت نہیں ملنی چاہئے تھی ۔ بالکل ملنی چاہئے تھی اور مل بھی رہی ہیں۔ میں اس حکومت کی طرف سے کی جانے والی ’’ میڈنس‘‘ کو درست نہیں سمجھتا لیکن عمران خان کے عدلیہ کے لاڈلا ہونے کے تاثر کا بھی شدید ناقد ہوں۔ مائی لارڈ چیف جسٹس صاحب نے عمران خان کو رہا کرنے کا جو طریقہ اختیار کیا وہ انصاف کے اعلیٰ سٹینڈرز سے بہت ہی نیچے اور ایک شخص کے ساتھ خصوصی سلوک کا منہ بولتا ثبوت بھی۔ میں اس قانونی بحث میں بھی نہیں جاتا کہ ریمانڈ میں رہائی ہوتی ہے یا نہیں۔ ایک نقطہ سامنے کہ سپریم کورٹ میں روز لوگوں کی ضمانتیں ہوتی ہیں۔ وکیل پیش ہوتے ہیں چپ کرکے فیصلہ لیتے ہیں۔ روبکار بنواتے ہیں جیل سے بندہ گھر چلاجاتا ہے۔ شاہ رخ جتوئی کو بری کرتے وقت بھی سپریم کورٹ تو نہیں بلوایا تھا۔ بلکہ معزز عدلیہ کے ایسے فیصلے موجود کہ مجرم کو بری کرنے کا فیصلہ دیا اگلے دن پتہ چلا جس کو بری کیا ہے وہ تو پانچ سال پہلے جیل میں ہی مرگیا تھا۔ کتنے ملزم ہیں جن کو چیف جسٹس صاحب جیل سے بلاکر سامنے کھڑا کرکے ’’ آپ کودیکھ کر خوشی ہوئی‘‘ سے استقبال کرتے ہیں اور رہائی کے آرڈر ہی نہیں دیتے بلکہ اس ڈر سے گھر نہیں جانے دیتے کہ کہیں کسی اور کیس میں پکڑا نہ جائے۔ پھر وقت کی گردش کو پیچھے کرکے اپنی حفاظت میں رکھ کر اسلام آباد ہائیکورٹ کے حوالے۔ وہاں سے مکمل تسلی کے بعد، گرفتاری سے مکمل تحفظ دینے کے بعد گھر روانہ کیا۔ جب انصاف اس طرح ہوتا نظر آئے گا تو سوال بھی اٹھیں گے اور جج صاحب کو یہ بھی کہنا پڑے گا کہہ ہم فیصلے دیتے ہیں اور حکومت مانتی نہیں ہے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں ۔ زوال کی سب سے بری اور تباہ کن قسم یہی ہے جس کا شکار اس وقت ہماری عدلیہ ہے۔ اس ملک کو آگے لے جانے کے لیے ججز کو اپنی ذات کو پیچھے رکھنا ہوگا۔ آئین پر آنکھیں بند کرکے عمل۔ نہ من پسند تشریح نہ کسی کی پسند کے فیصلے۔ نہ کسی سے گفتگو کریں نہ آڈیو لیک ہو۔ اگر صرف یہ کام ہوجائے تو زوال کے سائے کم ہونے کا سفر شروع ہوجائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button