ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیلاب اور گندم تک .. تجمل حسین ہاشمی

تجمل حسین ہاشمی

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے پیدا ہونے والی صورت حال ابھی تک کنٹرول سے باہر ہے، حکومت پاکستان کی طرف سے جاری سیلاب متاثرین کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات پر بات کی گئی اور سیلاب سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ سنہ 2022میں آنے والے سیلاب سے پورے پاکستان میں 33لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ سب سے زیادہ صوبہ سندھ میں 23لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔4400000لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں، ورلڈ بینک کے مطابق 2.3ارب ڈالر فصلوں کے نقصان کا تخمینہ لگایا گیا، یہ سب کچھ برداشت کرنے والے صوبہ سندھ کے لوگوں کے لیے گندم پر سیاست جاری ہے، وزیراعظم شہباز شریف کے اعلانات کے بعد بھی آٹا کی قیمت کم نہ ہو سکی، سستا آٹا ریلیف نہ دیا جاسکا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے پیش نظر محکمہ خوراک اور وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو گندم کی قیمت کو سبسڈیز کرنا چاہئے تھا ، سندھ سرکار فی فرد کو چند ہزار روپے دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئی۔ سندھ میں ابھی بھی لوگوں کے پاس رہنے کے لیے گھر موجود نہیں ہیں، سیلابی پانی کے کھڑا رہنے سے زمین کاشت کاری کے لیے قابل نہیں ہے، سندھ آباد کار کے صدر زبیر تالپور کا کہنا ہے کہ سندھ کے کئی اضلاع میں سیلابی پانی کھڑا ہے جہاں پر کھیتی باڑی ابھی بھی ممکن نہیں ہے لوگوں بہت مشکل حالات میں ہیں جہاں ابھی کو سہولیات ممکن نہیں ہوئی۔ ادھر گورنر سندھ کامران ٹیسسوری نے کہا آٹا کی قیمت 110، 105تک فی کلو ایک دن میں لا سکتا ہوں ، گورنر کے اس بیان پر سندھ حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں آئی ۔ گندم کی فیصل مارکیٹ میں اتری ہے، اس وقت سے حکومت سندھ اور پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن سندھ کے درمیان اختلافات برقرار ہیں، کراچی میں آٹے کی قیمت کے حوالے سے بات کریں تو کراچی میں ابھی بھی چکی آٹا فی کلو 150روپے سے زیادہ ہے۔ پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن سائوتھ زون کے صدر عامر عبداللہ اپنی پریس کانفرنسز میں حکومت کی طرف سے گندم کی فراہمی کی کمی کا اظہار کر چکے ہیں جبکہ پرائیویٹ مارکیٹ سے خریدنے پر جرمانوں اور محکمہ خوراک کی چیک پوسٹوں کے ظلم کا سامنا ہے۔ عامر عبداللہ کا کہنا ہے کہ کراچی نان گروینگ شہر ہے کراچی میں روزانہ 8سے 9ہزار ٹن آٹے کی ضرورت ہے لیکن محکمہ خوراک کی طرف سے بے جا پابندیوں سے فلور ملز بند ہو رہی ہیں، ابھی صرف 2سے 3ہزار بوری کی سپلائی روزانہ کی بنیاد پر مل رہی جو کراچی کی آبادی کے لیے ناکافی ہے۔ ایسے حالات میں شہر کو کیسے سستے آٹے کی سپلائی کو ممکن بنا سکتے ہیں، چند دن پہلے محکمہ فوڈ اور پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پایا جس میں 8مئی کو محکمہ خوراک کی طرف سے گندم کی بحالی اور 15مئی کو چیک پوسٹوں کے ختم کرنے کے حوالے سے وعدہ کیا گیا، عامر عبداللہ کا کہنا تھا لیکن محکمہ خوراک کی طرف سے اس پر کوئی عمل نہیں کیا گیا اور پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن سندھ ان ہی مشکلات پر کھڑی ہے، جہاں وہ چند ماہ پہلے کھڑی تھی، ہمارے پاس ہڑتال کے علاوہ کو چارہ باقی نہیں بچتا ، کبھی بھی ہڑتال کا نہیں سوچتے ، ہڑتال سے ہمیں نقصان کا سامنا ہوتا ہے، سندھ حکومت کی طرف سے کوئی موقع نہیں دیا گیا بلکہ سندھ حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ ہم کسی کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے اگر محکمہ خوراک اپنے وعدے پورے کرے تو کراچی اور اندرون سندھ میں کافی حد تک بہتری ممکن ہو جاتی لیکن محکمہ خوراک کی طرف سے گندم کی عدم فراہمی اور چیک پوسٹوں کی رکاوٹوں اور ناانصافیوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ گندم کی فراہمی کو انا کا مسئلہ کون بنا رہا ہے، سندھ حکومت جو جمہوری اور روٹی کپڑا اور مکان قیادت کا نعرہ رہا اس کو معاملات کے حل کی طرف جانا چاہے۔ اس طرح سیلاب متاثرین کو ریلیف ممکن ہو سکے گا ۔ جہاں کراچی کی فلور ملز پریشان ہیں وہاں سندھ کے کاشت کاروں کو بھی گندم کی فروخت میں مشکلات کا سامنا ہے ، حکومتی ہدف ابھی تک یقینی کیوں نہیں ہو رہے کیا وجوہات ہیں، اگر مطلوبہ نتائج بر وقت حاصل نہیں ہو رہے تو اس میں محکمہ خوراک کا محاسبہ کرنا چاہئے۔ فلور ملز کو بر وقت گندم کی مطلوبہ مقدار فراہم کرنے سے کون سے نقصانات کا اندیشہ ہے اس حوالے سے محکمہ خوراک واضح کرے تاکہ سب کچھ عیاں ہو، پہلے ہی سندھ کے لوگ سیلاب سے متاثر تھے اب محکمہ خوراک کی پالیسی سے متاثر ہیں، اس وقت سندھ میں گندم کا ریٹ 100کلو گرام 10500روپے ہے اور چھاپے کے دوران سٹور کی گئی پکڑی گئی گندم کی سرکاری قیمت7500روپے کے حساب سے ادا گئی جو کہ انتہائی ظلم ہے۔ سندھ سیلاب متاثرین کے پاس دوسرا روزگار موجود نہیں، سندھ حکومت کے پاس اعدادوشمار موجود ہیں کہ عوام کس حال میں وقت گزار رہے ہیں، یہی ان ووٹر اور سپورٹر ہیں، ان کا خیال کرنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے ، سندھ میں آبادی کے اضافہ کے ساتھ گندم کے استعمال میں اضافہ یقینی ہے ، پنجاب اور سندھ میں سب سے زیادہ گندم پیدا ہوتی ہے اور یہی دونوں صوبے دوسرے صوبوں کی کافی حد تک طلب کو پورا کرتے ہیں ، چترال میں گندم کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، سابق صدر آصف علی زرداری قومی اسمبلی میں آنے والے حالات پر کہہ چکے ہیں کہ اگلا دور اجناس کا ہے، لیکن ہمارے ہیں زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں ، زرعی زمینوں کی فروخت جاری ہے، حکومت پاکستان کو زرعی زمینوں کی فروخت پر پابندی لگانی چاہیے ، دنیا بنجر زمینوں کو قابل کاشت کار بنا رہی ہے اور ہمارے دیس میں زرعی زمینوں کو پکا فرش بنایا جا رہا، رئیل اسٹیٹ سے زیادہ زرعی زمینیں آپ کی ملکی مجموعی پیداوار میں اضافے کا باعث ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے، اس لیے اس بجٹ میں زرعی شعبہ پر توجہ دینی انتہائی اہم ہو چکی ہے، غیر ملکی مالیاتی اداروں کی طرف سے دن بدن پابندیوں سے عوام کو مہنگائی کا سامنا ہے ، مہنگائی کی شرح میں اضافہ نے تاریخی ریکارڈ بھی توڑ دئیے ہیں، اتحادی حکومت نے انتہائی مشکل فیصلے کئے ہیں جس کی وجہ سے ان کو بے انتہا تنقید کا سامنا ہے، حالات کے مد نظر ایسا بجٹ پیش کیا جائے جو متوازن ہو۔ عمران خان کی طرح جاتے وقت پٹرول اور بجلی پر سبسڈی دے کر آنے والی حکومت کو مزید امتحان میں مت ڈالیں، ملکی مفادات میں سیاسی فیصلے کو قربان کرنا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button