Abdul Hanan Raja.Column

تتلی نہ بنے ت سے تو تلوار بنا دو

عبد الحنان راجہ

یہ سابق صدر جنرل محمد ضیا الحق کا دور تھا کہ جب پاکستان میں مذہبی و لسانی عصبیت کی بنیاد پڑی اور اس نے ہزاروں زندگیوں کا چراغ گل اور ملک کو معاشی لحاظ سے بے پناہ نقصان پہنچایا، بعد ازاں پرویز مشرف کے دور میں تربیت اور قوانین کے بغیر آزاد میڈیا کے خیال نے عملی روپ دھارا تو ساتھ ہی اخلاقی، فکری اور صحافتی زوال بھی شروع ہو گیا۔ رہی سہی بے لگام سوشل میڈیا اور صحافت کی تیسری جنس نے نکال دی جس نے ماحول کو سیاسی تشدد کی طرف گامزن کر دیا کہ اب غیر جانبدار اور بے لاگ صحافت تو کم و بیش ہوئی ختم، اور رواداری، علم، حلم اور تدبر کی بات جہالت اور کمزوری کے زمرے میں شمار جبکہ بدکلامی، بے لگام بہتان تراشی، معاذ اللہ غیبی سیاسی پیشین گوئیاں جرات مندانہ صحافت قرار پانے لگیں۔ صحافتی تعلیم و تربیت کے بغیر مختصر عرصہ میں اینکر اس طرح پیدا ہوئے جس طرح گدلے جوہڑ میں کھمبیاں اور اس پر مستزاد کہ اشرافیہ اور سیاست دانوں کے ڈیروں کا طواف اور انکی منشا کے ٹاک شوز اور وی لاگ کرنے والی صحافت کی یہ جنس بھی اپنے آپ کو معتبر، اور با اعتماد کہلوانا پسند کرتی ہے۔ بے چارے اور سادہ لوح سامعین پر برق اس وقت گرتی ہے کہ جب اپنے اندر کے حال سے بے خبر، ایوانوں اور اداروں کے اندر کی خبر دیتے ہیں۔ ان کی فکری و صحافتی غلاظت کے تعفن نے نہ صرف صحافتی ماحول بلکہ معاشرے کو بدبودار کر رکھا ہے، مگر ہر دو فوجی و سیاسی حکومتیں ان بھانڈوں کو پروان چڑھاتی رہیں اور جب مادر پدر آزادی ان کے گلے اور ملکی سلامتی کو خطرہ میں ڈالنے لگی تو گرفت کا خیال آیا۔ اب حال یہ کہ حکومت بے لگام، ادارے من مرضی کے مالک اور اپوزیشن کے ذمہ تو گویا کوئی فرائض ہیں ہی نہیں۔ سیاسی رہنمائوں کے نورتن وہ کہ جن کے مشورے گھر میں بھی ناقابل قبول مگر وہ قومی رہنمائوں کے مشیر، مصادر علم سے مسائل و معاملات کے استخراج و استنباط کی بجائے اب ذریعہ سوشل میڈیا، کتاب اور ام الکتاب سے ناطہ توڑ کر ہر کوئی اپنے تیئں دانشوری کی دنیا سجائے بیٹھا ہے۔ ماہرین سماجیات کے مطابق معاشرہ اس وقت زوال پذیر ہوتا ہے جب اس سے اقدار رخصت ہو جائیں. یہ اقدار ہی تو ہوتی ہیں جو باوجود طاقت ور ہونے کے کمزور اور نحیف بزرگ کے سامنے دست بستہ کھڑا رہنے اور چھوٹے بڑے میں تمیز پر آمادہ رکھتی ہیں، مگر جب قائدین کے اخلاق پہ زوال آتا ہے تو اس کے اثرات معاشرے پر پڑتے ہیں اور حال وہی ہوتا ہے جو اس وقت پاکستان کا۔ سیاست میں ’’ کردار‘‘ کا عمل دخل اتنا ہی رہ گیا جتنا ہمارے معاشرے میں ’’ دیانت‘‘ کا، مگر خواب دیکھتے ہیں اسلامی و مدنی معاشرے کا، ہمیں درکار ہے اپنی مرضی کا الزام اور من چاہا ملزم، من پسند عدالت چاہیے اور مرضی کا انصاف۔ عامی تو کیا ہماری قیادتیں بلا سوچے سمجھے لغو اور بیہودہ الزام تراشی کی عادی ہو چکی ہیں۔ اب قاتل، بددیانت اور مجرم بے گناہی کا سرٹیفکیٹ لیے دندناتے پھرتے ہیں اور سچائی تلاش سند میں سرگرداں۔ ہم فکری و اخلاقی بانجھ پن کا شکار کہ ہماری زبانیں، ہمارے ہاتھ، ہماری سوچیں اور ہمارے افعال بے لگام، مگر باوجود اس کے ہم اتنے سادہ اور اس پہ پھولپن کہ اپنے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے پرامن، ترقی یافتہ اور مہذب معاشرہ کی تشکیل چاہتے ہیں۔ ہمارے میر بھی کیا سادہ، کہ وقت پڑنے پر اسی عطار کے لونڈے کے مطب پر چارہ سازی کے لیے ہوتے ہیں۔ ماضی کی اپوزیشن اور حال کے حکمرانوں نے مشکل کشائی کے لیے وہیں سجدہ ریزیاں کیں جہاں گزشتہ دور میں تبدیلی سرکار کرتی تھی۔ مگر یہ کیوں بھول جاتے ہیں یہاں محبوب بنانے اور بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ وقت کتنی جلدی پانسا پلٹتا ہے کہ کل کے محبوب آج معتوب ہیں اور ماضی کے معتوب اب محبوب۔ معاشرتی بے حسی اتنی بڑھ چکی کہ کسی ایک طبقہ یا جماعت کے ساتھ ہونے والے غیر قانونی سلوک کے خلاف یکجا ہونے کی بجائے جب تک دوسرے فریق کو بھی اسی طرح گھسیٹا نہیں جاتا تسکین نہیں ملتی. آئین اور قانون کی بالا دستی صرف باتوں کی حد تک ہی رہ گئی. اگر تشدد، غیر انسانی سلوک، ماورائے آئین اقدامات ایک کے خلاف غلط ہیں تو دوسرے کے خلاف بھی غلط. اس نقطہ پر اگر تمام سیاسی جماعتیں اتفاق کر لیں تو کم از کم تمام ادارے بھی اپنی سمت درست اور اپنی حدود و قیود کا از سر نو تعین کر لیں گے۔ اب تو اول انصاف ہے ہی ناپید، اور اگر کسی کو عدالت سے سزا یا جزا مل بھی جائے تو فریقان مخالف فیصلہ پر اعتماد کو تیار نہیں اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔ اداروں پر اعتماد کے فقدان نے پورے ماحول کو افراتفری کا شکار کر رکھا ہے۔ قومی سطح پر ان کے پے در پے غلط فیصلوں نے سیاسی جماعتوں کو اس قدر جری کر دیا کہ اب وہ اپنی مرضی کے فیصلوں کو ہی تسلیم پر آمادہ ہوتے ہیں۔ کارکنان کی سیاسی تربیت تو کیا کرنی خود رہنمائوں کے بگڑے اخلاق معاشرے کو تنزلی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ سیاسی کارکن ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ نفرتوں کی جو فصل بوئی گئی وہ تقریبا اب تیار، یقین نہیں آتا تو گزشتہ پانچ سال کے دوران احتجاجی مظاہروں کا انداز، تباہ حال املاک اور جانی نقصانات دیکھ لیں کہ اب اختلاف اور احتجاج کا ڈھنگ بھی گیا اور ہمارے روئیے جنگلی جانوروں کی طرح ہو گئے، جو کسی بھی وقت ایک دوسرے کو پھاڑ کھانی کو تیار۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ’’ یہ درس ہی بچوں کی تباہی کو بہت ہے ، تتلی نہ بنے ت سے تو تلوار بنائو‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button