Columnمحمد مبشر انوار

عزت و ذلت ۔۔ مبشر انوار

محمد مبشر انوار( ریاض)

اللہ رب العزت نے الہامی کتا ب میں انتہائی واضح اور واشگاف الفاظ میں بیان فرما دیا ہے: ’’و تعز من تشاء و تذل من تشائ‘‘، اللہ جسے چاہے عزت دے، جسے چاہے ذلت دے۔ یہ تو رب کریم کے فیصلے ہیں جن سے نہ کوئی انکار کر سکتا ہے اور نہ اس کے خلاف جا سکتا ہے، البتہ کم عقل یا متکبر افراد میں یہ صفت ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی تدبیریں ضرور کرتے ہیں۔ لیکن اللہ رب العزت کی مدد بہرطور مجبور و بے کس و مظلوم کے ساتھ رہتی ہے۔ طاقتور بالعموم خود کو قانون سے مبرا سمجھتے ہیں اور تکبر کا اظہار کرتے ہیں لیکن دوسری طرف اللہ کو یہ منظور ہی نہیں کہ کوئی شخص روئے زمین پر متکبر ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کی عطا کردہ حکومت کو کوئی اپنی ذاتی ملک سمجھ کر باقی لوگوں کو زمین پر جینے کے حق سے ہی محروم کر دے۔ ایسے معاملات مسلسل دیکھنے کو ملتے ہیں، بالخصوص اسلامی ریاستوں میں جبکہ دو دوسری ریاستوں بھارت اور اسرائیل میں، کہ جہاں طاقت کے نشے میں مخالفین کو بولنے تک کی آزادی نہیں۔ پاکستان میں بھی اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے، پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومت میں مخالفین کے لئے مقدمات کی برسات ایسے برس رہی ہے کہ جس کی نظیر کسی مہذب و جمہوری معاشرے میں ملنا نا ممکن ہے۔ ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ لگانے والے، اس وقت ووٹ کی طاقت سے لرزاں، انتخابات سے خوفزدہ یوں آگے بھاگ رہے ہیں کہ جیسے کبھی ان کی سیاسی زندگی کا وجود ہی نہ رہا ہو، ان کی عوام میں جڑیں ہی نہ رہی ہوں، انہیں عوامی حمایت میسر ہی نہ ہو۔ پیپلز پارٹی کا بہرطور یہ طرہ رہا ہے کہ اس کے دور حکومت میں نسبتا انسانی حقوق، سیاسی عمل کی آزادی میسر رہی ہے جبکہ سیاسی انتقام اور سیاسی قیدیوں کے حوالے سے بھی پیپلز پارٹی کا دامن قدرے صاف رہا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کا دامن اس حوالے سے کبھی بھی اجلا نہیں رہا ۔ اس وقت بھی یہی صورتحال ہے کہ مسلم لیگ ن سیاسی مخالف عمران کا مقابلہ سیاسی میدان میں کرنے کے بجائے، پس پردہ انتظامی و قانونی امور میں، کر رہی ہے۔ ایک برس میں عمران خان پر تقریبا ڈیڑھ سو مقدمات درج کئے جا چکے ہیں۔ ان مقدمات کے اندراج کا مقصد انتہائی واضح ہے کہ مخالف کی ساری توانائیوں کو عدالتوں کے چکروں میں ضائع کیا جائے، ان مقدمات کو اتنا طول دیا جائے کہ مخالف کسی بھی طور سیاسی میدان میں خم ٹھونکنے کی بجائے منہ کے بل گر کر سمجھوتوں پر مجبور ہو جائے ، لیکن کیا ایسا ممکن ہی؟ حیرت تو اس امر پر ہے کہ عمران خان کی جان کو شدید خطرہ ہے، عمران خان پر باقاعدہ قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے، اس کے باوجود عمران کو اس مقدمہ میں اپنا حق استعمال کرتے ہوئے ایف آئی آر درج نہیں کروانے دی گئی، اس مقدمہ کی سماعت میں استثنیٰ کی سہولت نہیں دی جا رہی اور ہر تاریخ پر اس کی پیشی کو یقینی بنانے کا دبائو مسلسل ہے، آن لائن حاضری کی سہولت موجود ہے۔ کیا یہ کسی مذاق سے کم ہے کہ جس شخص کی جان کو خطرہ ہے، عدالتیں اس کی ذاتی حاضری کو یقینی بنانے پر مصر ہیں بصورت دیگر قانون کی خلاف ورزی پر عمران کے لئے مزید مشکلات منہ کھولے کھڑی ہیں۔ روز بروز بڑھتے مقدمات اور ان مقدمات کی سنوائیاں آخر معاشرے میں کیا تاثر پیدا کر رہی ہیں؟ کیا عوام میں یہ تاثر مستحکم نہیں ہو رہا کہ اشرافیہ کا گٹھ جوڑ کسی بھی صورت ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ، چند طاقتوروں کی خواہشات کے سامنے بے بس نظر آ رہا ہے، جو یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح عمران خان کے سر کو جھکایا جائے؟۔ دوسری طرف عمران خان ہے جو کسی بھی صورت سر جھکانے کو تیار نہیں، بظاہر اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہونے والی عمران خان گرفتاری سے یہ کوشش ضرور ہوئی کہ انا پرستوں کو خوش ہونے کا موقع مل جائے کہ عمران خان کو جبرا گرفتار کر لیا گیا، اسے قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں کے جھرمٹ میں گھسٹتے ہوئے دکھایا گیا لیکن اس میں بھی عمران خان کا ’’ سر‘‘ جھکا ہوا نہیں، گو کہ ن لیگ کے متوالے یہ ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں کہ عمران کی چال سے یہ ثابت ہوتا کہ اس نے ٹانگ میں پلاستر کا ڈرامہ رچا رکھا تھا، جو رینجرز والوں کے آپریشن سے بے نقاب ہو گیا، لگے ہاتھوں لندن میں دوائی کی خاطر بیٹھے ہوئے بائو جی کے متعلق بھی خود ہی بتا دیں کہ کیا وہ واقعی بیمار ہیں یا وہ بھی ڈرامہ ہے؟ عمران خان کی ڈرامائی گرفتاری سے کسی کی انا کی تسکین ہوئی یا نہیں، اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمان کی میڈیا میں گفتگو اس امر کی غماز ہے کہ فقط ایک دن کی گرفتاری سے انہیں کسی صورت سکون نہیں کہ وہ تو پاکستانی سیاست سے عمران خان کا باب ختم کروائے بغیر پرسکون نہیں ہو سکتے، دوسری طرف وزرا کے بیانات سے واضح ہے کہ وہ تو عمران خان اور تحریک انصاف کو ہر صورت بین کرنا چاہتے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو مظاہرے ہوئے، جو رد عمل عوام اور کارکنان نے دیا، بظاہر اس میں اتنی جان نہیں تھی، لیکن اس کے باوجود بھی حکومتی نااہلی کہیں یا منصوبہ بندی کہ چند درجن مظاہرین نہ صرف کور کمانڈر لاہور بلکہ جی ایچ کیو کے گیٹ تک پہنچ گئے بلکہ وہاں ’’ پرتشدد‘‘ کارروائی بعینہ ماڈل ٹائون دہرائی گئی، تا کہ اس کی آڑ میں تحریک انصاف کو بین کیا جا سکی۔ عدالت عظمیٰ نے مجوزہ گرفتاری کو خلاف قانون قرار دے کر عمران خان کو سرکاری تحویل میں لے لیا، گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کی ضمانت ہو گئی، عدالت عظمیٰ نے کورٹ میں عمران خان سے سیاسی قائدین کے درمیان مذاکرات اور سیاسی سرگرمیوں کے جاری رہنے کی خواہش کا اظہار کرکے پس پردہ ملک کو جمہوریت کی ڈگر پر چلتے رہنے کی کوشش کی ہے۔ دوسری طرف سیاست اور جمہوریت آئین و قانون کے تابع رہ کر ہی پنپ سکتے ہیں، چل سکتے ہیں، عمران خان نے ملک میں رہتے ہوئے، خود کو آئین و قانون کے سامنے پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی چاہتا ہے نہ کہ ڈیل کے ذریعہ ملک سے فرار ہونا چاہتا ہے۔ عمران خان سیاست اور جمہوریت کی خاطر آئین و قانون کے تحت سب کچھ کرنے کو تیار ہے ماسوائے این آر او مذاکرات کے۔ مخالفین نے عمران خان کو ذلیل کرنے کے ہر کوشش کر ڈالی ہے لیکن عمران کے اس طرز عمل نے اسے اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ ’’ باعزت مقام‘‘ سے نواز دیا ہے جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ: ’’ وہ جسے چاہے عزت عطا کرے اور جسے چاہے ذلت دے‘‘۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button