ColumnNasir Naqvi

’’بریک تھرو ‘‘ کا مذاق .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ میری رائے سے اختلاف کریں، ہر شخص جو اچھی بُری سوچ رکھتا ہے اس کا کسی بھی ’’ معاملہ‘‘ پر نقطۂ نظر مختلف ہو سکتا ہے، تاہم انسانوں اور جانوروں کا سب سے بڑا فرق ہی ’’ عقل سلیم‘‘ کا ہے۔ لہٰذا ہر آدم زادے کو ملک و ملت، معاشرے اور انسانیت کی بھلائی کے لیے ایسی مشترکہ سوچ رکھنی چاہیے جس میں اکثریت کا بھلا زیادہ اور نقصان کم ہو، لیکن بدقسمتی سے ہم باصلاحیت ہوتے ہوئے بھی ایسی سوچ سے عاری ہیں لہٰذا خواری ہی خواری ہمارا مقدر بن گیا ہے۔ معاشرے میں ہر شخص آمریت کا مخالف اور جمہوریت کا راگ الاپتا ملے گا، پھر بھی اس کے اندر رواداری اور برداشت رتی بھر دکھائی نہیں دے گی بلکہ جب بھی اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرے گا تو اس میں جمہوری اقدار اور تقاضوں کی بجائے آمریت کی بُو ضرور ملے گی حالانکہ اس راز سے سب شناسا ہیں کہ انسان اور انسانیت کی پہچان ہی فلاحی معاشرے کی بنیاد ہے۔ جس سوچ میں اجتماعیت نہ ہو اور اس میں انفرادیت کا غلبہ ہو، وہ سوچ بے کار ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ انفرادی حیثیت اور اجتماعی حیثیت کے معاملات بھی یکسر مختلف ہوتے ہیں لہٰذا ہر ریاست اور اس کے حکمران ملکی اور بین الاقوامی سطح کے مسائل کے لیے مختلف پالیسیوں پر کاربند ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی سب جانتے ہیں اختلافات کی صورت میں دوست، رشتہ دار اور کاروبار حیات تبدیل کئے جا سکتے ہیں لیکن ’’ ہمسایہ‘‘ بدلنا ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے۔ یہ ایسی نعمت ہے کہ اگر اس کی سوچ اور سرگرمیاں مثبت ہیں تو پھر ’’ ستے خیراں‘‘ اگر نہیں تو پھر خیر کو ترستے ہی رہیں گے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی ایک ایسی ریاست ہے جسے ایک ایسا ہمسایہ ملا جس نے اسے روز اوّل سے تسلیم ہی نہیں کیا اور دوسرا ایسا بھائی جنہیں سنوارتے، سنبھالتے ہم خود پائوں پر کھڑے نہ ہو سکے۔ آپ سمجھ تو گئے ہیں میری مراد ازلی دشمن بھارت اور افغان بھائیوں سے ہے ، پاکستان امن پسندی اور خطے کی ترقی و خوشحالی کی خواہش رکھنے کے باوجود ایسے مسائل میں پھنسا ہوا ہے جن میں اپنی اپنی جگہ دونوں ممالک نے اپنا اپنا حصّہ ڈالا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی غربت، ناقص منصوبہ بندی اور محدود وسائل کے باعث گزشتہ 75سال میں وطن عزیز ایسی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکا جو اسے کرنی چاہئیں تھیں۔ بنگلہ دیش اور عوامی جمہوریہ چین پیچھے سے آ کر آگے نکل گئے ہیں لیکن غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ہمارے حالات کار، وسائل اور حکمران مختلف تھے، پھر بھی یہاں باصلاحیت اور دھرتی کے وفاداروں کی کمی نہیں تھی۔ جب ہی تو بھوک و افلاس میں رہتے ہوئے بھی ایک ترقی پذیر اَن گنت مسائل میں گھرا ہوا ’’ پاکستان‘‘ دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن گیا اور تمام تر مشکلات کے باوجود سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہے بس یہی وجہ ہے کہ بین الاقوامی سازشیں، امریکہ بہادر اور پس پردہ دشمن اسے سرخرو ہوتا نہیں دیکھ پا رہے۔ پاکستان خطے کے امن اور ترقی کے لیے افغانستان میں امن اور مظلوم کشمیریوں کے اس حق خود ارادیت کے اصولی موقف پر قائم ہے جو بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے واویلے پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے مقبوضہ کشمیر کے کشمیریوں کو حاصل ہے لیکن بھارتی مکار حکمرانوں نے 75سال صرف وعدوں اور دھونس دھاندلی پر گزار دئیے۔موجودہ دور میں گجراتی قصائی مودی جی کی حکومت نے کشمیریوں کی آئینی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے کشمیریوں کو بھرپور انداز میں دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ جس کے ردعمل میں ’’ پاک بھارت تعلقات‘‘ میں ایک مرتبہ پھر دوری ہو گئی۔ دونوں ممالک میں تجارتی معاملات بھی ختم ہو گئے۔ نقصان حکمرانوں کا نہیں، ریاستوں اور عوام کا ہوا، مہنگائی کے دور میں عوامی مشکلات بڑھ گئیں۔ تمام تجارت خلیجی ممالک کے راستے ہوئی تو سب کچھ مہنگا ہو گیا۔ عوامی جمہوریہ چین سے بھی بھارتی تعلقات کشیدہ ہیں لیکن وہاں لڑائی، اختلافات کے باوجود ’’ تجارت‘‘ جاری ہے۔ دراصل ہمارے ہاں جذباتیت زیادہ کارفرما ہے ہم ہر سطح پر اختلافات کو زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور یہ عادت کب بدلے گی، کوئی نہیں جانتا؟
ازلی دشمن بھارت ’’ شنگھائی تعاو ن تنظیم‘‘ کا میزبان بنا تو اس نے ممبر ممالک کی حیثیت سے مجبوراً پاکستان کو’’ وزرائے خارجہ کانفرنس‘‘ کی دعوت دے دی، ان کا خیال تھا کہ اگر دعوت نہ دی تو دیگر ممالک اعتراض کریں گے لہٰذا تعلقات ایسے ہیں کہ اس نے دعوت قبول ہی نہیں کرنی پھر ’’ بال اس کے کورٹ‘‘ میں کیوں پھینکا جائے۔ ان کے ’’ تھنک ٹینک‘‘ کا مشورہ تھا کہ پاکستان آئے یا نہ آئے ہر دو صورت میں پھنس جائے گا۔ پاکستان کو جونہی دعوت ملی اس نے ایک اچھا چانس سمجھتے ہوئے قبول کر لی بھارتی حکام کو پہلے یہ سرپرائز لگا، پس پردہ سوچ و بچار میں یہ رائے بنائی گئی کہ دعوت کی قبولیت پاکستان کی سیاسی چال ہے۔ عین وقت پر کسی بہانے سے معذرت کر لے گا لیکن ایسا بھی نہ ہوا، جب شیڈول کنفرم ہو گیا تو پھر بھارتی وزارت خارجہ میں ’’ کائونٹر پلان‘‘ ترتیب دیا گیا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو لفٹ نہ کرائی جائے اور میڈیا کے ذریعے بھارتی وزیر خارجہ ’’ جے شرما‘‘ کی شخصیت کا ڈھول پیٹ کر اسے بلاول بھٹو زرداری کے سر پر سوار کر دیا جائے۔ بھارتی میڈیا نے ادھم مچایا کہ ڈاکٹر جے شرما ایک تجربے کار سفارت کار اور وسیع مشاہدہ رکھنے کے باعث پاکستانی نوعمر وزیر خارجہ کو اپنے ایجنڈے اور گفتگو سے زیر کر دیں گے لیکن مسئلہ بالکل الٹ گیا کیونکہ پاکستانی حکومت نے تو ’’ شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کے اس خارجی امور کے اجلاس کو بطور ’’ بریک تھرو‘‘ استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بھارتی میڈیا حکومتی ایماء پر ’’بلاول بھٹو زرداری‘‘ سے دو دو بلکہ چار ہاتھ کرنے کو تیار تھا۔ پہلا سوال یہ داغا گیا کہ کیا آپ ’’ آن کیمرہ‘‘ جے شرما سے ہاتھ ملائیں گے؟ جواب ملا، میں ایک ممبر ملک کا نمائندہ ہوں مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ ہم کھلے ذہن سے وفد کے ہمراہ آئے ہیں لہٰذا’’ شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کے مفادات اور اصولوں کی مکمل پابندی کریں گے۔ پھر پوچھا گیا ’’ کیا آپ حریت لیڈروں سے ملیں گے؟‘‘ جواب ملا، اس دورے کے ایجنڈی میں نہیں، ملاقات کی درخواست ہے نہ ہی شیڈول ، لہٰذا نہیں ملوں گا۔ مخصوص ایجنڈے کے ’’ ڈیوٹی فل‘‘ صحافی سرحد کے دونوں جانب ان ہی دو سوالوں کو بنیاد بنا کر شور مچانے لگے لیکن ان دو جوابات نے تجربہ کار ڈیل ایم۔ اے، پی ایچ ڈی ڈاکٹر جے شرما کو دفاعی رویہ اپنانے پر مجبور کر دیا۔ ہندو بنیا نے مودی جی کی خاص ہندو پالیسی، ہندوئوں کا ہندوستان اور انتہا پسندی کے بیانیہ کی توپوں کا رخ بلاول بھٹو زرداری کی طرف کر دیا۔ بوکھلاہٹ میں وہ آداب میزبانی بھی بھول گئے۔ اور وہ کچھ کہہ گئے کہ آج تک سرحد کے دونوں جانب تنقید کا نشانہ بنے ہیں۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے جائزہ لیں تو جس انداز میں بلاول بھٹو زرداری وہاں دہشت گردی، علاقائی خوشحالی اور کشمیری اصولی موقف پر گرجے برسے۔ وہ بھارتیوں کی امیدوں سے بہت زیادہ تھا انہوں نے بغیر کسی دبائو کے صرف اور صرف پاکستان کی ترجمانی کی، کسی کو اچھی لگی یا بُری۔۔ اس سے کوئی سروکار نہیں، بلاول بھٹو زرداری نے اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کر دی۔ وہ صرف وزیر خارجہ تھے اور اپنی ذمہ داری اور منصب کو سمجھتا تھے۔ تجربہ کار جے شرما ابھی تک بغلیں جھانک رہے ہیں کیونکہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ نہیں، بچہ سمجھ رہے تھے ، کوئی مانے یا نا مانے حکومت پاکستان کا یہ ایک ایسا ’’ بریک تھرو‘‘ ہے جس میں نہ صرف پاکستان کا موقف بھارتی سرزمین پر بلا جھجھک پیش کیا گیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بلاول بھٹو زرداری کا قد بھی بڑھا اور وہ انٹرنیشنل پریس میں زیر بحث رہ کر شہ سرخیوں کی زینت بھی بنے۔ بھارت میں ’’ دہشت گردی‘‘ کے نام پر سکورنگ کی جاتی ہے۔ بلاول بھٹو نے تمام سازشیں بے نقاب کیں۔ ٹرین آتشزدگی کے مجرموں کی رہائی، کلبھوشن کی پاکستان میں آمد کا تذکرہ کر کے سوالات بھی اٹھائے۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم اور بربریت کی بات ہی نہیں ہوئی بلکہ بلاول بھٹو زرداری نے پیشکش کی کہ بھارت تحفظات کی بات کرتا ہے تو ہم تیار ہیں لیکن اسے بھی پاکستانی تحفظات دور کرنے پڑیں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے دو انٹرویوز بھی دئیے جس میں صاف صاف کہا کہ بھارت دہشت گردی کو بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا حالانکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ پاکستان نے امن قائم رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے لیکن بھارتی ظلم و ستم سے کشمیریوں کے انسانی حقوق ہی سلب نہیں کئے گئے بلکہ عالمی سلامتی اس غیر ذمہ دارانہ روئیے کے باعث خطرے میں پڑ چکی ہے جبکہ پاکستان اور چین مشترکہ تعاون سے خطے کی ترقی و خوشحالی کے لیے ’’ سی پیک‘‘ کی تکمیل چاہتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ بھارت کے سوا شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام ممالک اقتصادی راہداری کو اہمیت دیتے ہیں اور پاکستان کی طرح ’’ سی پیک‘‘ کو گیم چینجر منصوبہ قرار دیتے ہیں پاکستان نے اپنی حکمت عملی سے ’’ بریک تھرو‘‘ کر لیا لیکن بھارت اپنی سازش کی ناکامی پر نہ صرف مذاق اڑا رہا ہے بلکہ پاکستانی سہولت کاروں کے ذریعے ’’ کھسیانی بلی‘‘ بنا ہوا ہے حالانکہ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ اس پاک بھارت ’’ بریک تھرو‘‘ کی اہمیت کو سمجھا جائے۔ ابھی نیا بھارتی منصوبہ مقبوضہ کشمیر میں’’ شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کا سربراہی اجلاس کرانے کا بھی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button