ColumnImtiaz Aasi

گرفتاری، شکوہ اور توڑپھوڑ .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

سیاست کی پر خار وادی میں سیاست دانوں کی گرفتاریاں معمول کا عمل ہے لیکن جس بھونڈے انداز سے عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی وہ کئی سوال چھوڑ گئی۔ ایک نہتے شخص کو گرفتار کرنے کے لئے اتنا لائو لشکر لانے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔ عمران خان کو اپنی گرفتاری کی بھنک پڑ گئی تھی۔ عدلیہ سے کھلواڑ مسلم لیگ نون کی روایت رہی ہے۔ عجیب تماشا ہے حکومت کو اقتدار میں آئے ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے انہیں القادر ٹرسٹ میں گرفتاری کا اب خیال آیا ہے۔ ایک سو سے زیادہ مقدمات بنانے کے باوجود عمران خان کی گرفتاری میں مایوسی کے بعد القادر ٹرسٹ کیس کھولنا پڑا ہے۔ عوامی رد عمل کے خوف سے انٹرنیٹ سروس، ٹوئٹر اور یوٹیوب جانے کیا کچھ بند کرنا پڑا ہے۔ قریہ قریہ عوام سڑکوں پر نکل آئے وہ کیوں نہ نکلتے انہیں عمران خان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں بلکہ یوں کہیے وہ عوام کی آخری امید ہے۔ راولپنڈی اور لاہور کے بعض اہم مقامات پر توڑ پھوڑ کے پس پرد ہ محرکات بارے پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر کا کہنا ہے اس توڑ پھوڑ کا تعلق پی ٹی آئی ورکرز سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کے لئے ایک منصوبہ بندی سے کیا گیا ہے تاکہ پی ٹی آئی پر پابندی کا جواز مل سکے۔ کئی سال پہلے سپریم کورٹ پر حملہ کے بعد وفاقی دارالحکومت کی اعلیٰ عدالت میں جس طرح توڑ پھوڑ کی گئی شرم سے نگاہیں جھک جاتیں ہیں۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ جناب عامر فاروق نے اس معاملے کو فوری نوٹس لے لیا اور رات گئے اس پر اپنا حکم بھی سنا دیا۔ سیکرٹری داخلہ اور آئی جی کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے گئے۔ عمران خان کی گرفتاری کو قانونی قرار دینے کے بعد رجسٹرار ہائیکورٹ کو انکوائری کرکے ذمہ داروں کے خلاف مقدمہ درج کرانے کا حکم دیا۔ اگرچہ القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی وارنٹ جاری ہو چکے تھے۔ جہاں تک ہمارا خیال ہے حالات نے اس وقت پلٹا کھایا جب عمران خان نے وزیر آباد میں اپنے اوپر حملہ بارے دل کی بھڑاس نکالی۔ عمران خان کا شکوہ بجا ہے ان کی شکایت درج کیوں نہیں ہوئی۔ دراصل عمران خان نے اپنے کیس کو ازخود خراب کیا ہے زخمی ہونے کے بعد انہیں سرکاری ہسپتال جا کر میڈیکل لیگل رپورٹ بنوانی چاہیے تھی جو ایک قانونی عمل ہے جس سے کسی کو استثنیٰ نہیں۔ قانونی طور پر نجی ہسپتال کی ایم ایل آر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ عمران خان ضابطہ فوجداری کی دفعہ154کے تحت اپنی شکایت متعلقہ پولیس سٹیشن میں درج کرا سکتے تھے۔ چلیں مان لیا ان کی شکایت تھانے میں درج نہیں ہوئی وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں استغاثہ دائر کر سکتے تھے۔ سیشن جج شہادت لینے کے بعد مقدمہ کے اندراج کا حکم دے سکتے تھے۔ مروجہ طریقہ کے مطابق تھانے میں رپورٹ درج ہو بھی جائے تو تفتیشی پولیس آفیسر زیر دفعہ 157ضمنی 3ضابطہ فوجداری کے تحت اگر محسوس کرے شکایت میں بیان کردہ حالات مشکوک ہیں اور اس میں مزید تفتیش کی ضرورت نہیں ہے تو وہ مذکورہ دفعہ کے تحت رپٹ درج کرے گا اور اپنی رپورٹ میں مزید تفتیش نہ کرنے کی وجوہات ضبط تحریر لائے گا۔ تعجب ہے بعض حلقوں کی جانب سے عمران خان کو ثبوت پیش کرنے کو کہا جا رہا ہے۔ پولیس سٹیشن میں شکایت کے اندراج کے بعد متعلقہ پولیس آفیسر شکایت گزار کو اپنی شکایت کے سلسلے میں شہادت یا کوئی اور ثبوت پیش کرنے کا کہہ سکتا ہے۔ جب شکایت درج نہیں ہوئی ہے تو شکایت گزار پہلے ثبوت کس قانون کے تحت پیش کرتا؟ پی ٹی آئی کے ایک صوبائی وزیر نے وزیر آباد حملہ سے ایک روز قبل بیان میں عمران خان پر حملہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا تھا ۔ اگر ملزم گرفتار ہوا تھا تو وزیر صاحب کو بھی اصولی طور پر شامل تفتیش کرنا چاہیے تھا۔ افسوناک پہلو یہ ہے ہمارا ملک معاشی اور سیاسی بحران کا شکار تو تھا ہی اب عدلیہ سے بھی کھلواڑ شروع ہو گیا ہے ۔ اعلیٰ عدلیہ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کی روایت موجودہ حکومت نے ڈال دی ہے۔ عمران خان کے وکیل کے بقول گرفتاری کے وقت سابق وزیر اعظم پر تشدد بھی کیا گیا ہے جو اچھی بات نہیں۔ ٹھیک ہے عمران خان کے دور میں سیاست دانوں پر مقدمات بنتے رہے البتہ شریف خاندان کے خلاف صرف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج ہوا جس میں وزیراعظم ہوتے ہوئے شہباز شریف نے فرد جرم نہیں لگنے دی۔ نواز شریف کو پچاس روپے کے سٹامپ پیپر پر ضمانت دے دی گئی اور وہ کئی سال سی لندن میں ہیں ۔ کوئی مجھ ایسا غریب ہوتا تو جیلوں میں پڑا رہتا ہے۔ ہمارے ملک کا یہی تو المیہ ہے۔ عمران خان نے ملک بھر میں جلسوں کا پروگرام بنایا تھا جن کا انعقاد ان کی جماعت کے دیگر رہنما کریں گے۔ دراصل تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے اگرچہ عمران خان نے اپنے دور میں عوام کے لئے کوئی خاطر خواہ اصلاحات تو نہیں کیں مگر عوام اس کے ساتھ ہے۔ حکومت کو الیکشن کا خوف کھائے جا رہا ہے۔ عمران خان کو گرفتار کرنے سے کیا اس کی مقبولیت کم ہو جائے گی بلکہ عوام کی مزید ہمدردیاں اس کے ساتھ ہو جائیں گی۔ حکومت کی غیر قانونی حرکات سے شائد نیب کے پہلے چیئرمین آفتاب سلطان نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا ان کا ایک بیان نظر سے گزرا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا اگر کسی نے ایک پلاٹ لیا تو اس گرفتار کرنے کو کہا جاتا ہے۔ پی اے سی نے ججوں کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ حکومت کی اتحادی جماعت کی ایک رہنما میاں رضا ربانی کا کہنا ہے جج صاحبان کے اثاثوں کی تفصیل طلب کرنا پبلک اکائونٹس کمیٹی کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔ ملک کے معاشی حالات تو حکومت سے بہتر ہونے کی امید نہیں ہے، اب عمران خان کی گرفتاری کے بعد سیاسی بحران مزید بڑھنے کے خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد حکومت نے عوامی رد عمل سے بچنے کی خاطر پی ٹی آئی کے رہنمائوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تاکہ تحریک انصاف جلسوں کا انعقاد نہ کر سکے۔ تاسف ہے اربوں کی منی لانڈرنگ کرنے والے اہم عہدوں پر فائز ہیں اور عمران خان کو دبائو میں لانے کے لئے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button