Ali HassanColumn

عدلیہ اور حکمران .. علی حسن

علی حسن

سابق مغربی پاکستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جنا ب محمد رستم کیانی ( ایم آر کیانی) اس دور میں جب جنرل ایوب خان نے پاکستان میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا تھا، اپنی تقریر کے مختلف پیرائے میں مارشل لاء کے نفاذ پر ہلکے پھلکے تبصرے کیا کرتے تھے ۔ اسی وجہ سے وہ ملک بھر میں مقبول ہو گئے تھے۔ ایک موقع پر ایوب خان ایک محفل میں مہمان خصوصی تھے جہاں جسٹس کیانی بھی مدعو تھے۔ منتظمین نے انہیں بھی خطاب کی دعوت دے دی تھی، اس تقریب کا مختصر جائزہ جسٹس کیانی کی تقاریر کے ایک مجموعے ’’ افکار پریشان‘‘ کے پیش لفظ میں افتخار درانی نے لیا ہے۔ وہ درج ذیل ہے۔
پورے پانچ مہینے سے ایوب خان پر ہر طرف سے تعریفوں کی بارش ہو رہی تھی۔ وہ جہاں جاتے ان کی خدمت میں تہنیت اور ستائش کی نذرانے پیش کئے جاتے تھے۔ وہ ہر محفل میں ایک خوشامدانہ پذیرائی کے اس قدر عادی ہو گئے تھے کہ کیانی صاحب کا بے تکلفانہ لہجہ، ان کے چبھتے ہوئی جملے اور پھر مار شل لاء پر ان کی کھری تنقید ان کے لئے ناقابل برداشت ہو گئی۔ کیانی صاحب کی تقریر ختم ہونے پر دیر تک جو تالیاں بجتی رہیں اس سے وہ اور بھی بھڑک گئے۔ وہ جوابی تقریر کے لئے اٹھے تو ان کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ ان کے لہجے میں وہ جلال تھا کہ جیسے وہ غداروں کے ایک ٹولے کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کر چکے ہیں۔ انہوں نے سب کو یہ کہہ کر جھنجھوڑ دیا کہ آپ یہاں بیٹھے ایک دوسرے کو لطیفوں سے محظوظ کر رہے ہیں اور سرحد کے اس پار آپ کی تباہی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ صرف آدھے گھنٹے میں دشمن کے جہاز آپ پر آگ برسا سکتے ہیں اور آپ کے شہر میں کوئی ایسی جگہ ہو گی جسے محفوظ سمجھا جا سکے۔ اس قسم کی دہشت ناک صورت حال سے دو چار کر کے انہیں نے کیانی صاحب کی پر لطف تقریر کا اثر زائل کر دیا اور پھر جب فضا پر ایک گمبھیر سنجیدگی طاری ہو گئی تو انہوں نے کیانی صاحب کی تقریر میں اٹھائے گئے سوالات کا جواب نہایت درشت انداز میں دیا۔ انہوں نے کہا آپ لوگ تحقیقات مانگتے ہیں، میں کہتا ہوں آپ کو اتنا تحفظ حاصل ہے کہ آپ کو غیر محفوظ بنائے بغیر آپ کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ ایک دفعہ جو سرکاری ملازم ہو گیا ، اس سے چھٹکارا حاصل کرنا حکومت کے لئے مشکل ہو جاتا ہے چاہے وہ کتنا ہی نا اہل کیوں نہ ہو، سرکاری محکمے اب یتیم خانے بن گئے ہیں۔ ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہوگا۔ جب اس قسم کی دھمکیوں سے انہوں نے سب کو خوفزدہ کر دیا تو وہ کیانی صاحب کی طرف متوجہ ہوئے ، ’’آپ نے اپنی تقریر لکھنے میں خاصی محنت کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ فیصلے بھی اسی محنت سے لکھتے ہوں گے‘‘ اور پھر انہوں نے عدالت عالیہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہر طرف مقدموں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ لوگ انصاف کی تاخیر سے نالاں ہیں اور اس طرح انتظامیہ اور عدلیہ دونوں کو ٹھکانے لگانے کے بعد جب ایوب خان نے تقریر ختم کی تو عجیب عالم تھا۔ گورنر دم بخود تھے۔ سینئر سرکاری افسر کیانی صاحب کی تلخ گوئی پر نادم تھے۔ جونیئر افسر یہ سمجھ رہے تھے کی کیانی صاحب کی تقریر کے دوران ہنسنے اور تقریر کے ختم ہونے پر دیر تک تالیاںبجانے کی سزا میں انہیں معطل کر دیا جائے گا۔
ایوب خان سب کی خبر لینے کے بعد ایک فاتح کے انداز میں کھانے کی میز سے اٹھے اور سول سروس اکیڈمی کے وسیع و عریض لائونج کی طرف چلے تو سینئر افسر ادب سے حلقہ باندھے ہوئے ان کے ساتھ تھے۔ ایوب خان نے لائونج میں بیٹھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ دس بارہ منٹ کھڑے کھڑے ہی گورنر اور سینئر افسروں سے بات کرتے رہے اور پھر رخصت ہو گئے۔
اس اثنا میں کیانی صاحب نے کمرے کے دوسرے حصے میں اپنا دربار جما لیا تھا۔ جونیئر افسر ان کے گرد جمع تھے اور وہ تالیف قلوب کے لئے انہیں دلچسپ قصے سنا رہے تھے۔ صدر کے جانے کے بعد انہوں نے کوہاٹ کے ایک پٹھان کا قصہ سنایا جس نے اکبر کے دربار میں اس شرط پر اپنا ایک خاص ساز بجانے کی پیشکش کی تھی کہ پہلے دربار کے مشہور فنکار اپنے اپنے سازوں پر اس کی پسندیدہ دھن بجائیں۔ وہ فنکار سب اپنے ساز الگ الگ بجاتے تھے اور بادشاہ سے انعام و اکرام پاتے تھے۔ جب بادشاہ کے حکم پر سب نے ایک دھن بجائی تو دربار میں ایک آرکسٹرا کا سماں پیدا ہو گیا۔ اس وقت پٹھان نے اپنا موسل کندھے پر رکھ اور ایک گز اس پر پھیرنے لگا اور اس طرح اپنا موسل بجانے میں محو ہو گیا جیسے یہ ساری کیفیت اس کے کمال فن سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ لطیفہ سنا کر کیانی صاحب نے کہا کہ ایوب خان پچھلے پانچ مہینے سے اپنا موسل بجا رہے ہیں۔ آپ کو ابھی اندازہ نہیں ہوا کہ یہ سارا کامل آپ کے الغوزے، چنگ اور سرود کا ہے۔ دیر تک وہ جونیئر افسروں سے باتیں کرتے رہے۔ جب محفل ختم ہوئی اور وہ جانے کے لئے زینے سے نیچے اتر رہے تھے تو انہیں نے میری طرف مڑ کو کہا ’’ایوب خان کی تقریر کو حرف آخر مت سمجھنا، اب ملک کے ہر گوشے سے اور ہر پلیٹ فارم سے انہیں جواب دوں گا‘‘۔ یہ بات کیانی صاحب نے بڑے دھیمے لہجے میں مگر ایک عجیب عزم کے ساتھ کہی تھی اور پھر سب نے دیکھا کہ وہ آخر دم تک نہایت نا مساعد حالات میں حق گوئی کا مقدس فریضہ ادا کرتے رہے، ان کے پائے استقلال میں کبھی لغزش نہیں آئی۔
مارشل لاء لگنے سے پہلے بھی کیانی صاحب اپنی شگفتہ بیانی کی وجہ سے بہت مقبول مقرر تھے۔ مختلف قسم کے ادارے انہیں تقریر کرنے کے لئے مدعو کرتے رہتے تھے ۔ وہ جہان بھی جاتے اپنے ہلکے پھلکے انداز میں بڑے گہری باتیں کہہ جاتے اور لوگوں کی توجہ ہمیشہ ان بنیادی اقدار کی طرف دلاتے جن کے بغیر زندگی کے کسی شعبے میں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اب جو دعوت نامے ملتے تو وہ بخوشی انہیں قبول کرتے اور ہر موقع اظہار کو ایوب خان کے حرف آخر کے جواب کو ذریعہ بناتے۔ ان کی تقریر میں ایک اہم تبدیلی یہ آئی کہ وہ متعلقہ اداروں کے معاملات سے گزر کر قومی مسائل پر ان کے بے باک تبصروں کا ذریعہ بن گئیں۔ تھوڑے ہی عرصے میں صورت حال یہ ہو گئی کہ کیانی صاحب کی تقریر قوم کے دل کی آواز بن گئی۔ انہوں نے کراچی اور پشاور تک سفر کئے۔ طرح طرح کی انجمنوں سے خطاب کیا اور کوئی اہم مسئلہ ایسا نہیں تھا جس پر کھل کر اظہار نہ کیا ہو۔ وہ اپنی زبان اور قلم سے جہاد کرتے رہے یہاں تک کہ 15نومبر 1962ء کو چٹاگانگ میں ان کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا۔
اب یہ خبر کہ عدالت عظمیٰ نے عدالتی اصلاحات کے قانون سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 ) کیخلاف دائر کی گئی آئینی درخواستوں پر بدھ کے روز سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سیاستداں انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں، ہر ادارہ سپریم کورٹ کو جوابدہ ہے، سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کر دیا، سینئر جج اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے، بعد ازاں کیس کی مزید سماعت پیر8مئی تک ملتوی کردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ہر جج کی عزت ہے، سب عدالت کے فیصلوں کے پابند ہیں، اگر عدالت کے ججوں کی عزت نہیں کی جائیگی تو انصاف کیلئے نہیں کہا جاسکتا ہے۔ انہوںنے مزید کہا ہے کہ سیاسی شخصیات سپریم کورٹ سے انصاف نہیں بلکہ من پسند فیصلے چاہتی ہیں، اسی لیے پک اینڈ چوز کی بات کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button