ColumnImtiaz Aasi

سوموٹو ترمیم، پس پردہ محرکات .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے آئین میں دی گئی مدت کی روشنی میں صوبہ پنجاب میں الیکشن کے انعقاد کا از خود نوٹس لیا تو ہر طرف شورو غوغا شروع ہو گیا۔ حکومت نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے چند دنوں میں سوموٹو کے قانون میں ترمیم کر دی۔ آئین نے مفاد عامہ کے کسی معاملے کا از خود نوٹس لینے کا اختیار سپریم کورٹ کو تفویض کر رکھا ہے بلکہ لفظ سپریم کورٹ لکھا ہوا ہے۔ جہاں تک سپریم کورٹ کی بات ہے بادی النظر میں سپریم کورٹ سے مراد اس کے تمام جج صاحبان ہیں۔ تعجب ہے کئی حکومتیں ہو گزریں کسی کو سوموٹو قانون میں ترمیم کی ضرورت نہیں پڑی۔ سوال ہے موجودہ حکومت کو اس قانون میں ترمیم کی ضرورت کیوں پڑی۔ کیا اس قانون میں ترمیم کا مقصد الیکشن کا انعقاد تھا یا پس پردہ اس ترمیم کے محرکات کچھ اور تھے؟ حکومت نے جو اس قانون میں ترمیم کی ہے سوموٹو کا اختیار بجائے چیف جسٹس کے عدالت عظمیٰ کے تین سینئر موسٹ جج صاحبان کسی معاملے کا سوموٹو لینے کو ضروری سمجھیں گے تو ایسے معاملات کا نوٹس لیا جائے گا۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے بجائے صرف چیف جسٹس کے پاس کسی معاملے کا سوموٹو لینے کا اختیار ہو، ایسے معاملات کا سپریم کورٹ کے تین سنیئر جج صاحبان دیکھ کر اس کے نوٹس لینے یا نہ لینے کا حتمی فیصلہ کریں گے۔ ہماری ناقص رائے میں اس حد تک ترمیم پر چیف جسٹس صاحب کو بھی اعتراض نہیں ہوگا۔ اب ہم آتے ہیں سوموٹو کا اختیار اور اس کے پس پردہ محرکات کیا ہیں۔ کئی ہفتوں سے اس معاملے پر بحث و مباحثہ جاری ہے جبکہ اصل معاملے کی طرف کسی نے توجہ دینے کی کوشش نہیں کی۔ اگرچہ ہمارے کالم کا موضوع کچھ اور تھا، ہم نے ضروری سمجھا سوموٹو اختیار کے پس پردہ محرکات سے ملک کے عوام کو حکومتی بدنیتی Malafideسے آگاہ کیا جائے۔ حکومت نے سوموٹو کیس میں اپیل کا حق دے کر ایک احسن اقدام کیا ہے کیونکہ کسی سے کوئی جرم سرزد ہونے کی صورت میں سزا یاب ہونے کے بعد اسے اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کا حق ہوتا ہے۔ سوال ہے اگر سوموٹو کیس میں کسی کو سزا ملتی ہے تو اسے بھی اپیل کا حق تو ہونا چاہیے تھا جو قرین انصاف کے تقاضے ہیں۔ دراصل حکومت نے الیکشن کے اس شور و غوغے میں عدالت عظمیٰ کو جل دینے کی بھرپور کوشش کی جس میں اسے کامیابی نہیں ہو سکی ہے۔ حکومت نے سوموٹو کیس میں اپیل کا حق ماضی سے جو دینے کی ترمیم کی ہے اس سے معاملات بگڑے ہیں۔ دراصل ترمیم کا مقصد سابق وزیراعظم نواز شریف کو اپیل کا حق دے کر انہیں باعزت بری کرانا مقصود تھا۔ اسی لئے حکومت نے سوموٹو کیس میں اپیل کا حق فوری طور پر دینے کے بجائے ماضی سے موثر کرنے کی ترمیم کی ہے جس کا مقصد نواز شریف کو اپیل کا حق دے کر بری کرانے کے بعد ملک واپس لانا ہے تاکہ انہیں چوتھی مرتبہ وزیراعظم کے منصب پر فائز کیا جا سکے۔ عدلیہ کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی قانون کو ماضی سے موثر کرنے کی ترمیم کی گئی ہو بلکہ جو بھی قانون بنتا ہے اس کا نفاذ فوری طور پر ہوتا ہے نہ کہ ماضی سے ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے حکومت کی نیت بھانپ لی اور حکومتی ترامیم کو مسترد کر دیا ہے۔ ہم پہلے اپنے کالموں میں لکھ چکے ہیں حکومت اور اس کے اتحادیوں نے عوام کے مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کی روایت ڈالی ہے جس کے نقصانات کا آنے والے وقت میں پتہ چلے گا۔ جب سے پی ڈی ایم کی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے کوئی ایک کام جو اس حکومت نے عوام کے مفاد میں کیا ہو۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کرتے وقت مہنگائی اور نہ جانے کون کون سے سہانے خواب غریب عوام کو دکھائے گئے۔ انتخابی اصلاحات کا بہت شور و غوغا تھا۔ عمران خان نے بائیو میٹرک ووٹنگ متعارف کرانے کی کوشش کی تو حکومت اور اس کے اتحادیوں کو ناگوار گزری، چلیں نہ سہی لیکن اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومت کے ساتھ مل بیٹھنے میں کیا نقصان تھا۔ اس حکومت کو ایک سال ہوگیا ہے ابھی تک انتخابی اصلاحات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔ بس اپنے اقتدار کو طوالت دینے کی فکر لاحق ہے کہیں اقتدار جاتا نہ رہے۔ اس حقیقت میں شک نہیں بیوروکریسی اور دیگر انتظامی محکموں میں پیپلز پارٹی کا بالعموم اور مسلم لیگ نون کا بالخصوص بہت زیادہ اثر و رسوخ ہونے سے عمران خان کے دور میں نہ تو قانون سازی ہو سکی ہے اور نہ ہی عوام کے مسائل حل ہو سکے ہیں۔ شاید انہی وجوہات کی بنا عمران خان کے دور میں قانون سازی کے بجائے آرڈیننس سے کام لیتا جاتا رہا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے عمران خان کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد حکمران ٹولہ ملک اور عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکا۔ اس کی کوششیں اپنے خلاف نیب اور دوسری عدالتوں میں دائر مقدمات ختم کرانے کے لئے نیب قوانین کو بے اثر کرنے اور اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات کو محدود کرنے تک مرکوز ہے جس کی بنیادی وجہ نون لیگ کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے لئے ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آنے کے لئے راہ ہموار کرنا ہے۔ مسلم لیگ ن کا ماضی اس بات کا گواہ ہے وہ اقتدار میں آنے کے بعد بلا روک ٹوک اپنے مفادات کے لئے اقتدار کو استعمال کرنے کی خاطر کسی حد تک جا سکتی ہے۔1997میں اس جماعت نے سپریم کورٹ کو دو دھڑوں میں تقسیم کیا اور پھر اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور ان کے ساتھی ججوں پر حملہ کرکی انہیں کمرہ عدالت سے بھاگنے پر مجبور کیا۔ یہی جماعت احتساب کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرتی رہی ہے۔ جسٹس قیوم مرحوم اور موجودہ وزیراعظم کی گفتگو کی ریکارڈنگ منظر عام پر آچکی ہے جس میں جسٹس قیوم کو بے نظیر بھٹو کے خلاف فیصلہ دے کر اسے نااہل قرار دینے کو کہا جا رہا ہے۔ اقتدار کی خاطر یہ لوگ کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے ان کی مقتدرہ سے تین مرتبہ مڈبھیڑ ہو چکی ہے، اب یہ اداروں سے مل کر اپنے سیاسی حریف عمران خان اور اعلیٰ عدلیہ کو پچھاڑنے کے لئے کوشاں ہیں جس سے ملک کے انتظامی اور عدالتی ڈھانچے کی چولیں ہل گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button