Column

ٹیکنالوجی اور نوجوان نسل کی تربیت

احتشام خٹک

بچپن میں ایک کاہل آدمی کا قصہ بزرگوں سے سنا تھا جس کی خواہش تھی کہ اس کا ہر کام بیٹھے بیٹھے ہوجائے، اسے خود سے اٹھ کر کچھ نہ کرنا پڑے۔ اس کے باپ نے اس کو ایک ایسی مشین بنا کر دی جس میں صرف بٹن دبانے سے ہر کام ہوجا تا تھا۔ اس کاہل شخص نے مشین کی ساری خوبیاں جاننے کے بعد کہا کہ یہ بٹن کون دبائے گا۔ آج ہم ایسے ہی دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا پر موجود کسی خبر کی تصدیق کی جائے اور مصدقہ خبر شیئر کی جائے بلکہ ہم ہر خبر کو بنا تصدیق کئے دھڑا دھڑ شیئر کرتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام طور پر لوگ انٹرنیٹ کے فوائد سے تو واقف ہوتے ہیں لیکن اس کے تاریک پہلو بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ انٹرنیٹ آن لائن خطرات ایک چیلنج بن چکا ہے۔ نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے، آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو آگے بیان کر دے (مسلم)۔ اسی طرح ایک قرآنی آیت ہے جس کا ترجمہ ہے اے ایمان والو، اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو ( ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لا علمی میں تکلیف پہنچا بیٹھو اور پھر تم اپنے لئی اس پر پچھتائو۔ بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اور موجودہ دور کی ٹیکنالوجی کے مثبت و منفی اثرات کے حوالے سے کچھ سوالات پیش کئے گئے جن کے جوابات تلاش کرنا از حد ضروری اور ناگزیر ہے۔ یہ سوالات بھی ایسے ہیں کہ آپس میں اسباب و نتائج کے لحاظ سے جڑے ہوئے ہیں، بچوں اور نوجوانوں میں انٹرنیٹ کا استعمال کیسے کیا جائے اور اس کی نگرانی کیسے کی جائے؟ انٹرنیٹ پر موجود مستند و غیر مستند معلومات کے سمندر میں گمراہ کن دینی و اخلاقی مواد سے نوجوان نسل کو کیسے بچایا جائے؟ فیک نیوز و معلومات کی پہچان کیسے کی جائے اور اس کی پھیلائو سے کیسے روکا جائے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں اس حوالے سے اسلامی اقدار کی پہچان کیسے کرائی جائے؟ بحیثیت مسلمان یہ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس کے رہنما اصول نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے مفید اور کارگر ہیں۔ آج اس ٹیکنالوجی کے دور میں بے حیائی اور عریانیت ہماری زندگی میں دراندازی کرتی رہی ہے لہٰذا یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں لاکھوں انٹرنیٹ صارفین جن میں کثیر تعداد نوجوانوں کی ہے آن لائن ایسے مواد کا شکار ہو رہے ہیں یا ہو سکتے ہیں جو بعد میں سنگین جرائم کے ارتکاب کا موجب بن سکتے ہیں۔ ایسا غیر اخلاقی مواد نہ صرف غیر قانونی کام کرنے بلکہ گھناونے سائبر کرائمز میں ملوث ہونے کا سبب بنتے ہیں اور ایسے نوجوانوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے جس کے معاشرے پر اثرات تباہ کن ہو سکتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں ہم اگر چہ اپنے نوجوانوں، نئی نسل کو انٹرنیٹ، سوشل میڈیا کے استعمال سے محروم تو نہیں رکھ سکتے تاہم ہم ان کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھتے ان کو بہتر رہنمائی ضرور کر سکتے ہیں۔ خالق انسانیت انسانی فطرت کے مطابق تین ذرائع سے انسان کی تربیت کرتے ہیں، ایمان، اخلاق، قانون ( سزا و جزا) اور انہی تین پہلوئوں سے تربیت کرنے کے لئے والدین، اساتذہ اور معاشرے و حکومت کے بااثر و بااختیار افراد و ادارے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ والدین ( گھر و محلہ میں) اور اساتذہ کرام ( مسجد و مدرسہ و تعلیمی اداروں میں) اخلاص و محبت اور باہمی اعتماد کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں میں قرآن و سنت کی روشنی میں شعوری ایمان پیدا و پختہ کرتے ہیں اور اس پر عمل رہنے کے لیے کڑی نگرانی بھی کرتے ہیں تب کہیں جا کر مثبت و کامیاب نتائج حاصل ہوتے ہیں اور یہ ایک ہمہ وقتی کام و ذمہ داری ہے۔ دوسری جانب معاشرے کے اجتماعی ادارے، حکومت کے بااختیار ادارے اور حکمران طبقات ایسا سازگار، صاف ستھرا ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں ایمان و اخلاق نشوونما اور ترقی پا سکیں اور گمراہ کن و نقصان دہ عوامل کا قلع قمع کیا جا سکے۔ بچوں اور نوجوان نسل کو تعلیم و تربیت، قرآن و سنت کی تعلیم، سلف صالحین کی تعبیر و تشریح کی روشنی میں متقی و ماہر اساتذہ کرام کے ذریعے دی جائے تاکہ ان کو اچھائی و برائی میں پہچان کا مستند پیمانہ ہاتھ آ جائے اور وہ اس پیمانے کے ذریعے انٹرنیٹ پر موجود مستند و غیر مستند معلومات کے جنگل میں مستند علم کی پہچان آسانی کے ساتھ کر سکیں، ساتھ ساتھ مسلکی و فقہی تعصبات سے بھی سختی کے ساتھ بچایا جائے تاکہ ان میں وسعت نظر پیدا ہو اور معاشرے میں باہمی تعاون، محبت اور رواداری بھی پیدا ہو۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ شر و فساد کی قوتوں کو بھی بہت سی آسانیاں فراہم ہو گئی ہیں، انسان کے ایمان و اخلاق کے بہت سے مرئی اور غیر مرئی حفاظتی حصار ایک ایک کر کے ٹوٹتے جا رہے ہیں، اب شر و فساد کی قوتیں بیڈ روم کے اندر تک بغیر کسی رکاوٹ کے رسائی حاصل کر چکی ہیں، ایسے میں یہ ناگزیر ہو چکا ہے کہ اب انسان کے دل و دماغ پر شر و فساد کی قوتوں کو نقب لگانے سے بچائے کے لئے شعوری ایمان کو انتہائی پختہ اور مضبوط کیا جائے، والدین اور اساتذہ کرام پوری یکسوئی، ذمہ داری، اخلاص و محبت کے ساتھ اپنے بچوں کی ایمانی و اخلاقی تربیت کریں، ان میں اعتماد پیدا کریں کہ وہ اپنی تمام سرگرمیاں آپ سے شیئر کریں جہاں مشکل یا گمراہی کا خطرہ محسوس کریں وہاں آپ سے رہنمائی حاصل کریں تاکہ بچے اور نوجوان انٹرنیٹ کا مثبت استعمال کر کے کامیاب انسان بنیں اور اپنے دور کے ساتھ چل سکیں اور نقصان دہ چیزوں سے بچ سکیں جہاں تک فیک نیوز کا تعلق ہے آج کے انسانی معاشرے فیک نیوز کی وجہ سے گمراہی اور فساد سے بھر چکے ہیں، سچ اور جھوٹ، صحیح اور غلط، جائز و ناجائز کی پہچان انتہائی پیچیدہ اور مشکل کر دی گئی ہے، اس چیز میں ٹیکنالوجی کے غلط اور منفی استعمال کا بہت بڑا حصہ ہے۔ کسی بھی خبر کی جانچ کے لیے دو چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، خبر کا مضمون، خبر دینے کا ذریعہ، اس بارے میں قرآن کی ہدایات واضح ہیں کہ جھوٹ سے اجتناب کریں اور ہمیشہ سچ بات کریں، دوسری جانب خبر کے ذریعے کے بارے میں ارشاد ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی فاسق اور فاجر خبر لے کر آئے تو مناسب جانچ پڑتال اور تصدیق کے بغیر ہرگز اس پر عمل نہ کریں اور نہ ہی آگے پھیلائیں تاکہ خود بھی نقصان سے بچ جائیں اور دوسروں کو بھی بچائیں، اس لئے کوئی بھی خبر آگے پھیلانے اور شیئر کرنے سے پہلے یہ دیکھنا لازم ہے کہ یہ خبر سچ ہے یا جھوٹ؟ نقصان دہ ہے یا مفید؟ اس میں جعل سازی تو نہیں ہوئی؟ سچ اور جھوٹ کی ملاوٹ تو نہیں کی گئی ہے؟ اسی طرح خبر دینے والے ذریعے کے مفادات، تعصبات اور محبات تو اس خبر میں نہیں بول رہے؟ اس نے کسی واقعہ پر اپنے مفادات، تعصبات یا محبات کے رنگ تو نہیں چڑھائے؟ یہ ساری جانچ پڑتال کسی بھی خبر کے سچ یا جھوٹ ہونے کی حقیقت کھولتی ہے، ایسی فیک خبریں جن کا حقیقت سے کوی تعلق نہ ہو۔ ایسے معاملات میں بہت سے لوگ کسی بھی غلط، من گھڑت خبر حتیٰ کہ غیر تصدیق شدہ مذہبی معلومات کو شیئر کرنے کے سنگین نتائج سے باکلل بے خبر ہیں۔ ایسی خبر کو جانچنے کیلئے ضروری ہے کہ دی گئی معلومات کو ہر اینگل سے پرکھا جائے۔ مختلف ذرائع سے اس کی تصدیق کی جائے، کیا یہ خبر حالات سے مطابقت رکھتی ہے۔ کیا اس خبر کی کوی تاریخ واضح ہے۔ کیا اس کی ترتیب مکمل ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے آن لائن ذرائع سے تصدیق کی جا سکتی ہے، جو کرنی چاہئے اور اس کیلئےPTAکی خدمات بھی آن لائن لی جا سکتی ہیں جو ہمہ وقت اپنی عوام کو رہنما فراہم کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button