ColumnNasir Naqvi

نظریۂ گنجائش .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

نظریۂ ضرورت نے پاکستان میں ایسے ایسے کارنامے انجام دئیے کہ ہر سطح پر اس سے بے زاری کا مظاہرہ کیا گیا لہٰذا اعلان عام کیا گیا کہ نظریۂ ضرورت نے سیاست، حکومت اور عدالت میں جیسی سرگرمیاں دکھائیں وہ قابل قبول نہیں، اس لیے اس سے دائمی نجات حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ ہر بحرانی دور میں حقیقت سے نظریں چراتے ہوئے نظریۂ ضرورت نے کوئی نیا مسئلہ کھڑا کیا، اس اجتماعی سوچ پر اسے ہمیشہ کے لیے دفنا دیا گیا لیکن اس عمل کے بعد بھی وقتاً فوقتاً نظریۂ ضرورت ہر جگہ نظر آتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ’’ نظریۂ ضرورت‘‘ ہر قومی بحران اور مشکل میں سب سے آگے خدائی خدمت گار بطور کام آتا ہے اس لیے وہ مددگار بھی ہے اور ’’ ڈیوٹی فل‘‘ بھی، اور اس دوران جو مارا جائے وہ شہید ہوتا ہے، درجہ بندی میں اس کی شہادت جنگ میں مارے جانے والوں سے کم ہوتی ہی لیکن اس کی شہادت سے انکار ممکن نہیں، یوں دفنانے کے بعد بھی شہید زندہ ہوتا ہے اس لیے اس کی موجودگی میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تاہم اس کے استعمال اور افادیت سے آج تک جتنے بھی فائدے اٹھائے گئے وہ متنازعہ ہی رہے اسی لیے موجودہ آئینی بحران میں عزت مآب چیف جسٹس نے حتمی فیصلے کے باوجود ’’ بند گلی‘‘ سے نکلنے کے لیے ’’ نظریہ گنجائش‘‘ کو جنم دے دیا، اب بحران سے جان چھڑانے کے لیے ’’ نظریۂ گنجائش‘‘ بروئے کار لایا جائے گا۔ سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے ’’ مذاکرات‘‘ کا راستہ بھی اسی نظریۂ گنجائش کی کرامت ہے ورنہ سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ 14مئی کو الیکشن کا حتمی فیصلہ کر چکا تھا اور چیف صاحب نے بھی فیصلہ واپس نہ لینے کا موقف اپنایا تھا لیکن بھلا ہو حالات کی نزاکت کا جس میں ’’نظریۂ گنجائش‘‘ ملک و ملت کے اعلیٰ ترین مفادات کے لیے پیدا ہو گیا۔ سب نے سکھ کا سانس لیا کہ اب معاشی، سیاسی اور آئینی بحران میں ’’ نظریۂ گنجائش‘‘ سے بہتری آئے گی کیونکہ رواداری اور برداشت کا باعث بنے گا؟ قوم کے وسیع تر مفادات میں ’’ نظریۂ گنجائش‘‘ کو حکومت نے بھی اپناتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کے زیر اہتمام مئی کے پہلے ہفتے میں بھارت میں منعقدہ آٹھ ملکی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی شرکت کریں گے۔ ورنہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر بائیکاٹ جاری تھا، اس لیے اس دور ے کو دونوں ممالک میں پائے جانے والے ڈیڈ لاک کے خاتمے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں تقریباً بارہ سال قبل حنا ربانی کھر نے بطور وزیر خارجہ بھارت کا دورہ کیا تھا۔ ترجمان وزارت خارجہ کے مطابق اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت جنوری میں دی گئی تھی جسے پاکستان نے تنظیم کے چارٹر اور خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے باعث قبول کیا ہے۔ پاک بھارت کشیدگی اور سردمہری میں بلاول بھٹو زرداری کے دورے پر ایک سے زیادہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں لیکن معاشی بحران کی موجودگی میں یہ دورہ ’’ نظریۂ گنجائش‘‘ کی بدولت ہی کیا جا رہا ہے ورنہ بھارتی ہٹ دھرمی سے جارحانہ اقدامات اور تنازعات کے باعث بھارت سے دوری اور اسے نظر انداز کیا جا رہا تھا تاہم ایسا لگتا ہے کہ شنگھائی کانفرنس کی گنجائش سے عوامی جمہوریہ چین کی طرح تنازعات کے باوجود تجارتی معاملات میں بہتری لانے کے لیے حقیقی مسائل سے درگزر کیا جا رہا ہے کیونکہ بدترین معاشی بحران میں بھارت سے تجارتی تعلقات بہتر کر کے مختلف شعبہ جات میں مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں، فی الحال بہتری کی امید ہے تاہم یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ دورہ کامیاب ہو گا یا ناکام، پھر بھی حقیقت یہی ہے کہ ’’ نظریۂ گنجائش‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے تعلقات میں بہتری کے لیے بھرپور تیاری اور مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کا یہ دورہ منفرد ہونا چاہیے۔ ایک ایسا دورہ جس میں خطے کے مسائل اور تنازعۂ کشمیر کے حوالے سے نہ صرف بات چیت کی جائے بلکہ انسانی حقوق، کشمیریوں پر کئے گئے جبر و تشدد اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے بھارتی ظلم و ستم کا بھی جائزہ لیتے ہوئے مناسب اقدامات کا اعادہ کیا جائے۔ اطلاعات کے مطابق تادم تحریر بلاول بھٹو زرداری کی بھارتی ہم منصب سے ’’ ون ٹو ون‘‘ ملاقات شیڈول نہیں لیکن امکانات موجود ہیں۔ اسی ماہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والی نئی دہلی کانفرنس میں وفاقی وزیر شیری رحمان ’’ آن لائن‘‘ شرکت کر چکی ہیں تاہم یہ بات بھی خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اس دورے میں کسی کشمیری رہنما یا حریت کانفرنس کی قیادت سے بھی ملاقات شیڈول نہیں لہٰذا بھارتی پالیسی میں اس امر کا امکان موجود ہے کہ مودی سرکار اس دورے سے دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرے کہ پاکستان نے کشمیر پر بھارتی موقف مان لیا ہے اگر اس نے ایسی کوئی چال چلی تو نہ صرف کشمیریوں اور موجودہ پاکستانی حکومت میں خلیج پیدا ہو گی بلکہ کشمیریوں میں بھی بددلی پیدا ہو سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’ نظریۂ گنجائش‘‘ میں ہماری وزارت خارجہ کیسی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا مظاہرہ کرتی ہے اگر دورہ بھارت میں کشمیر، بربریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے جامع گفتگو کی گنجائش نہ نکالی جا سکی تو بھارت ہماری تمام مثبت کوششوں کو منفی پراپیگنڈا میں ضائع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس لیے وزارت خارجہ اور بلاول بھٹو زرداری کو دورہ کی کامیابی اور اسے یادگار بلکہ پاک بھارت تجارتی و دوستانہ تعلقات کے لیے جوش کی بجائے ہوش سے کام لینا ہو گا ورنہ دو روزہ شنگھائی کانفرنس اور دورہ بھارت کے آفٹر شاکس ’’ برداشت‘‘ کرنے پڑیں گے بلکہ حکومتی دشمن عمران خان اسے کوئی نیا رخ دے کر بیان بازی کی جنگ چھیڑ سکتی ہیں۔ حکومتی صف بندی کی جا چکی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اپنے قائد نواز شریف کا آشیر باد پر مصلحت پسندی چھوڑ کر جارحانہ ہو چکے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بیان نے بھی اس بات کی نشاندہی کر دی کہ اب کسی وزیراعظم کو توہین کے نام پر گھر بھیجنے نہیں دیں گے۔ عدلیہ کا کام آئینی تبدیلی ہرگز نہیں، لہٰذا محض وضاحت میں اسے ’’ ری رائٹ‘‘ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی پارلیمنٹ کو کوئی ڈکٹیشن دینے کا حق رکھتا ہے جس انداز میں ’’ عدالت اور پارلیمنٹ‘‘ مدمقابل کھڑے ہوئے ایسا ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا، پھر کیوں ہوا؟ یہ اداروں کی کوتاہی اور اپنے اختیارات سے تجاوز کا ردعمل ’’ نظریۂ گنجائش‘‘ کے تحت دیکھنے کو ملا۔ موجودہ بحران میں پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کہ زیادہ سے زیادہ آئینی سقم کو نئے قوانین سے دور کر لے تاکہ مستقبل میں شہید نظریہ ضرورت کسی کے کام آئے اور نہ ہی کوئی ’’ نظریۂ گنجائش‘‘ تلاش کرنے کی کوشش کر سکے۔ یقینا یہ بحرانی دور مشکلات کا باعث ہے، ترقی و خوشحالی کی راہیں بند ہو چکی ہیں لیکن معاملات کے سدھار کا واحد راستہ ’’ پارلیمنٹ‘‘ ہے جسے حقیقی معنوں میں وہ عزت و تکریم بدقسمتی سے نہیں مل سکی جو اس کا حق تھا ’’ دیر آید درست آید‘‘ سمجھتے ہوئے پارلیمنٹ اور منتخب نمائندوں کو اپنا بھرپور کردار ادا کر کے ’’ پارلیمان‘‘ کی بالادستی کو ترامیم کے ذریعے ایسے گرفت میں ہمیشہ کے لیے پابند کر دے کہ کوئی آئندہ کسی بھی مصنوعی نظرئیے کا استعمال نہ کر سکے ۔ ملکی معاشی، سیاسی اور آئینی بحران کے باوجود سپہ سالار جنرل عاصم منیر اپنے چوتھے غیر ملکی دورے پر عوامی جمہوریہ چین گئے۔ ان پر بھی تنقید کی جا رہی تھی کہ بھلا بحرانی دور میں ان دوروں کی کیا ضرورت پیش آئی۔ انہیں ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ مملکت کی خارجی اور داخلی معاملات کی، لہٰذا انہیں اپنا کردار ادا کر کے ملک و قوم کو مشکلات سے نجات دلائی چاہیے تھی؟ لیکن سب جانتے ہیں کہ سابق سپہ سالار جنرل ( ر) باجوہ نے سیاسی معاملات میں مداخلت سے اپنے اور ادارے کے لیے کتنی نیک نامی کمائی۔ وہ اپنے منصب سے سبکدوش ہو گئے پھر بھی انہیں ہر بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ واضح اعلان بھی کر دیا کہ عسکری قیادت کا یہ مشترکہ فیصلہ ہے کہ وہ کسی معاملے میں اب مداخلت نہیں کرے گی، اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ’’ نیوٹرل‘‘ رہے گی لیکن سیاسی اندازِ فکر میں ابھی بھی لوگ بحران سے نجات کے لیے اسی سے توقع وابستہ کئے ہوئے ہیں اسی طرح بین الاقوامی سطح پر بھی ہمیشہ پاکستانی حکمرانوں سے زیادہ ’’ سپہ سالار‘‘ پر نگاہیں مرکوز کی جاتی ہیں اسی کی مثالیں 1947ء سے 2023ء تک بھری پڑی ہیں اور بڑی مثال ’’ سی پیک‘‘ کی ضمانت تھی، عمرانی حکومت میں جنرل ( ر) باجوہ اور عمران خان نے ملی بھگت سے اس پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو تعطل کا شکار کیا جس سے آزمودہ دوست چین سے بھی تعلقات خراب ہوئے۔ موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر سپہ سالار جنرل عاصم منیر نے بھی ’’ نظریۂ گنجائش‘‘ کا فائدہ اٹھایا اس لیے کہ خطے میں چین، روس، ایران اور سعودیہ کے بننے والے اتحاد میں پاکستان اہمیت کا حامل ہے اس کا سی پیک اور گوادر منصوبہ خطے اور دیگر ممالک کے لیے اہم ترین ہیں لہٰذا سپہ سالار سیاسی حکومتی کمزوری کے ازالے کے لیے گنجائش کے مطابق دورہ چین پر گئی وہاں ایسے تجارتی معاملات اور منصوبوں پر نہ صرف بات چیت ہوئی بلکہ یقین دہانی بھی کرائی گئی جو پاکستان کے معاشی بحران کے خاتمے کے لیے بنیاد ثابت ہوں گے۔ امید قوی ہے کہ آئندہ چند ماہ میں ملکی حالات میں خوشگوار تبدیلی ضرور آئے گی لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملکی اور قومی ترقی و خوشحالی کے لیے منتخب نمائندوں کے ذریعے تمام قومی اداروں کو ایسا استحکام دیا جائے کہ مستقبل کے بحرانوں سے جان چھڑانے کے لیے ’’ نظریۂ ضرورت اور نظریۂ گنجائش‘‘ کا بہانہ تلاش نہ کرنا پڑے۔ تمام ادارے آزادی سے اپنی آئینی حدود میں رہ کر سسٹم کے تحت کام کر سکیں اور جہاں کسی قسم کا ابہام یا رکاوٹ پائی جائے اسے پارلیمنٹ کے ذریعے دور کیا جا سکے۔ اگر ایسا ممکن نہ بنایا جا سکا تو 75سالوں میں بھی ختم نہیں ہو سکے گا جیسا کہ اب دیکھنے کو ملا کہ پارلیمنٹ اور عدالتی مقابلے کے بعد گنجائش نکال لی گئی لیکن یہ مستقل حل ہرگز نہیں؟۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button