ColumnM Riaz Advocate

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔۔۔ .. محمد ریاض ایڈووکیٹ

محمد ریاض ایڈووکیٹ

پاکستان کی عدالت عظمی کے سینئر ترین جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دو دہائیوں سے خبروں کا مرکز رہے ہیں۔ یاد رہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالہ سے وکلاء و سیاسی جماعتوں کے ہمیشہ دو مختلف دھڑے رہے ہیں۔ ایک دھڑا آئین پاکستان ، قانون اور انصاف پر مبنی فیصلہ جات کے حوالہ سے انکا مداح ہے جبکہ دوسرا دھڑا انکے فیصلوں کی وجہ سے ان سے بدظن رہتا ہے۔ بہرحال وقت نے کئی مرتبہ ثابت کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے ہمیشہ ہی حق پر مبنی رہے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال مشہور زمانہ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ تھا۔ اپریل19اسلام آباد میں آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کی تقریب میں آئین پاکستان قومی وحدت کی علامت کے موضوع سے خطاب اور سوال و جواب کی نشست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تاریخ پاکستان، پاکستان کی زبوں حالی کی وجوہات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ حوالہ کے طور پر درج ذیل چیدہ چیدہ نکات شامل تحریر کئے جارہے ہیں۔ آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو کام آج کرتے ہیں اس کے اثرات صدیوں بعد تک ہوتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی، اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ نے ہمیں سکھانے کے لیے کئی مرتبہ اپنے آپ کو دہرایا، 1958،1971، 1977، 1999میں بھی تاریخ پکارتی رہی کہ سیکھو، تاریخ ہمیں سات سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائے گی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1956کی دستور ساز اسمبلی کے تحت الیکشن نہیں ہوا،1958میں ایک شخص نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر مارشل لا لگایا دیا،1962میں اس شخص نے اپنا آئین بنالیا، 1965میں اسی آئین کے تحت الیکشن ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پوری طاقت کے باوجود حالات اس شخص سے نہ سنبھلے تو پھر ایک اور ڈکٹیٹر کے حوالے کر دیا جس کے بعد1971میں ملک ٹوٹ گیا۔ دسمبر1971میں پاکستان اچانک نہیں ٹوٹا بلکہ اس کے بیج بوئے گئے تھے، میری رائے میں فیڈرل کورٹ کے جسٹس منیر نے پاکستان توڑنے کا بیج بویا، پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، جو زہریلا بیج بویا گیا وہ پروان چڑھا اور1971میں ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈکٹیٹر آنے کے کچھ عرصے بعد سمجھتا ہے کہ وہ تو اصل میں جمہوریت پسند ہے، ڈکٹیٹر ریفرنڈم کراتا ہے اور نتائج98فیصد تک پہنچ جاتے ہیں، ریفرنڈم کے برعکس پاکستان میں زور و شور سے ہونے والے الیکشن کے نتائج کبھی60فیصد سے زیادہ نہیں آتے۔ سپریم کورٹ کے سینئر جج کا کہنا تھا کہ اختلافات کے باوجود حکومت اور پی این اے ایک میز پر بیٹھے اور مسائل بھی حل کر لیے تھے، مگر4جولائی77میں ایک شخص مسلط ہوا اور قبضہ کرلیا ۔ آئین میں آرٹیکل58ٹو بی کی شق ڈالی کہ جب دل کرے منتخب حکومت کو برطرف کر سکیں،58ٹوبی کا استعمال بھی کیا اور خود ہی کی منتخب جونیجو حکومت ختم کردی،18ویں ترمیم میں58ٹو بی کو ہٹایا، صوبوں کو اختیارات دیئے گئے۔12اکتوبر1999میں ایک اور سرکاری ملازم نے سمجھا کہ اس سے بہتر کوئی نہیں، مشرف کا دوسرا وار3نومبر2007میں تھا جب ایمرجنسی نافذ کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں184تین کا لفظ استعمال ہوا ہے سوموٹو کا نہیں، آرٹیکل184تین سپریم کورٹ کو شرائط کے ساتھ اختیار دیتا ہے کہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے لئے کوئی کام کیا جائے،184تین کی شق ان مظلوموں کے لیے رکھی گئی تھی جو عدالت تو دور وکیل تک نہیں پہنچ سکتے تھے، اس شق کا پاکستان میں بھرپور استعمال ہوا، کئی مرتبہ اچھی طرح اور کئی مرتبہ بہت بری طرح۔ قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ184تین کو کسی فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، اگر اس شق کا استعمال مفاد عامہ میں نہ ہو تو اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا، لازم ہے کہ اس شق کو استعمال میں لاتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے، میری رائے کے مطابق184تین کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے، میرے دوستوں کی رائے ہے کہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، ایک رائے یہ بھی ہے کہ184تین کا استعمال ہو تو سپریم کورٹ کے تمام ججز اسے سنیں، شق بتا دیں ، میری اصلاح ہوجائیگی میں آپ کے نظریہ پر چل سکوں گا۔ قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ مستقبل کی طرف دیکھتا ہوں، آئین کا بڑا حوصلہ ہے جس پر کئی بار وار کئے گئے لیکن وہ آج بھی ویسے ہی کھڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پر آئین کا زیادہ بوجھ ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا دفاع اور حفاظت کریں گے، جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے اس کی قدر نہیں ہوگی، ظالم کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہے لوگوں کی مرضی، زندہ معاشرے میں اختلاف رائے ہوتا ہے، سب تائید میں سر ہلانا شروع کر دیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائیگی۔ سب سے بری چیز تکبر اور اس کے بعد انا ہے، آپ کسی عہدے پر بیٹھے ہیں تو انا نہیں ہونی چاہیے، جس دن مجھ میں انا آگئی میں جج نہیں رہوں گا، اختلاف سے انا کا تعلق نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ نے ہمیں سکھانے کے لیے کئی مرتبہ اپنے آپ کو دہرایا۔ یاد رہے پاکستان میں قانون کے ہر طالب علم کو پاکستان کی آئینی تاریخ پڑھائی جاتی ہے مگر افسوس قانون کے رکھوالوں کی اکثریت عدالتوں میں پاکستان کی آئینی تاریخ کو بھول جاتی ہے۔ بہرحال جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی صورت میں اک نئی اُمید سحر پید ا ہوئی ہے کہ ایک ایسا جج جو تاریخ کو سامنے رکھتا ہے اور ہمیشہ تاریخ سے سبق سیکھنے کا درس دیتا ہے۔ مستقبل میں ہمیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے یہ امید بھی رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے پیشرو جسٹس افتخار چودھری اور بابا رحمتا ثاقب نثار کی طرح اندھا دھند جوڈیشل ایکٹوازم سے پرہیز کریں گے کیونکہ ماضی میں چیف جسٹس کے عہدہ پر براجمان ہوکر کئی افراد اپنے آپ کو آئین و قانون سے ماورا اور عقل کل سمجھتے رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button