ColumnImtiaz Aasi

رائٹ آف وے کا تعین .. امتیازعاصی

امتیازعاصی

عشرے گزر گئے، راولپنڈی کے قریب بہنے والے دریائے سواں کے کناروں پر واقع اراضی کے رائٹ آف وے کا تعین نہ ہو سکا۔ اس عرصے میں بے شمار کمشنر اور ڈپٹی کمشنر آتے رہے، لینڈ مافیا اتنا طاقتور ہے وہ اس معاملے کو اختتام تک پہنچنے نہیں دیتا۔ قانونی طور پر دریائے سواں کے قدرتی بہائو کو محفوظ بنانے کے لئے تعمیراتی زون کی اجازت نہیں ہے، دریائے سواں کے دونوں کناروں پر شاپنگ مال اور ہائوسنگ سوسائٹیاں بن گئی ہیں۔ راولپنڈی کے کمشنر نے دریائے سواں کے کناروں پر واقع اراضی کا رائٹ آف وے کا تعین کرنے کے لئے چیف انجینئر اریگیشن کو مراسلہ تحریر کیا ہے تاکہ نشاندہی کی صورت میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کو ختم کیا جا سکے۔ دریائے سواں میں مختلف علاقوں سے آنے والے ندی نالے آکر ملتے ہیں، نالہ کورنگ ضلع راولپنڈی کے پہاڑی علاقوں سے بہتا ہوا ایک ہائوسنگ سوسائٹی سے گزر کر دریائے سواں میں ملتا ہے، نالہ لنگ تحصیل کہوٹہ سے چلتا ہوا کاک پل کے قریب آکر دریائے سواں میں گرتا ہے۔ راولپنڈی سے آنے والا نالہ لئی ہائی کورٹ کے قریب دریائے سواں میں آ کر ملتا ہے۔ پنجاب کا سب سے بڑا موضع تخت پڑی مورگاہ سے شروع ہو کر دریائے سواں سے گزرتا ہوا روات پر آکر ختم ہوتا ہے۔ یہ موضع ہزاروں ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے جو انگریز دور سے محکمہ جنگلات کی ملکیت چلا آرہا تھا۔ یار لوگوں نے مسلم لیگ نون یا مسلم لیگ ق کی حکومت میں مبینہ ملی بھگت کرکے جنگلات کی ہزاروں ایکڑ اراضی کو اپنی ہائوسنگ سوسائٹی میں شامل کرا لیا۔ پنجاب حکومت نے شکایت ملنے پر یہ معاملہ اینٹی کرپشن کے حوالے کر دیا جو کئی سال تک التوا میں پڑا رہا۔ عمران خان کے دور میں اسلام آباد کے آئی جی حسین اصغر ملازمت پوری کرنے کے بعد سبکدوش ہوئے تو انہیں انٹی کرپشن پنجاب کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا جنہوں نے چارج سنبھالتے ہی زیر التوا مقدمات کی تفتیش شروع کرنے کے احکامات جاری کئے جس کے بعد انٹی کرپشن نے اس وقت کے راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر جو سندھ کے ایک بااثر خاندان کے چشم و چراغ ہیں تحصیل دار اور پٹواریوں کے خلاف مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ ملزمان نے عدالتوں سے ضمانت کرا لی جس کے بعد سوسائٹی کے بااثر مالک نے یہ مقدمہ انٹی کرپشن سے نیب میں ٹرانسفر کرا لیا۔ کئی سال گزرنے کے بعد یہ مقدمہ جوں کا توں پڑا ہے۔ دریائے سواں کے قریب لوئی بھیر رکھ کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیاں بن چکی ہیں۔ دریائے سواں جو کبھی واقعی دریا تھا اب نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ دریائے سواں کے کنارے غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے علاوہ تجاوزات کی بھرمار ہے۔ محکمہ جنگلات کی ہزاروں ایکڑ اراضی پر ہائوسنگ سوسائٹی کے کئی فیز بن چکے ہیں۔ اربوں کی محکمہ مال کی یہ اراضی اب اربوں کھربوں میں فروخت ہو چکی ہے۔ اس دوران صوبے کے کئی وزیراعلیٰ آئے اور چلے گئے، لینڈ مافیا اتنا بااثر اور طاقتور ہے کہ کسی وزیراعلیٰ کی کیا مجال جو سرکاری اراضی کو سوسائٹی سے واپس لے سکے۔ لینڈ مافیا کے بااثر ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ کئی برس گزرنے کے باوجود دریائے سواں کے کناروں پر واقع اراضی کے رائٹ آف وے کا تعین نہیں ہونے دیتے۔ جنگلات کی اس اراضی پر ہزاروں گھر اور بے شمار بڑے بڑے شاپنگ مال تعمیر ہو چکے ہیں۔ جنگلات کی اراضی کی واقع حدود روات تک گھر اور شاپنگ مال تعمیر ہو چکے ہیں۔ آر ڈی اے نے غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا ہے۔ سوال یہ ہے اتنے سال گزرنے کے بعد آر ڈی اے کے حکام کو ان غیر قانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں بارے اب علم ہوا ہے۔ فائلوں کا پیٹ بھرنے کے لئے نمائشی طور پر غیرقانونی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے خلاف آپریشن شروع کیا جاتا ہے اس کے برعکس لینڈ مافیا اتنا بااثر ہے ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ کئی ہائوسنگ سوسائٹیوں نے محکمہ مال کی مبینہ ملی بھگت سے سرکاری اراضی کو ہائوسنگ سوسائٹیوں میں شامل کرا لیا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ لینڈ مافیا کے خلاف مقدمات نہیں بنتے، بن بھی جائیں تو مقدمات کی فائلیں سرد خانوں میں پڑی رہتی ہیں جیسا کہ جنگلات کی اراضی پر لینڈ مافیا کے قابض ہوئے کئی سال گزرنے کے باوجود مقدمہ کی فائل بغیر کارروائی پڑی ہے۔ چلیں کسی نے فائل بارے پوچھ لیا تو کہہ دیں گے مقدمات کے رش کی بنا فائل زیر التوا ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف اور پرویز الٰہی برسوں وزیراعلی رہے ہیں، جنگلات کی اراضی پر قبضہ انہی کے دور میں ہوا۔ یہ انہی کے دور کی یادگاریں ہیں جب قبضہ مافیا نے سواں کے دونوں اطراف تعمیرات کر لی ہیں۔ راولپنڈی میں تعینات ہونے والے کمشنر لیاقت علی چٹھہ نے شہر میں تجاوزات کی بھرمار ختم کرنے کے لئے تاجر برادری کے تعاون سے تجاوزات کے خاتمے کی کوشش کی جس میں انہیں کافی حد تک کامیابی ہو چکی ہے۔ شہر سے ذرا پرے کمرشل مارکیٹ سیٹلائٹ ٹائون میں تجاوزات کی جو بھرمار ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ بلدیاتی اداروں کی مبینہ ملی بھگت سی شہر کے اس پر رونق علاقے میں دکانداروں نے دکانوں کے باہر ٹھیلے لگوا رکھے ہیں، کمشنر نے ٹھیلوں کی صورت میں دکانداروں کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ لینڈ مافیا نے دیہی علاقوں کی زرعی اراضی پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کو فروغ دینا شروع کیا ہے۔ جس رفتار سے زرعی اراضی پر نجی ہائوسنگ سوسائٹیوں کے قیام کا سلسلہ جاری ہے، کوئی وقت آئے گا زرعی اراضی ناپید ہو جائے گی۔ اعلیٰ عدلیہ کو جنگلات کی اراضی پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کے قیام کا فوری نوٹس لینا چاہیے تاکہ سرکار کی اراضی کو قبضہ مافیا کے چنگل سے نکالا جا سکے۔ پنجاب حکومت کو سرکاری اراضی پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کے قیام بارے قانون سازی کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ لینڈ مافیا کو مثالی سزائیں دی جاسکیں ورنہ دوسری صورت میں سرکاری اراضی پر قبضہ مافیا کی سرگرمیوں میں روز بروز تیزی آتی جائے گی اور سرکاری اراضی ناپید ہوتی جائے گی لہٰذا اس صورتحال سے بچنے کے لئے حکومت کو جلد از جلد اقدامات کرنے ہوں گے۔ جب تک لینڈ مافیا کے لوگوں کو مثالی سزائیں دینے کا قانون نہیں بنایا جاتا قبضہ گروپ کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button