ColumnKashif Bashir Khan

اب نہیں تو پھر کب؟؟؟؟ ۔۔ ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

جو کچھ پچھلے ایک سال میں ریاست پاکستان میں جمہوریت، عوام اور پارلیمنٹ کے ساتھ ہوا یا کیا گیا، اس کی مثال دنیا کے کسی بھی جمہوری نظام میں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ عمران خان کی حکومت جو بہت کم اکثریت سے برسر اقتدار تھی کو کراچی اور بلوچستان کی دو سیاسی پارٹیاں جو بہت کم ارکان پر مشتمل تھیں کو پہلے بزور طاقت عمران خان کی اتحادی حکومت سے الگ کرایا گیا بلکہ اس سے قبل تحریک انصاف کے تقریباً دو درجن ارکان قومی اسمبلی کو سندھ ہائوس اور دوسری جگہوں پر خریدوفروخت کے لئے جانوروں کی طرح رکھا گیا اور ان سے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف بیانات دلا کر گویا عمران خان کو باور کرایا گیا کہ ان کے پاس اب اکثریت نہیں ہے۔ ماضی میں زمانہ طالب علمی میں راقم نے ارکان پنجاب اسمبلی کو چھانگا مانگا اور سوات وغیرہ میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عوض سرکاری خزانے سے کروڑوں روپے لیتے اور پھر ان کو عیاشی کے لئے دیگر لوازمات مہیا کرنے کے موجد نواز شریف کی حمایت کرتے دیکھا۔ یہ سب شریف خاندان کا ہمیشہ سے وتیرہ رہا اور ان کے ان سب ایسے معاملات کو پہلے میاں شریف اور پھر شہباز شریف وغیرہ دیکھا کرتے تھے۔ پاکستان کی سیاست میں کاروباری شخصیات کو متعارف کرانے والا ضیاء الحق تھا جس نے ریاست پاکستان کی مقبول عام قیادت کو ہٹا کر ملک میں مارشل لا نافذ کیا اور پھر سیاسی بدترین انتقام، کرپشن اور جبر کے جس دور کی اس نے پاکستان میں بنیاد رکھی تھی وہ آج بھی اس کی لگائے ہوئے پودوں کے ذریعے زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ پاکستان میں اسی اور نوے کی دہائی میں جو کچھ جمہوریت کے نام پر ہوا وہ آج بھی دنیا بھر میں پاکستان کی ریاست پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ بات ہورہی تھی عمران خان کی حکومت کو گھر بھیجنے کی۔ عمران خان کی حکومت کو پونے چار سال کے بعد ختم کرنا پاکستان میں لنگڑی لولی جمہوریت و عوام کی منتخب حکومتوں کو پنپنے نہ دینے کا ہی تسلسل تھا۔ یہ سلسلہ پرانا نہیں ہے اور اس کا مقصد سیاسی جماعتوں کی عوام میں رسوائی اور ان کے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنے دینا ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ پاکستان کی سیاست کا چلن ہمیشہ یہ رہا ہے کہ حکومتیں اپنی ترقیاتی سکیموں کو کچھ اس طرح ترتیب دیتی ہیں کہ ان کے اقتدار کے آخری سال میں ان کی تکمیل مکمل ہو تاکہ وہ عوام کو اگلے انتخابات میں ان ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے مائل کر سکیں لیکن2022ء میں عمران خان کی حکومت گھر بھیجنے کی وجوہات مختلف تھیں۔2018ء میں ریزرو سیٹیں ملاکر85سیٹوں والی ن لیگ تحریک انصاف کی149سیٹوں سے تقریباً آدھے ممبران کے ساتھ قومی اسمبلی میں تھی لیکن دنیا بھر کے لئے حیران کن امر تھا کہ جس روز شہباز شریف اور ان کے بیٹوں پر ناقابل تردید منی لانڈرنگ کیس پر فرد جرم عائد ہونا تھی ٹھیک اس دن انہیں مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا اور بعد میں تقریباً24ارب کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کیس ختم کر دیئے گئے۔ پاکستان میں جو چلن اسی کی دہائی سے رائج ہے کہ تین سے چار سال بعد چلتی ہوئی حکومت کو گھر بھیج دیا جائے اس نے نہ صرف ریاست اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے بلکہ عوام کے مینڈیٹ کی توہین کی ہے۔ آج ایک سال کی حکومت کے بعد اسی سیٹوں والے وزیراعظم کی جو حالت ہے اور اس کی جماعت اور حکومت کے لئے جو نفرت عوام میں پائی جارہی ہے، وہ اس حقیقت کی غماز ہے کہ ایک سال قبل149اراکین قومی اسمبلی پر مشتمل جو حکومت رجیم چینج کے تحت گھر بھیجی گئی تھی اسے حکومت نے قبول نہیں کیا اور لائی گئی ایسی حکومت ( جو اقلیتی ہونے کے ساتھ کرپٹ تھی اور اس کے ساٹھ فیصد سے زائد کابینہ ارکان مختلف عدالتوں میں کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے تھے) جو آج پاکستان کو معاشی تباہ حال کر چکی ہے کو عوام نے بری طرح نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ ہر آنے والے دنوں میں عوام کی ان کے خلاف نفرت بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ صورتحال کسی طوفان کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی غالباً دنیا میں واحد اسمبلی ہے جس کے آدھے سے زیادہ ارکان اسمبلی سے باہر ہو چکے ہیں اور پہلے حکومت ان کے استعفیٰ منظور نہیں کر رہی تھی اور جب اعلی عدالتوں کے حکم پر ان اراکین اسمبلی جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے نے قومی اسمبلی میں واپس آنے کا فیصلہ کیا اور ہائی کورٹ کے احکامات بھی آ گئے تو اتحادی اقلیتی حکومت کے وہ سپیکر جو نیب ترامیم کے بارے اپنی کرپشن کے کیس ختم کرا چکے ہیں نے ان اراکین کو اسمبلی میں واپس نہیں آنے دیا۔ جس قومی اسمبلی کے حالات یہ ہوں اس کی قانون سازی کو دیکھیں تو اپنے مفادات کے لئے اب انہوں نے سپریم کورٹ کے احکامات کو نہ صرف جوتے کی نوک پر رکھا بلکہ ایسے بل بھی مٹھی بھر اراکین سے منظور کرا کر نہ صرف آئین پاکستان کی وہ دفعات جو آئینی ترمیم سے ختم یا تبدیل کی جاسکتی ہیں کو ترمیم کرنے کا ڈرامہ کیا جا رہا ہے بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے کے لئے بھی قانونی بل کے نام پر ایسی دستاویز لائی گئی جسے سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے نافذ ہونے سے قبل ہی معطل کر دیا ہے۔ سزا یافتہ نواز شریف کو معافی دلانے اور آئین پاکستان کے تحت خیبر پختونخوا، پنجاب کے اسمبلیوں کے انتخابات روکنے کے لئے جس قسم کا تماشہ ادھوری اسمبلی سے ہرروز قراردادوں کی شکل میں جاری کر کے یہ وفاقی حکومت کر رہی ہے اس سے نہ صرف عوام بلکہ پاکستان بھر کے وکلا نے بھرپور احتجاج کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے لاہور میں سینئر پچاس وکلا جن کی قیادت خواجہ احمد طارق رحیم ، اعتزاز احسن اور سردار لطیف کھوسہ کر رہے تھے نے رائونڈ ٹیبل کانفرنس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا عہد کرتے ہوئے ملک بھر کے وکلا کو باہر نکلنے کی کال دے دی ہے۔ آج پاکستان میں جو وفاق میں اقتدار پر قابض ہیں وہ بزور حکومتی طاقت نہ صرف آئین پاکستان کو روندتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اعلی عدلیہ کے ساتھ جو محاذ آرائی کی جا رہی ہے وہ صرف اپنے اقتدار کو غیر آئینی اور غیر قانونی طوالت دینے کے لئے کیا جارہا ہے۔ پچھلے انتخابات میں خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق وغیرہ اپنی تمام صوبائی اور قومی سیٹوں سے ہار چکے تھے اور انتخابات کے دوسرے دن ان تمام کو خفیہ ہاتھوں نے کامیاب کرایا تھا۔ میدان سیاست میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت مولانا فضل الرحمان کی جماعتوں کا عبرتناک انجام دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے اور اس فسطائی حکومت کے تمام تر غیر آئینی ہتھکنڈوں کے خلاف جو موقف موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنایا ہے اس نے آج پھر سے پاکستان میں جسٹس کیانی، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس کارنیلیس اور جسٹس بھگوان داس کی روایات کو تازہ کر دیا ہے۔ جس طریقے سے کراچی میں علی زیدی کو گرفتار کیا گیا اور علی امین گنڈا پور کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس سے دنیا بھر میں وفاقی حکومت کو فاشسٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جس حکومت کا سربراہ سابق سزا یافتہ وزیر اعظم کا پچاس روپے کے اشٹام پر ضامن ہو کہ وہ چند ہفتوں میں لندن سے علاج کے بعد واپس آ جائے گا اور وہ سالوں بعد بھی دنیا میں ہر جگہ جا رہا ہو لیکن پاکستان کی عدالتوں کا مذاق اڑاتے ہوئے واپس نہ آ رہا ہو بلکہ اس کا ضامن بھائی وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھایا جا چکا ہو وہاں کیسے انسانی حقوق اور کیسا نظام عدل۔ عوام کو اب اس فاشسٹ حکومت اور اس کے سب وزیروں مشیروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا جو سپریم کورٹ کے ججوں کے خلاف زبانیں نکالے نظر آ رہے ہیں۔ عوام کو اب اپنے حقوق کے لئے اٹھ کھڑا ہونا ہو گا ورنہ ’’ اب نہیں تو پھر کبھی نہیں‘‘ والی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button