ColumnJabaar Ch

کورٹ مارشل۔۔۔؟ .. جبار چودھری

جبار چودھری

 

اتوار کے روز زمان پارک لاہور میں بہت ہلچل رہی اسلام آباد پولیس عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کروانے آئی تو پی ٹی آئی نے کارکنوں کو وہاں جمع کرلیا ۔پھر وہی دھینگا مشتی اور عمران خان کو گرفتاری سے بچانے کے دعوے۔ اسلام آباد پولیس کاکہنا تھاکہ ان کے ایس پی عمران خان کے کمرے میں گئے تھے لیکن عمران خان وہاں سے چلے گئے تھے۔پولیس ان کو توشہ خانہ کیس میں عدالتی حکم پرگرفتارکرکے عدالت میں پیش کرنا چاہتی ہے تاکہ ان پر فرد جرم عائد ہو اور کیس کا ٹرائل شروع ہوجائے۔یہ وہ کیس ہے جس میں عمران خان نااہل ہوسکتے ہیں۔اس انتہائی اہم وقت میں بھی عمران خان جنرل باجوہ کو نہیں بھولے۔ وہ کہہ رہے ہیں جنرل باجوہ، شہبازشریف کو فرد جرم لگنے سے بچاتے رہے ہیں ۔ وہ اب جنرل باجوہ کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کیے بیٹھے ہیں۔
احتساب سے انصاف تک پاکستان آرمی کے اپنے قوانین ہیں اور اپنا الگ نظام۔ان کے جج بھی اپنے ہیں اورعدالتیں بھی اپنی ۔ وکیل بھی اپنے ہیں اور ملزم بھی اپنے۔یہ نظام کن بنیادوں پر قائم ہوا اور آج تک چل رہا ہے اس کی سویلینز کو بھنک تک نہیں ہے۔اس نظام کی خوبی یا خامی یہ ہے کہ اس پر آرمی کے اندرکسی کو اعتراض نہیں۔فوج کے اندرقائم عدالتوں کے فیصلوں کو سب ہی سروس مین قبول کرتے ہیں۔ایسا بھی نہیں ہے کہ مارشل کورٹس میں کسی کیس کی بجائے فیس (چہرہ) کودیکھا جاتا ہو۔یا سزائیں صرف جوانوں کوہی دی جاتی ہوں یااعلیٰ افسر اثر رسوخ لڑاکر بچ نکلتے ہوں۔ ہم نے جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی خبریں بھی سن رکھی ہیں۔کورٹ مارشل کس کا کرنا ہے یہ فیصلہ بھی آرمی ہی کرتی ہے۔ کونسا قصورافسر یا جوان کوکورٹ مارشل تک لے جاتا ہے یہ فیصلہ بھی وہیں ہوتاہے۔سول حکومت کا نہ وہاں دائرہ کار ہے اور نہ ہی انکے فیصلے وہاں چلتے ہیں۔ سول حکومت ضرورت کے وقت آرمی کا نظام انصاف ادھار ضرورلے سکتی ہے کہ کسی خاص قسم کے انصاف یا سزاؤں کے لیے فوجی عدالتیں قائم کردی جائیں۔ یہ عدالتیں کئی بار قائم کی جاچکی ہیں۔
فوجی عدالتوں کی ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ ملزم عدالت میں آنے سے پہلے ہی کافی حد تک مجرم ثابت ہوچکا ہوتا ہے۔ان عدالتوں میں تاریخیں دینے کا رواج بھی بہت کم ہے۔ہمارے ہاں تو تاریخوں اور پیشیوں میں کیس اور انصاف تلاش کرنا پڑتا ہے وہ بھی نصیب والوں کو ہی مل پاتا ہے۔ابھی کل کی ہی بات ہے کہ جج صاحب نے اس بنیاد پر تاریخ ڈال دی کہ وکیل نے ڈھیلا سا منہ بناکر کہا کہ مائی لارڈ وہ میرا کلائنٹ سے رابطہ نہیں ہوا ۔یہ کیس خود اسی کلائنٹ نے کیا ہوا ہے۔ یہ کیس عمران خان صاحب نے خواجہ آصف کے خلاف ہتک عزت کے لیے دائر کررکھا ہے۔خواجہ آصف نے ایک پریس کانفرنس میں شوکت خانم ہسپتال کے پیسوں کو آف شورکمپنی میں انویسٹ کرنے کی بات کی تھی ۔ عمران خان نے ہتک عزت کا کیس کردیا۔یہ کیس گیارہ سال ۔۔جی سب میرے ساتھ دوبارہ پڑھیں کہ گیارہ سال سے ہماری معزز عدالتوں میں انصاف کے لیے مارامارا ،گریباں چاک کیے پھررہا ہے۔عمران خان نے اس بات کا اعتراف بھی کرلیا ہے کہ خواجہ آصف نے جوبات کی تھی ایسا ہی ہوا تھا انہوںنے پیسے انویسٹ کیے تھے لیکن وہ واپس مل گئے تھے۔کل ایک ماہ کی طویل تاریخ کے بعد اس کیس کی سنوائی تھی ۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ جج صاحب جیل بھروتحریک کی وجہ سے میرا عمران خان سے رابطہ نہیں ہوااس لیے تاریخ ڈال دی جائے۔مطلب کچھ بھی؟اور جج صاحب تاریخ دیدی۔کاش پوچھ ہی لیتے کہ جیل بھروتحریک کا بہانہ بنارہے ہو جیل بھروتو ختم بھی ہوچکی اور شروع بھی ایک ہفتہ پہلے ہی ہوئی تھی یہ کیس تو ایک مہینے کے بعد فکس ہوا ہے؟ لیکن نہیں کوئی بات نہیں انصاف ہوتا رہے گا پہلے جواز دیکھ لیتے ہیں۔ اب ایسی سہولت فوجی عدالتوں میں نہیں ملتی اس لیے وہاں انصاف بھی جلدی مل جاتا ہے ۔فوجی عدالتوں کے حق اورمخالفت میں دلائل موجود ہیں لیکن وہ اس وقت میراموضوع نہیں ہے۔
آج تک کسی کا کورٹ مارشل کسی سویلین کی خواہش یا مطالبے پر نہیں ہوا لیکن عمران خان چاہتے ہیں کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمرجاوید باجوہ کا کورٹ مارشل کردیا جائے۔ٹھیک ہے ان کی خواہش ہے وہ کھیلنے کوچاند بھی مانگ سکتے ہیں اور ان کے چاہنے والے ان کو یہ چاندزمین پر اتارنے کا وعدہ بھی کرسکتے ہیں لیکن سابق آرمی چیف کے کورٹ مارشل کا مطالبہ سن کرمیں ایک پورا دن ہنستا ہی رہا ہوں کہ خان صاحب مطلب کچھ بھی؟خان صاحب آپ اور جنرل باجوہ کے کورٹ مارشل کا مطالبہ ؟چلیں خان صاحب کے اس مطالبے اور باجوہ صاحب کے ’’جرائم‘‘ کا جائزہ لے لیتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ کورٹ مارشل باجوہ صاحب کا بنتا ہے یا خود عمران خان صاحب کا؟
دوہزار سولہ سترہ میں جس طرح نون لیگ کی پرفارم کرتی حکومت کو ہٹایا ۔ الیکشن سے قبل نون لیگ کی محکمہ زراعت کے ذریعے کھدائی ۔ بلوچستان میں نون لیگ کی حکومت گراکر باپ کو کھڑاکیا گیا۔ دوہزار اٹھارہ کے الیکشن میں آرٹی ایس بٹھاکر جس طرح عمران خان صاحب کی حکومت بنائی گئی ۔ خان صاحب کے سلیکٹڈ ہونے کا الزام ایک استعارہ بن گیا۔ یہ سب کچھ کرنے کا الزام توجنرل باجوہ صاحب پر ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے اپنے خان صاحب خود تھے تو کپتان جی یہاں کس کا کورٹ مارشل بنتا ہے۔
آپ وزیر اعظم کی کرسی پربیٹھے تو آپ کو مشورہ دیا گیا کہ آئی ایم ایف کے پاس چلے جائیں لیکن آپ کوخود کشی والا بیان یاد آگیا ۔آپ نے اپنے لانے والوں سے فرمائش کردی کہ آپ لائے ہیں اب قرضوں کا بندوبست بھی کریں۔ پہلے ہی مہینے جنرل باجوہ صاحب سعودی عرب گئے۔ متحدہ عرب امارات کا سفر کیاپھر چین کی طرف نکلے ۔دوسرے مرحلے میں آپ کو ساتھ ان تمام ممالک میں لے کر گئے ۔تینوں ممالک سے آپ کو قرضہ دلایا آپ کو گھڑی بھی اسی دورے میں دی گئی جس کو بیچ کر آپ نے سعودی عرب سے تعلقات کا جنازہ نکال دیا ۔وہ قرضے سارے جنرل باجو ہ کی کوششوں سے ملے تھے۔کیا قرضوں کے لیے دوسرے ممالک جانا آرمی چیف کے فرائض میں شامل تھا یا آپ کی محبت میں سب ہورہا تھاتو پھرکپتان جی یہاں کس کا کورٹ مارشل بنتاہے۔
باجوہ صاحب عجیب جرنیل تھے کہ آج آپ کو اتنی نفرت ہوگئی کہ ان کا کورٹ مارشل چاہتے ہیں اور ایک وقت تھا جب جنر ل باجوہ صاحب کی مدت ملازمت پوری ہورہی تھی لیکن آپ ہر حال میں جنرل باجوہ کو ہی آرمی چیف دیکھنا چاہتے تھے اور آپ نے ان کو توسیع دے ڈالی۔یہاں تک کہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں بھی آپ جنرل باجوہ کو ایک اورتوسیع دینا چاہتے تھےبلکہ عدم اعتماد روکنے کے بدلے انہیں تاحیات آرمی چیف بنانے پر بھی راضی تھے ۔آپ کی ایک ہی خواہش تھی کہ آپ کی حکومت بچالی جائے اس کے بدلے چاہے پورا پاکستان کسی کو دینا پڑے۔یہ آپ ہی تو تھے جو کہتے تھے کہ جنرل باجوہ سے زیادہ کوئی جمہوری جرنیل پاک فوج میں آیا ہی نہیں ۔جب ایک صفحہ کی آڑ میں آپ اس ملک میں قانون کی دھجیاں اڑارہے تھے اپوزیشن کو نیب کے عقوبت خانوں میں دھکیل رہے تھے اور منہ پر ہاتھ پھیر کران کو سبق سیکھانے کے اعلان کررہے تھے تو کپتان جی یہاں کس کا کورٹ مارشل بنتا ہے۔
اگر آپ نے کورٹ مارشل کا مطالبہ کرنا ہی تھا تو کم ازکم اپنا ماضی ہی درست رکھ لیتے۔آپ کے اس مطالبے سے تو یہی لگتا ہے کہ جو آپ کے ساتھ ہو اور جب تک ہو اس وقت تک وہ ٹھیک ،آپ کا دوست، لیکن جونہی کسی بات سے اختلاف کرلے وہ آپ کادشمن ؟ وہ چاہے اکبرایس بابر ہو۔ فوزیہ قصوری ہو جسٹس وجیہہ الدین ہو۔علیم خان ہو، جہانگیرترین ہو یا پھر جنر ل باجوہ ہو؟کپتان جی کچھ تو خیال کریں اس قوم کا حافظہ کمزور ہے لیکن اتنا نہیں کہ سب ایک سال پہلے کی باتیں بھول کر آپ کے ساتھ نعرے ماریں کہ کورٹ مارشل ۔کورٹ مارشل۔اسی خواہش پر طنزیہ میمز بھی بن رہی ہیں کہ ۔۔
پرانے آرمی چیف کا کورٹ مارشل، نئے سے ملاقات چاہتا ہوں
میری دونمبری دیکھ میں کیا چاہتا ہوں۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button