ColumnRoshan Lal

معاشی مسائل اور ناعاقبت اندیشی .. روشن لعل

روشن لعل

 

یہ بات کوئی راز نہیں کہ شدید معاشی مسائل میں گھرے ہوئے ہمارے ملک کو بیرونی دنیا میں ویوالیہ ہونے کے قریب سمجھا جارہا ہے۔ معاشی مسائل میں گھرے ملکوں کا دیوالیہ ہونا کسی طرح بھی انوکھی بات نہیں ۔دنیا میں اب تک جتنے ملک بھی دیوالیہ ہو ئے ان میں زیادہ تر ایسے تھے جن کے معاشی مسائل ، مناسب وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ اس وقت پاکستان کے معاشی مسائل کی بڑی وجہ مناسب وسائل کی عدم موجود گی نہیں بلکہ یہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی اپنے مناسب وسائل کو مناسب طریقوں سے استعمال ہی نہیں کیا اور ہمیں معاشی مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے جو بھی مواقع میسر آئے انہیں ہم ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ضائع کرتے رہے۔ جنگ کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے والے ملک دہائیوں تک بحرانوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ پاکستان 1971 کی جنگ میں دو ٹکڑے ہونے کے بعد بھی اگر کسی بڑے بحران کا شکار نہیں ہوا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ آبادی اور دستیاب وسائل میں عدم توازن زیادہ نہیں تھا۔1971 کی جنگ میں شکست کے باوجود جب بہتر پالیسیوں اور وسائل کے مناسب استعمال کی وجہ سے ہماری معیشت مستحکم ہو رہی تھی، اس وقت لوگوں کو خاص قسم کے مذہبی جنون میں مبتلا کر کے ،ان پر وہ افغان جہاد فرض کر دیا گیا جسے اب کسی شک و شبہ کے بغیر امریکی مفاد کے لیے لڑی جانے والی جنگ کہا جاتا ہے۔
جہاں تک ہمارے ملک کا امریکی مفاد ات کے لیے استعمال کیے جانے کا تعلق ہے تو یہ بات اب ایک عیاں حقیقت ہے کہ قیام کے فوراً بعد پاکستان کو امریکہ کا معمول اوراس کی امداد پر منحصر ملک بنا دیا گیا تھا ۔ جب پاکستانی حکمرانوں نے محض اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے ملک کو امریکہ مفادات کی بھینٹ چڑھانا شروع کیا اس وقت بھارت اپنے بہتر معاشی مستقبل کے لیے سوویت یونین کے تعاون سے صنعتی ترقی کی راہیں استوار کر رہا تھا۔1951 کے بعد خاص طور پر ہر آمر کے دور میں امریکہ نے پاکستان کو کئی بلین ڈالر کی امداد دی مگر یہ امداد نہ تو کبھی پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنے کے لیے دی گئی اور نہ ہی ہمارے حکمرانوں نے اس امداد کو ملک کے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد سے گزشتہ صدی کے آخر تک امریکہ مختلف وقفوں کے دوران پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے لاتعلقی اختیار کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا۔ اس دوران ہمارے آمر حکمران کسی ٹھیکیدار کی طرح ایک امریکی ٹھیکہ ختم ہونے کے بعد دوسرا ٹھیکہ ملنے کا انتظار کرتے نظر آتے رہے۔
1991میں سوویت یونین اور سرد جنگ کے خاتمہ کے بعدامریکہ نے تو ہمیں استعمال شدہ ٹشو پیپر سمجھ کر مکمل بے اعتنائی اختیار کر لی مگر ہم اس کے دیئے ہوئے افغان جہاد یا جنگ کے تحفے کو سینے سے لگائے بیٹھے رہے،جس فصل کو افغانستان میں پاکستان کے ذریعے بونے کے بعد امریکہ نے بے اعتناعی اختیار کر لی تھی اس فصل کے پھل نے پھر امریکہ میں نائن الیون کی دہشت گردی برپا کی۔ نائن الیون کے واقعہ نے امریکہ کو یہ احساس دلایا کہ افغان جہاد کے نام پر اس نے جو مجاہد تیار کیے تھے وہ اصل میں دنیا کی تہذیب اور امن تباہ کرنے کے عزائم رکھنے والے دہشت گرد ہیں۔ ان دہشت گردوں کے خلاف نہ صرف امریکہ نے کھلی جنگ کا اعلان کیا بلکہ پاکستان کے حکمرانوں کو بھی اپنا فرنٹ لائن اتحادی بننے پر مجبور کیا ۔ اس طویل جنگ کے دوران دو اہم تبدیلیاں رونماہوئیں، ایک طرف تو دہشت گردوں کی کارروائیوں کے بعد پاکستانی عوام کے ایک بڑے حصے پران کی سفاکی، جہالت اور قدامت پرستی آشکار ہوئی اور دوسری طرف انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کسی اور کی نہیں بلکہ ان کی اپنی جنگ ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مریکہ کو بھی یہ احساس ہوا کہ جب تک پاکستان کا سماجی ڈھانچہ تبدیل ہونے کے ساتھ اس کے اقتصادی حالات بہتر نہیں ہوںگے اس وقت تک یہاں موجود دہشت گردوں کی نرسریاں ختم نہیںہو سکیں گی۔اپنے اس احساس کی وجہ سے امریکہ پاکستان کے معاشی مسائل کے حل کے لیے خاص کردار ادا کرنے پر آمادہ ہوا ۔پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ میں امریکہ نے پہلی مرتبہ یہ پالیسی بنائی کہ نہ صرف پاکستان کے پسماندہ اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں ری کنسٹرکشن اپرچونٹی زونز بنا کر ان میں صنعتیں لگائی جائیں گی بلکہ ان صنعتوں میں تیار شدہ مال پرکسٹم ڈیوٹی کی مد میںخاص رعایتیں دے کر امریکہ اس کا خریدار بھی بنے گا۔
امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو صف اول کا اتحاد ی قرار دینے کے بعد یہاںری کنسٹرکشن اپرچونٹی زونز بنانے کی جو پیشکش کی وہ پاکستان جیسی معیشت کے حامل دنیا کے کسی دوسرے ملک کے لیے نہیں تھی۔پاکستان کو اس کے مختلف علاقوں میں ری کنسٹرکشن اپرچونٹی زونز بنانے کی پیشکش کرنے سے قبل امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا گیا تھا جس کی حمایت نہ صرف ریپبلکن بلکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے منتخب نمائندوں نے بھی کی تھی ۔اس حوالے سے امریکی پالیسی سازوں نے یہ طے کیا تھا کہ صنعتی زون خیبر پختونخوا، اس وقت کے فاٹا ، بلوچستان اور افغان بارڈر کے سو میل دائرہ کے اندر دہشت گردی کے خلاف جنگ اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں میں قائم کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ پنجاب سے ڈیرہ غاری خان ، جھنگ اور مظفر گڑھ، صوبہ سندھ سے بدین ، جیکب آباد ، خیر پور ، سانگھڑ ، تھرپارکر اور ٹھٹھہ، خیبر پختونخوا سے بونیر ، ڈیرہ اسماعیل خان ، ہنگو ، لوئر و اپر دیر اور سوات جبکہ بلوچستان سے کوئٹہ، گوادر ، قلات خاران اور سبی کے اضلاع کو پاکستان کے پسماندہ علاقے تصور کرتے ہوئے یہاں بھی صنعتی زون قائم کرنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ امریکہ میں ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ لوگوں کی طرف سے کانگریس میں پیش کیے گئے مذکورہ بل کی شدید مخالفت کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود امریکی حکومت نے ٹیکسٹائل سے وابستہ 77 کے قریب مصنوعات کو اس کیٹیگری میں شامل کر لیا تھا جو مذکورہ صنعتی زونز میں تیار ہوکر امریکی منڈیوں تک جانا تھیں۔
امریکہ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ہماری زبوں حال معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے جو پالیسی تیار کی اس پر اس وجہ سے عمل نہ ہوسکا کیونکہ ہمارے ملک سے اسامہ بن لادن کی برآمدگی کے بعد امریکہ میں یہ تصور قائم ہوا کہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے اور کئی بلین ڈالر امریکی امداد لینے کے باوجود بھی ہم دہشت گردوں کے خاتمہ لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔ جو کچھ سامنے آچکا ہے اس کے بعد اس بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ ہمارے متعلق امریکہ میں قائم ہونیوالا تصور کس حد تک غلط یا درست ہے۔ کچھ اور کہنے کی گنجائش ہو یا نہ ہو مگر یہ کہے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ اس وقت ہم جن معاشی مسائل کا شکار ہیں اس کے لیے سب سے زیادہ قصور ہمارے اپنے ناعاقبت اندیش رویوں کا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button