ColumnImtiaz Ahmad Shad

زراعت کی بربادی کا اصل ذمہ دار کون ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

زراعت کی بربادی کا اصل ذمہ دار کون

معاش سے لے کر اخلاق تک ،ہم ہر لحاظ سے بربادی کا شکار ہیں۔خوراک ،لباس ،تعلیم اور صحت کون کون سا رونا رویا جائے۔کس کس مشکل کی بات کریں؟ پانی کی کمی سے لے کر گلیشیر پگھلنے تک، سمندروں اور موسم کے اتار چڑھائوسے لے کر سیاسی خلفشار تک، نہ جانے کون کون سے دلائل دیے گئے ہیں لیکن اس ساری بحث میں ایک چیز کے بارے میں بات نہیں کی گئی جو اس سارے معاملے کی اصل جڑ ہے، یعنی کہ وہ لوگ جو زراعت کی ترقی کیلئے مامور تھے، ان کا زراعت کی ترقی میں کیا کردار رہا ہے۔محکمہ زراعت کے زیادہ تر افسران و ملازمین اتنے ذمہ دار ہیں کہ صبح اپنی ڈیوٹی پر جاتے ہیں، وہاں پر چائے پیتے ، اخبار پڑھتے ہیں، باقی سب کام کرتے ہیں، لیکن جو کام ان کے کرنے کا ہے وہ نہیں کرتے۔ ہماری زراعت کا تعلق دو ایسے اداروں کی کارکردگی پر ہے جنہوں نے پاکستان کی زراعت کو آج اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ ان میں سے ایک ادارہ نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل اور دوسرا ادارہ ایگریکلچر ایکس ٹینشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ جناب آپ نے گذشتہ سالوں میں کیا کام کیا ہے؟ ذرا کاغذی رپورٹوں سے ہٹ کر کوئی حقیقی کام تو دکھائیں؟ تو یقیناً ان کے پاس دکھانے کو کوئی کام نہیں۔محکمہ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کوئی تحقیق نہیں کر رہا جب کہ کسان جب کبھی کوئی تجربہ کر کے بہتری تلاش کرتا ہے تو یہ اس کی تحقیق کو اپنی ملکیت بنا کر داخل دفتر کر لیتا ہے۔حقیقت میںگذشتہ سے عملی طور پر اس شعبے کا کام ٹھپ پڑا ہے، اور جو معلومات کسان تک پہنچنی چاہیے تھیں، ان کو مکمل طور پر ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ اس محکمے کے جتنے اخراجات اور جتنے مسائل سامنے آئے ہیں ان کے بارے میں اس محکمے کے سربراہ سے پوچھا جائے کہ آٹھ سال زراعت کا کام پس پشت ڈال کر آپ حکومت کے مختلف انتظامی کام کیوں بلاوجہ سر پر لیے جارہے ہیں؟ ایک پورا شعبہ جس کے پاس سینکڑوں گاڑیاں ہزاروں ملازمین ہیں ان اداروں نے جو فارمر کی مدد کیلئے ہیلپ لائن بنا رکھی ہے اگر اس پر مدد لینے کیلئے فارمر غلطی سے کال کر دیں تو ایک گھنٹے کیلئے یہ لوگ کال کرنے والے کو ہولڈ کروا دیتے ہیں۔ کیا یہ اس لیے ہے کہ دوبارہ کوئی فون کرنے کی زحمت نہ کرے یا اس لیے کہ آپ کے پاس کاشتکاروں کے مسائل حل کرنے کیلئے ماہرین ہی موجود نہیں ہیں؟
محکمہ زراعت کو کھانے والا پاکستان میں سب سے بڑا ادارہ نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل ہے جو کہ حکمرانوں کی ناک کے نیچے بیٹھ کے ملک کو لوٹنے میں اور زراعت کو برباد کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جتنی ان کے ملازمین کو تنخواہیں دی جاتی ہیں، جتنے ان کو ریسرچ فنڈ دیے جاتے ہیں، ان کا پچھلے صرف دس سال کا آڈٹ کر لیا جائے کہ دس سال میں آپ نے گورنمنٹ سے عوام کے ٹیکسوں کے اربوں روپے جو حاصل کیے، اس کے عوض قوم کو کیا دیا ہے، تو سب کھل کر سامنے آجائے۔اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک یہ سبزی کا ایک بھی ہائیبرڈ بیج نہیں دے سکے۔ پچھلے چار سالوں سے یہ پرائیویٹ اداروں سے بیج مانگتے ہیں اور ان افسران کی اپنی تنخواہیں لاکھوں روپے میں ہیں۔ ان کی گاڑیاں، ان کے پیٹرول اور ادارے کے اپنے تمام اخراجات بے شمار ہیں۔ جتنے فنڈز اس ادارے کو ملتے ہیں، اگر اس میں سے صرف پانچ فیصد بھی یہ ریسرچ پر خرچ کرنا شروع کر دیں، تو شاید ادارے کی شکل و صورت بہتر ہو جائے۔جب بھی اس ادارے کا سربراہ لگایا جاتا ہے تو یہ سوچ کر لگایا جاتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر مضبوط ہو، اس کی تعلیم کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہے۔ اس ادارے میں سینکڑوں لوگ غیر قانونی طریقے سے بھرتی کیے گئے، پھر عدالت کے حکم پر سب کو نکالا گیا۔ پھر اسی طرح سے ان کو دوبارہ بھرتی کیا گیا، پھر دوبارہ نکالا گیا، یعنی کئی دفعہ ان کو نکالا جاتا رہا ہے، کئی بار ان کو بھرتی کیا جاتا رہا ہے۔
آج کل یونیورسٹی ٹیچرز کی تشخیص کی جاتی ہے۔ بچوں کو ایک فارم دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کو پر کریں۔ ٹیچر کے کورس پڑھانے، اس کے سٹائل اور اس کی ذمہ داری سے متعلق رائے لی جاتی ہے اور ہر بچہ ٹیچر کو نمبر دیتا ہے۔ اگر ایک ٹیچر کی تشخیص ہو سکتی ہے، جو سب سے مقدس شعبہ ہے، تو ڈاکٹر کی یا کسی سائنسدان کی کیوں نہیں ہو سکتی؟ شاید محکمہ زراعت کسانوں کے بجائے کسی اور کی نمائندگی کرتا ہے، جن کا مقصد زراعت کو برباد کر کے لوگوں کو یہ ترغیب دینا ہے کہ اپنی زمینیںہاوسنگ سکیم والوں کو فروخت کر کے پر سکون زندگی بسر کریں،زراعت ایسے پسماندہ شعبے میں کیوں زندگی برباد کر رہے ہیں۔اگر ہم اسی ڈگر پر چلتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب اناج کا قحط پڑے گا اور ہم بربادی کی تمام حدیں عبور کر چکے ہوں گے۔شارجہ ایسے شہر سے ہی سب سیکھ لیا جائے جہاں انہوں نے ریت کے ٹیلوں پر کئی ایکڑ گندم پیدا کر کے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔موجودہ روایتی محکمہ زراعت کے شاہی مزاج افسران کی سر پرستی میں زراعت کی ترقی کا انتظار سوائے دیوانگی کے کچھ نہیں۔اس شعبہ کی بہتری کا جو فوری حل سمجھ میںآتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ میں بیوروکریٹس کے بجائے ٹیکنو کریٹس کو بٹھایا جائے۔ ہر شعبے کے اوپر ایک گورننگ باڈی ہو، سیکریٹری ایگریکلچر کے بعد ڈی جی ایگریکلچر ہو اور اس کے ساتھ ایک گورننگ باڈی ہو، جس میں کم از کم پندرہ سے بیس کامیاب کاشتکار ہوں، وہ کاشتکار حکومت کی رہنمائی کریں کہ زرعی پالیسی کیسے بنانی ہے۔اعلیٰ افسران یہ تو کر سکتے ہیں کہ پالیسی کو حتمی دستاویزی شکل دیں اور اس پر عملدرآمد کروائیں لیکن وہ پالیسی تب تک کامیاب نہیں ہو گی جب تک اس میں ان لوگوں کی رائے شامل نہ ہو جن سے متعلق پالیسی بنائی جارہی ہے۔ تپتی دھوپ اور ہڈیاں جما دینے والی سردی میں کاشت کاری کرنے والا زمیندار ہی بہتر طور پر یہ بتا سکتا ہے کہ ان کی ضرورت کیا ہیں، ان کے مسائل کیا ہیں اور ان مسائل کا حل کیا ہے؟ جب تک کسان کو مشاورت میں شامل نہیں کیا جاتا اس وقت تک سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ زراعت میں بہتری لائی جا سکے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان اپنے شہریوں کو اناج فراہم کرنے میں ناکام ہوا ہے حالانکہ پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا زرعی ملک ہے۔اس بربادی کی بہت سے وجوہات ہیں مگر بنیادی وجہ محکمہ زراعت کی نالائقی اور بد نیتی ہے۔ملک کی مجموعی کیفیت یقیناً ہر شعبے میں ناکامی کی وجہ سے ہے مگر بھوک ننگ اور مہنگائی کی وجہ سو فیصد زراعت میں پسماندگی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button