Columnمحمد مبشر انوار

سعودی عرب میں نئے روزگار ۔۔ محمد مبشر انوار

محمد مبشر انوار

سعودی عرب میں نئے روزگار

پاکستانی افسر شاہی کے متعلق عمومی تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے فرائض تندہی سے ادا نہیں کرتے جس کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر رہا یا تارکین وطن بالخصوص اپنے مسائل کے حل میں ہمیشہ دھتکارے جاتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد تارکین وطن کی موجود ہے جو دن رات شبانہ روز محنت سے نہ صرف اپنے خاندان کی کفالت کرتے ہیں بلکہ ملکی معیشت میں ان کی بھیجی گئی ترسیلات زر،خون بن کر دوڑ رہی ہیںاور پاکستان کسی نہ کسی حد تک اپنے مالی مسائل سے نبرد آزما ہوتا نظر آ رہا ہے۔ بہرکیف یہ اظہر من الشمس ہے کہ تارکین وطن کی اتنی بڑی تعداد کے مسائل بھی اس تناسب سے کہیں زیادہ ہیں دوسری بات مشرق وسطیٰ کے قوانین ،درآمد کی گئی، افرادی قوت کے حوالے سے بہت سخت ہیں تو تیسری وجہ پاکستانی تارکین کا اپنا رویہ بھی ہے ۔ سفارتخانے کے حوالے سے کئی ایک سنی سنائی گئی باتوں کو ایک تسلسل کے ساتھ دہرایا جاتا اور عمومی تاثر یہی بنایا جاتا ہے کہ جیسے سفارت خانہ اور یہاں کا عملہ تارکین وطن کی خدمات میں دانستہ کوتاہی کرتا ہے،محنت کشوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک یا رشوت طلب کرتا ہے۔ ذاتی طور پر اس حقیقت سے واقف ہوں کہ تارکین وطن کو زیادہ تر پاسپورٹ یا شناختی کارڈ کے مسائل کا سامنا رہتا ہے اور ایک واقعہ ایسا ہے کہ ثبوت ملنے پر سفیر پاکستان نے ایسے افسر کی خدمات فی الفور ختم کرتے ہوئے ،اسے واپس پاکستان بھیج دیا تھا۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ سفارت خانے میں بیٹھے ویلفیئر اتاشی اپنی حتی المقدور کوششوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، اپنے محدود اختیارات کے ساتھ ہمہ وقت تارکین وطن کی خدمت میں جتے رہتے ہیں۔ برادرم سہیل بابر وڑائچ بھی اپنی کاوشوں میں ہمہ وقت مگن دکھائی دیتے ہیںاور جب بھی ان سے بالمشافہ ملاقات ہو یا فون پر رابطہ ہو،اپنی کاوشوں ،سعودی قوانین میں تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ وہ افرادی قوت کے مختلف پہلوؤں پر صرف سیر حاصل گفتگو کرتے دکھائی نہیں دیتے بلکہ عملاً اپنی کاوشوں کو جامہ پہنانے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ دیگر قومیتیوں کی موجودگی کا موازنہ بھی کرتے ہیں،نئے آنے والوں کیلئے رہنمائی بھی کرتے ہیں اور موجودہ صورتحال کے مطابق پاکستان سے افرادی قوت لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور متعلقہ اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں! اپنی سرکاری حیثیت اور اداروں سے خط و کتابت کے علاوہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ پاکستانیوں میں یہ پیغام زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے کہ نئے آنیوالے خواہشمندوں کی مناسب رہنمائی ہو سکے اور جب وہ دیار غیر میں آئیں تو اپنے ساتھ ایسا ہنر ضرور لائیں کہ جس کی بدولت انہیں فوری روزگار میسر ہو سکے۔
روزگار کے حوالے سے اس وقت قریباً ہر پاکستانی متفکر ہے اور پاکستانی معاشی حالات سے دلبرداشتہ یا تنگ ہونے کے باعث بیرون ملک روزگار تلاش کرنے کی سعی میں مصروف نظر آتا ہے، جس کا ثبوت گذشتہ چند ماہ میں لاکھوں پاکستانیوں کا بیرون ملک سفر ہے۔مشرق وسطیٰ کے صحراؤں کو گلزار بنانے میں، پاکستان کی محنتی و جفاکش افرادی قوت کا بہت بڑا کردار ہے،جس کے مشرق وسطیٰ کے مقامی لوگ بہت زیادہ معترف ہیںاور اس حقیقت کا اعتراف کرنے سے کبھی گریز نہیں کرتے کہ مشرق وسطیٰ کے ریگزاروں کو گلزاروں میں بدلنے کی خاطر پاکستانیوں نے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے۔بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانی ابھی تک اس خمار سے نہیں نکل رہے کہ مشرق وسطیٰ میں ماضی کی طرح محنت مزدوری کرکے اپنا روزگار حاصل کر لیں گے،جبکہ صورتحال اب بہت بدل رہی ہے ،تسلیم کہ سعودی عرب میں بہت بڑے بڑے میگا پراجیکٹس زیر عمل ہیں اور ان میں بہت سی افرادی قوت بھی درکار ہے لیکن اس افرادی قوت کے پیمانے اب بدل گئے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے باعث اب روایتی مزدوری نہیں چل سکتی کہ مزدوری بھی اب مشینوں کی مرہون منت ہوتی جا رہی ہے۔بہرکیف اس پر پہلے مفصل لکھ چکا ہوں، آج کا موضوع اس سے ہٹ کر اوردوسرے شعبہ جات سے متعلق ہے کہ فلپائن نے اسی؍نوے کی دہائی میں سعودی افرادی قوت کی ضروریات کا جائزہ لے کر،اگلے بیس سال کی منصوبوں کو سامنے رکھتے ہوئے،اپنی افرادی قوت کو برآمد کرنے کیلئے تیار کیا تھا، برآمد کی جانیوالی افرادی قوت کے حوالے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے سے متعلق جامع پالیسی اور اس پر سختی سے عملدرآمدنے مشرق وسطیٰ کی مارکیٹ ان کیلئے کھول دی تھی۔ایسی ہی صورتحال دیگر قومیتیوں کی ہے اور اس وقت فلپائن کے بعدنیپال کی حکومت میں اپنی افرادی قوت کے حوالے سے سخت پالیسیاں اپنائے ہوئے ہے،تاہم ان ممالک کی سخت پالیسیوں کے نقصانات اب سامنے آنا شروع ہو رہے ہیں کہ سعودی عرب میں ان کی تعداد بتدریج کم ہو رہی ہے۔
سعودی عرب میں روزگار کے حوالے سے کئی ایک مواقع سامنے آ رہے ہیں جن میں سے ایک بالخصوص مہمان نوازی(hospitality services)عروج پر دکھائی دیتی ہیں کہ سعودی عرب میں ہر نئے میگا پراجیکٹ میں انتہائی اعلیٰ و معیاری ہوٹلز کی بہتات ہے جہاں مہمان نوازی انڈسٹری سے متعلقہ افراد کی بے تحاشہ کھپت کا امکان موجود ہے۔حیرت اس امر پر ہے کہ اس شعبہ میں سب سے زیادہ مانگ سری لنکا اور نیپال کے محنت کشوں کی ہے جس کی وجہ فقط اتنی ہے کہ سری لنکا اور نیپال کی حکومتوں نے اس انڈسٹری کو سمجھا ہے اور اپنی افرادی قوت کو مناسب تربیت کیلئے انتظامات بھی کئے ہیں۔ کسی بھی شعبہ میں کام کرنے کے اپنے انداز ہوتے ہیں،جن کو اپناکرہی اس میں کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے،جبکہ اس صنعت سے وابستہ افراد کیلئے بنیادی وصف ہی مسکراہٹ ہے،جو آدھے سے زیادہ کام کرتی ہے،جبکہ دیگر خصوصیات میں تحمل،برداشت،بردباری،خوش اخلاقی ،دوسروں کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے ان کے کام کو سرانجام دینا وغیرہ شامل ہے۔درحقیقت یہ وہ صنعت ہے کہ جس میں اکڑ،انا ،مزاج کا کوئی دخل کسی بھی صورت نہیں ہو سکتا وگرنہ نوکری ایک لمحہ میں ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور ایسی صورت میں جو حقوق ،قوانین کے مطابق،محنت کش کا حق ہوتے ہیں،ان سے محرومی تک شامل ہے۔ پاکستانی بھائیوں میں یہ چیز کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کہ اپنا مزاج یا ’’ناک‘‘ نہیں کٹوا سکتے ،اپنے منیجر سے لڑنا جھگڑنا،ایسی صورت میں کسی بھی کمپنی میں پاکستانی ملازمین کا اکٹھے ہو کر انتظامیہ سے تکرار کرنا وغیرہ نہ صرف ان کیلئے بلکہ پاکستان کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے اور آئندہ پاکستانی افرادی قوت کو منگوانے سے گریز کیا جاتاہے۔اپنے حقوق کا مطالبہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنے کی تربیت اور اس احساس کی اشد ضرورت ہے کہ اپنے حق کیلئے کوئی بھی غیر قانونی قدم اٹھانے سے گریز کریں،جس کے نتیجہ میں بعد ازاں جوازات،ترحیل یا سفارتخانہ کے چکر کاٹتے نظر آئیں۔
اس سارے پس منظر کا مقصد یہ ہے کہ سعودی عرب میں مہمان نوازی صنعت میں اس وقت بہت زیادہ روزگار کے امکانات موجود ہیں،پاکستا ن میں بیٹھے افسران کے ساتھ افرادی قوت بیرون ملک بھجوانے والے بڑے پروموٹرز اس صنعت میں بھی پاکستانیوں کو لائیں تا کہ سعودی عرب میں موجود ان مواقع سے پاکستانی فائدہ اٹھا سکیں۔حکومتی سطح پر جو اقدامات ہو سکتے ہیں،فوری کئے جانے چاہئیں لیکن موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا نہیں کہ حکومت اپنے طور پر یہ سب اقدامات کر سکے، لہٰذا چند ایک بڑے پروموٹرز مل کر ایسے ادارے بنا سکتے ہیں کہ جہاں مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے،پاکستانیوں کو اس کی مناسب تربیت دی جا سکے اور سعودی عرب میں پیدا ہونے والے روزگار کے نئے مواقعوں میں پاکستانیوں کیلئے حصہ بقدر جثہ حاصل کیا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button