Editorial

چیئرمین نیب کا استعفیٰ

 

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے چیئرمین نیب آفتاب سلطان کا استعفیٰ منظور کر تے ہوئے ان کی بطور چیئرمین نیب فرائض کی انجام دہی میں ایمانداری اور فرض شناسی کی تعریف کی اور وزیراعظم آفس کے میڈیا سیل کے مطابق چیئرمین نیب آفتاب سلطان نے ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفیٰ پیش کیامگرقبل ازیں نیب افسران سے خطاب میں آفتاب سلطان نے کہا کہ کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں چلا سکتا۔ چیئرمین کے عہدے سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ہے، بہت خوش اور مطمئن ہوں کہ اپنے اصولوں پر کاربند ہوں اور کسی دبائو کے سامنے نہیں جھکا۔میں کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں چلا سکتا، نہ ہی کسی کے خلاف قائم ریفرنس محض اس بنیاد پر بند کرسکتا ہوں کہ مجرم کسی بااثر شخص کا رشتہ دار ہے۔ہمارا آئین ہمارے تمام مسائل کا حل فراہم کرتا ہے، آئین پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے آج ہم سیاسی اور معاشی بحران کا شکار ہیں۔ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور قانون کی حکمرانی کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے نیب کے نوجوان افسران پر مکمل اعتماد ہے۔سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے آفتاب سلطان سے کہا ہے کہ وہ عہدہ کیوں چھوڑ رہے ہیں ، وہ اچھے آدمی ہیں، کوئی ابہام نہیں رکھنا چاہیے تھااور اس آدمی کا نام بتائیں جس نے ان پر دبائو ڈالا۔ بلاشبہ آفتاب سلطان اپنا کام جاری رکھتے ،بقول ان کے اگر انہیں جھوٹے مقدمات چلانے کے لیے نہ کہا جاتا یا اِس کے لیے دبائو نہ ڈالا جاتا کیونکہ چیئرمین قومی احتساب بیورو کا منصب اہم ملکی مناصب میں ایک تصور کیا جاتا ہے، قبل ازیں جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اِس اہم منصب پر فائز تھے۔ حالیہ دنوں میں تحریک انصاف کی قیادت ریاستی اداروں کے زیر عتاب ہے، قبل ازیں ان کے دور میں پی ڈی ایم میں شامل جماعتوںکی قیادت زیرعتاب تھی، پی ڈی ایم والے بھی کہتے تھے کہ اِن پر جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے ہیں، پی ٹی آئی والے بھی یہی کہتے ہیں اور سابق چیئرمین آفتاب سلطان بھی جاتے جاتے کہہ گئے کہ وہ کسی کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم نہیں کرسکتے، پس ثابت ہوا کہ ریاست کے اہم اداروں کو بھی مقامی اداروں کی طرح سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے تاکہ مخالفین کو سلاخوں کے پیچھے دیکھ کر دل کو تسکین حاصل ہو۔ سیاسی مخالفین کے خلاف اداروں کے استعمال کی روایت نئی نہیں مگر اِس روایت کو ختم کرنے کی بھی ہمت کسی میں نہیں خواہ انتقامی کارروائیوں کے نتیجے میں ملک کے اندر انتشار اور افراتفری پروان چڑھے اور حالات بے قابو ہوں۔ غیر دانشمندانہ فیصلوں کی عمر طویل نہیں ہوتی مگر ان کے منفی اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔ پولیس سیاست دانوں کی حفاظت کے لیے معمور ہے۔ قومی احتساب بیورو سیاسی انتقام کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ مالیاتی ادارے خاندانوں کی پرورش کررہے ہیں اسی طرح دیگر اداروں کو سیاسی مقاصد یعنی انتقامی سیاست کے لیے استعمال کیا جارہا ہے بظاہر نفسانفسی کی صورت حال ہے، ہر دور میں اداروں کا قبلہ حزب اقتدار ہوتا ہے جبکہ حزب اختلاف زیر عتاب ہوتی ہے۔ کوئی بے ایمان ہے تو بھی ایمان داروں میں کھڑا ہوکر سیاسی انتقام کا نشانہ بننے کا واویلا کررہا ہے ، نجانے کب اور کیسے آئین اور قانون کی حقیقی بالادستی قائم ہوگی اور ہم اداروں کوجوابدہ ہوں گے، جیسے سب کچھ چل رہا ہے ، قطعی ٹھیک نہیں بلکہ تشویش ناک ہے، کیا مستعفی چیئرمین نیب کا خطاب، زیرعتاب افراد کے موقف کی تائید نہیں ہے؟ آفتاب سلطان کے متعلق ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ انہوںنے چیئرمین نیب کا عہدہ نواز شریف کے اصرار پر صرف اس شرط پر قبول کیا تھاکہ وہ اپنی آزادی پر کوئی سمجھوتا کریں گے اور نہ ہی حکومت کو خوش کرنے کے لیے کسی کی توقعات کے مطابق کام کریں گے، پس جاتے جاتے وہ کہہ گئے کہ میں کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں بناسکتالہٰذا اداروں کو ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے جو بھی استعمال کرے وہ ملک و قوم اور ریاست کا مفاد بہرکیف مدنظر رکھے، سیاسی مخاصمت اور کھینچاتانی نے ہر ادارے کو متنازعہ بنادیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button