Editorial

وزیراعظم شہبازشریف کی فکر انگیز گفتگو

 

ہر معاشرے میں امن و سکون،ترقی و خوش حالی کے لیے سیاسی استحکام کو لازم قرار دیاجاتا ہے، لہٰذا حکومت یا سیاسی ادارے اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے سے قاصر ہوجائیں تو جہاں عامۃ الناس میں بے یقینی اور بدنظمی نظر آتی ہے وہیں انتشار پھیلانے والے بھی سرگرم ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ حالات اُن کے مفادات کے حصول کے لیے سازگار ہوتے ہیں، نتیجتاً ایک سے بڑھ کر ایک نیا بحران سامنے آتا ہے کیونکہ اِن کے پیچھے چھپے عناصر حکومت اور اداروں سے زیادہ گہرائی کے ساتھ حالات پر کڑی نظر رکھتے ہیں لہٰذا وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہتے ہیں لیکن جہاں حکومت اور ادارے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں وہاں معاشی ترقی، انصاف اور اطمینان ہر جگہ نظر آتا ہے اور انتشار ،بدنظمی ا ور مسائل کا تصور بھی نہیں ہوتا، اِس لیے سیاسی استحکام ہو اور تمام ادارے متعین کردہ اپنی اپنی حدود میں رہیں اور ہر فرد دوسرے کے پیچھے چھپنے کی بجائے ایک قدم آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری کا اعتراف کرے تو معاشرے کو مثالی بننے سے کوئی نہیں روک سکتامگر جہاں بے یقینی اور بدنظمی پیدا ہوجائے، وہاں عامۃ الناس بے سمت سرپٹ دوڑنے کو ہی درست فیصلہ گردانتے ہیں پس ثابت ہوا کہ پُرامن معاشرے کے لیے سب سے زیادہ اہم سیاسی استحکام ہے کیونکہ معاشی اور معاشرتی استحکام اِسی سے جڑے ہیں، آج ہم سیاسی، معاشی اور معاشرتی بدحالی کی تصویر ہی اسی لیے بنے ہوئے ہیں کہ ہم نے اقوام کی ترقی اور تنزلی کو مدنظر رکھااور نہ ہی اِن سے کچھ سیکھا،پس کوئی ترقی کرے یا تنزلی، ہم ہمیشہ کی طرح لاتعلق رہیں گے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کے لیے پاکستان کو معاشی طاقت بنانا ہوگا، اِس کے ساتھ ہی انہوں نے فرمایا کہ پاکستان کے مالی چیلنجز بہت شدید نوعیت کے ہیں۔ انہوں نے یہ مختصر لیکن انتہائی اہم بات اُس وقت کہی جب پاکستان سمیت دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کیا جارہا تھا، وزیراعظم پاکستان کی اِس بات کا بغور اور گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ہماری اپنی تشریح یہی ہے کہ جب تک ہم مکمل طور پر خود انحصار قوم نہیں بنیں گے ہماری بات پر کوئی متوجہ ہوگا اور نہ ہی کوئی وزن محسوس کرے گا کیونکہ آج اقوام کی تقسیم اورجانب داری کے پیچھے یہی ایک فارمولا ہے کہ جو معاشی لحاظ سے جتنا طاقت ور ہے وہ اُتنا ہی عالمی برادری پر اثرورسوخ رکھتا ہے اور اُسی کے فیصلے مانے جاتے ہیں، اِس کے برعکس جو معاشی لحاظ سے جتنا کمزور ہے اور ہربار مشکل آن پڑے تو عالمی برادری سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے اُس کے سچے اور درست موقف کو بھی کم ہی تسلیم کیاجاتا ہے جس کی واضح مثال مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ عالم اسلام میں جس طرح افتراق وتفریق، بے چینی اور عدم اطمینان کی کیفیت پائی جارہی ہے اس نے ان ملکوں کا سکون اور امن وامان غارت کر رکھا ہے کیونکہ یا تو مسلم ممالک آپس میں برسرپیکار اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور اگر جنگ مسلط نہیں ہے تو ریاست کے اندر ہی لوگ دست و گریباں ہیں لہٰذادنیا میں کیا ہورہا ہے، کونسے متوقع بحران نظر آرہے ہیں اور موجودہ بحرانوں سے باہر نکلنے کا کیا راستہ ہے اِس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، پس ہمارے داخلی حالات اور رویے بھی دیگر مسلمان ریاستوں سے زیادہ مختلف نہیں ہیں البتہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین ایسی مسلم ریاستیں ہیں جو ترقی میں اگرچہ مغرب کے شانہ بشانہ نہیں لیکن انہوں نے ترقی اور خوشحالی کی راہ پہچان لی ہے اور ہر لمحہ تیزی سے اُس پر قدم بڑھارہے ہیں مگر ہمارے یہاں ایک فریق دوسرے فریق کو طنزوتشنیع کا نشانہ بناتا ہے اور ایسا وہ حق سمجھ کر کرتا ہے جس سے قدم پیچھے ہٹانا اس کے لیے یقین وایمان کا مسئلہ بن جاتا ہے اور بسا اوقات تو معاملات عدم برداشت کے نتیجے میں تشدد تک پہنچ جاتے ہیںکیونکہ ہم اس مخصوص سوچ سے باہر نکلنے کے لیے تیارہیں اور نہ ہی ہمیں کوئی باہر نکالنے والا ہے، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کی قراردادوں کے باوجود مقبوضہ کشمیر آج تک مقبوضہ ہی اسی لیے ہے کیونکہ اِس پر نسبتاً بہتر اور مضبوط معیشت والی ریاست قابض ہے لہٰذا دوسری طاقتوں کے مفادات اُسے غیرقانونی قبضے اور غیر قانونی اقدامات سے نہیں روکتے مگر ہماری ستر سال سے اِس معاملے پر ہر آواز سنی ان سنی ہی اسی لیے ہوتی ہے کیونکہ ہم انتہائی کمزور معیشت اور دوسری اقوام پر انحصار کرنے والے ہیں کوئی تیل دینا بند کردے تو پورا ملک بند، کوئی گندم دینا بند کردے تو آدھا ملک بھوکا رہ جائے غرضیکہ خود انحصاری کی سوچ اوپر پنپتی تو عوام لبیک کہتی لہٰذا جو دیا گیا وہ سمیٹا گیا، ہم مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں سے اظہاریکجہتی ہی کرسکتے ہیں ،کیونکہ اپنے سیاسی، معاشی اور معاشرتی مسائل ہمیں اِس سے بڑھ کر کچھ اور کرنے کی اجازت اور سکت نہیں دیتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button