ColumnNasir Naqvi

مہنگائی، معاشی بحران اور امریکہ بہادر .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

معاشی اور سیاسی بحران اسلامی جمہوریہ پاکستان کے گلے ایسے پڑا کہ اب گلا گھونٹنے لگ گیا ہے۔ غریب کھانے پینے، پہننے، جینے اور مرنے سے بھی پریشان ہے لیکن اشرافیہ اور مافیا کے موج میلے اور اللے تللے ختم نہیں ہو رہے۔ مہنگائی کے نعرے لگا کر عمران حکومت کو گرانے اور عوام کو ریلیف دینے کی خوشخبری سنانے والے بھی اب منہ چھپاتے نظر آ رہے ہیں۔ ضرب، جمع، تقسیم کے جادوگر معیشت کے ارسطو اسحاق ڈار بھی تمام تر دعوئوں میں ناکامی کے بعد سخت تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں کیونکہ مفتاح اسماعیل کی رخصتی کے بعد اسحاق ڈار کچھ نہ کر سکے، ڈالر کی اُڑان اُن کے قد سے بھی اونچی ہے اور اس عمر میں ’’جمپ‘‘ ڈار صاحب لگا نہیں سکتے کیونکہ ہڈی پسلی ٹوٹ گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اب حکومتی بیانیہ یہ ہے کہ کرونا کے عالمی بحران، موسمی تبدیلی کے اثرات، عمرانی غلط منصوبہ بندی اور سیلاب جیسی آسمانی آفت نے کڑاکے نکال دئیے، ہم تو اپنی سیاست کو دائو پر لگا کر ریاست بچانے آئے تھے لیکن حالات اور معاملات جس حد تک خراب ہیں ا س کا درست اندازہ نہ تھا۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بھی ہضم نہیں ہو رہیں، معاہدہ عمران خان نے کیا، نگلنا ہمیں پڑ رہا ہے۔ اجتماعی مفاد میں سخت فیصلے کئے اور مزید بھی کرنے پڑیں گے جبکہ عوامی سوال یہ ہے کہ قوم نے آپ کو اقتدار لینے کا مشورہ نہیں دیا ، نہ ہی موجودہ معاشی اور سیاسی بحران میں عوام کا کوئی کردار ہے۔ آپ رہنما ہیں آپ نے چیلنج قبول کیا۔لہٰذا حل بھی آپ ہی نکالیں۔ حکومتی حلقوں کو شکوہ ہے کہ عمران خان کی سوچ اجتماعی نہیں، انفرادی ہے وہ نئے انتخابات کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں جو حقیقت نہیں، معاشی بحران اور پریشان کن اقتصادی صورتحال میں مملکت زبردستی کے بار بار الیکشن کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ مہنگائی کا طوفان ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہے۔ فرانس، برطانیہ میں
بھی بُرا حال ہے۔ ہم وطن عزیز کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئے ہزاروں جتن کر رہے ہیں لیکن عمرانی ٹولہ روزانہ کی بنیاد پر ریاست اور حکومت کے خلاف نیا شوشہ چھوڑ دیتا ہے۔ اسے بالکل یہ احساس نہیں کہ یہ سب کیا دھرا اُن کا ہی ہے۔ انہوں نے غلط فیصلے کر کے دوست ممالک کو ناراض کیا۔امریکی صدر ٹرمپ کی الیکشن مہم پاکستانی سفارت خانے سے چلائی گئی اور پھر سب نے دیکھا کہ شکست کے بعد امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ وائٹ ہائوس پرحملہ کیا گیا۔ ہم ترقی پذیر غریب ملک ہیں لیکن حقیقت ہے کہ عمران خان کے دوست صدر ٹرمپ امریکہ کو بھی لے بیٹھے۔ اس وقت سپر پاور امریکہ بہادر بھی اس قدر قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا ہے کہ دیوالیہ ہونے کے خدشات بڑھ چکے ہیں۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ایوان نمائندگان کے سپیکر کیون میکارتھی نے صدر بائیڈن سے ملاقات کر کے انہیں حکومتی اخراجات میں کمی کا مشورہ دیا ہے۔ امریکہ اپنے قومی قرضوں میں ڈیفالٹ نہ بھی کرے تب بھی حکومتی اخراجات 31.4ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا جوبائیڈن کو حکومتی اخراجات میں اضافہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرانی پڑے گی۔ ٹرمپ کی جماعت کے سپیکر نے خبردار کیا ہے کہ حکومت سالانہ جمع کئے گئے ٹیکس سے زیادہ خرچ نہیں کر سکتی اس لیے قرضوں کی حد بھی مقرر کی جائے جبکہ صدر جوبائیڈن اور ڈیمو کریٹس مستقبل کے اخراجات کیلئے قرضوں کو بڑھانے کی منظوری چاہتے ہیں لیکن ایوان نمائندگان میں اپوزیشن جماعت ری پبلکن کے دس ارکان زیادہ ہیں اس طرح امریکہ کا معاشی بحران بھی نیا رخ اختیار کرنے والا ہے۔
حکومتی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ عمران خان کی نااہلی اور غلط منصوبہ بندی کے باعث آزمودہ دوست عوامی جمہوریہ چین سے تعلقات بگڑے اور قسمت بدلنے والا منصوبہ سی پیک بھی تعطل کا شکار ہو گیا۔ اس کارنامے کی قیمت عمرانی حکومت نے کیا وصول کی کسی کو معلوم نہیں لیکن اثرات یہ ہیںپاکستان نے اعتماد کھو دیا، حکومت سے چین نے تعاون اور تعلقات کے حوالے سے مذاکرات کئے پھر بھی کئی دن گزرنے کے باوجود ابھی تک چینی حکومت کی جانب سے منظوری کی دستاویزات نہیں آسکیں۔ یقیناً اس تبدیلی میں سابق حکومت کا کارنامہ اپنی جگہ، موجودہ سیاسی عدم استحکام نے بھی کام دکھایا ہو گا وہ بھی یہی سوچ رہے ہوں گے کہ حکومت رہتی بھی ہے کہ جنرل الیکشن کوئی نیا رنگ دکھائیں گے۔
حقیقت یہی ہے کہ 2023ء الیکشن کا سال ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق اکتوبر نومبر تک اسمبلیاں مدت پوری کریں گی جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں وہ اپنا دو تہائی اکثریت کا خواب پورا کر سکتے ہیں اس لیے الیکشن جلد از جلد ہو جائیں جبکہ حکومت کی نیت وقت مقررہ سے بھی آگے جانے کی لگتی ہے۔ بہانہ معاشی بحران،خالی خزانہ اور مردم شماری کا ہے،یہ بھی دلچسپ ہے کہ مردم شماری کا فیصلہ بھی سابق وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کیا گیا بلکہ تحریک انصاف کے علاوہ باقی
تمام جماعتیں انتخابی اصلاحات پر بھی متفق ہیں اور اگر مردم شماری ہو گی تو نئی حلقہ بندیاں بھی ضروری ہو جائیں گی اس ساری کارروائی میں وقت لگے گا لہٰذا فوری انتخابات کا دروازہ کھلتا دکھائی نہیں دے رہا، یہی نہیں، سابق وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی پرویز اشرف نے تحریک انصاف کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفے قبول کر کے 35پنکچر لگا کر عمران خان کوطوفانی مہم چلانے اور واویلا کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ عمران خان نے بھی کمر کس لی ہے۔پی ڈی ایم اس سیاسی تماشے سے دوری چاہتی تھی لیکن مفاہمتی آصف زرداری نے نواز شریف کو رضامند کر کے فیصلہ کرا لیا ہے اب ڈرائیونگ سیٹ پر ایک زرداری سب پر بھاری نظر آئے گا۔ ہنگامی ملاقاتیں جاری ہیں۔ سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ نون نواز شریف نے بھی کوارڈی نیٹر اور سینئر نائب صدر مریم نواز کو وطن واپس بھیج دیا ہے۔ اب پہلے وہ پنجاب کے طوفانی دورے کریں گی پھر ضمنی حلقوں میں بھی پائی جائیں گی۔ سوال یہ ہے کہ ان کے پاس عوام کو دینے کیلئے کیا ہے۔ مہنگائی نہ کم ہوئی اور نہ ہی توقعات ہیں۔ یقیناً انہیں بھی عوامی مہم میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ وطن عزیز آمد پر قوم پر پٹرول بم ایسے پھٹا ہے جیسے مریم نواز نے اس پر پائوں رکھ دیا ہو، وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا دعویٰ ہے کہ عمرانی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے توڑا، ہمیں شرائط پوری کرنے کیلئے پٹرول مہنگا کرنا پڑا کیونکہ آئی ایم ایف اب رعایت دینے کو تیار نہیں۔
اگر ان تمام باتوں کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو کس کے پاس اس سوال کا جواب ہے کہ غریب، متوسط اور کم آمدنی والے خاندان ایسی مہنگائی میں کیسے زندگی بسر کریں جہاں مرغی ساڑھے پانچ سو روپے کلو ، انڈے 295روپے درجن ، پیاز بھی 270، لہسن اور ادرک 570روپے کلو، دالیں، چاول و آٹا بھی پہنچ سے باہر ہو تو بتائیں محدود تنخواہ والے سرکاری ملازمین اور دیہاڑی دار لوگ کیسے گزارہ کریں گے۔ ایسے میں ملک کے دو صوبوں میں نگران حکومتیں بھلا کیا کر سکیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی معاشی بحران پر وفاق اور صوبائی حکومتیں انتظامی پالیسی میں سخت فیصلے کرتے ہوئے ضروریات زندگی کی مصنوعی قلت اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کی جائے بلکہ ایک ایسی عوامی مہم بھی چلائی جائے کہ معاشرے میں کفایت شعاری کو پروان چڑھایا جائے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اس سلسلے میں حکومتی سطح پر کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ اللہ کرے وہ ثابت قدم رہیں ورنہ ماضی میں تمام وزرائے اعلی ابتدائی دور میں ایسے کچھ فوٹو سیشن اور خبروں کا عنوان بننے کیلئے کرتے ہیں اور جونہی کچھ عرصہ گزرتا ہے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ میری ’’جمع تفریق‘‘ میں موجودہ معاشی بحران اور مہنگائی کا طوفان حکومتی الزامات اور پالیسیوں سے کم نہیں ہو گا اس سلسلے میں عوام کو اپنے بجٹ میں رہتے ہوئے کفایت شعاری کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے فضول خرچی سے پرہیز کرنا پڑے گا یعنی ضرورت کے مطابق خریداری اور غیر ضروری یا جن اشیاء کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہے ان سے بچنا ہو گا۔ مطلب صاف ظاہر ہے کہ بحران سے مل کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ یہ مسائل ملکی ہیں کہ بین الاقوامی ہمیں اپنی سطح پر گھبرائے بنا عملی کارروائی کر کے نجات حاصل کرنی ہو گی اگر اجتماعی کوشش نہ کی گئی تو نقصان سب کا ہو گا یہ کہنا کہ معاشی بحران اور مہنگائی دنیا بھر میں ہے یا امریکہ بہادر بھی دیوالیہ ہونے والے ہیں اس سے ہماری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا عوامی سطح پر ریلیف اور فی کس آمدنی میں اضافے کی راہیں تلاش کرنی پڑیں گے۔ اجتماعی اور انفرادی ورنہ مہنگائی، مہنگائی اور صرف مہنگائی، غریب کا جینا حرام اور مرنا پریشان کن ہی رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button