ColumnImtiaz Aasi

سیاسی پرندوں کی نقل مکانی،پی پی اورانتخابات .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

جس طرح سرد موسم میں افریقی ملکوں کے پرندوں کی نقل مکانی معمول ہے اسی طرح سیاست دانوں کابدلتے حالات کے ساتھ دوسری جماعتوں میں شمولیت کا آغاز ہو چکا ہے۔گذرنے زمانوں میں سیاست دان سیاست کو عبادت سمجھتے تھے آج کے سیاست دان سیاست کو تجارت کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔سیاست دانوں کی دوسری جماعتوں میں نقل مکانی کے سلسلے کی پہل بلوچستان کی نومولود باپ پارٹی کے لوگوں کی بلاول ہاوس کراچی میں پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری کے ہاتھ پر بیعت سے ہو چکی ہے ،پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری سیاسی حلقوں میں جوڑ توڑ کے بادشاہ تصور کئے جاتے ہیں حالانکہ یہ ان کا اپنا کمال نہیں بلکہ اس عمل میں انہیں بعض نادیدہ قوتوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے ۔بلوچستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو دور کے نظریاتی کارکنوںسردار فتح محمد حسنی، میر باز خان کھیتران ،میر صا دق عمرانی اور جمال خان جوگزئی جیسے جیالوں کی موجودگی کے باوجود پیپلز پارٹی کی باگ دوڑ علی محمد جدک اور ثناء اللہ زہری جیسے لوگوں کے حوالے محض اس لیے کردی گئی کہ انہیں فریال تالپور کی حمایت حاصل ہے حالانکہ بلوچستان میں پارٹی کو فعال بنانے کیلئے پارٹی کے نظریاتی ورکرز کوساتھ لے کر چلنا ضروری تھا۔شہید بے نظیر بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بلوچستان کے ان جیالوںکو پارٹی کیلئے خدمات کے اعتراف میں وفاقی میں عہدے بھی دیئے ۔چنانچہ پیپلز پارٹی کی غیر جمہوری پالیسیوں کے سبب چاروں صوبوں میںنظریاتی کارکنوں کی ایک بڑی تعداد پارٹی سے علیحدہ ہوچکی ہے ۔پیپلز پارٹی جسے کبھی چاروں صوبوں میں عوام کی حمایت حاصل تھی بے نظیر کی شہادت کے بعد سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے ۔خیبر پختونخوا میں سابق وزیراعلیٰ میر افضل خان مرحوم تو ضیاء دور میں پارٹی سے کنارہ کش ہو گئے تھے، آفتا ب شیرپائوجیسے نظریاتی لوگوں کو پارٹی کی غیر جمہوری پالیسیوں کے باعث علیحدگی اختیار کرنا پڑی ۔وہ اپنی جمہوری وطن پارٹی کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے کر ایوان میں پہنچ جاتے ہیں۔بلوچستان کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی پیپلز پارٹی مردہ گھوڑا بن چکی ہے ۔
ہمیں وہ وقت یاد ہے جب چاروں صوبوں کے عوام کی زبان پر ایک ہی نعرہ ’’چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بے نظیر‘‘ ہوا کر تا تھا جبکہ ستر کی دہائی میں یہ نعرہ عام تھا’’ بھٹو آئے گا راج چلائے گا‘‘پنجاب جو کبھی پیپلز پارٹی کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا، ہر گھرانے پر پیپلز پارٹی کا پرچم لہراتا تھا لیکن گذشتہ انتخابات میں یہاں پارٹی ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں تھا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ہوس زر کے پجاریوں نے اپنی کارستانیوںسے پیپلزپارٹی کوسندھ تک محدود کر لیا۔ اب سندھ میں ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو یکجا کیا جا رہا ہے لہٰذا موسمی پرندوں کو جوڑنے کے سلسلے کا جو آغاز ہو چکا ہے وہ اس امر کا غماز ہے آئندہ عام انتخابات میںکسی طرح عمران خان کواقتدار میں آنے سے روکا جا سکے۔
پنجاب میں سیاسی دنگل کا آغاز ہو چکا ہے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کو اب اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔اچھی بھلی حکومت کو ہٹانے کیلئے پہلے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا اس تمام سیاسی ہلچل کا مقصد ملک وقوم کی ترقی کی بجائے اقتدار کاحصول ہے، بدقسمتی سے سیاسی وابستگیوں کی تبدیلی کے سلسلے کاآغاز 1985 کے بعد ایسا شروع ہوا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے، سیاست میں خریداری کا آغاز انہی تاجر پیشہ سیاست دانوں نے کیا جو ہم پر مسلط کئے گئے ہیں۔باپ پارٹی کوپہلے تحریک انصاف کی حمایت کیلئے تیارکیا گیا عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد اب اسی جماعت کوپیپلز پارٹی میں شامل کرنے کے بعد اور ایم کیوایم کے دھڑوں کو یکجا کرنے کی مشق کا مقصد عوام کوسمجھ جانا چاہیے۔پیپلز پارٹی سے حال ہی میں علیحدگی اختیار کرنے والے سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے
عمران خان کے ان خدشات کو کنفرم کر دیا ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد میں بعض نایدہ قوتوں نے پی ڈی ایم کو سپورٹ کیا تھا۔الیکشن کمیشن جس پر عمران خان پہلے ہی عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں،اسلام آباد میںبلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں ہائی کورٹ کے احکامات کو جس طرح پس پشت ڈالا گیا جس کے بعد آئندہ عام انتخابات میں چیف الیکشن کمشنر کی جانبداری بارے کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔تعجب ہے عین بلدیاتی انتخابات سے چند روز قبل حلقہ بندیوں میںاضافے کا شوشہ چھوڑ کر جس طرح بلدیاتی انتخابات کو سبوتاثر کیا گیا اس کے بعد آئندہ عام انتخابات کے انعقاد میں شفافیت کی کسی کو امید نہیں رکھنی چاہیے۔جہاں تک جلد عام انتخابات کے انعقادکی بات ہے وہ صرف اسی وقت ممکن ہیں جب پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل ہو، ہمیں نہیں دکھائی دیتاکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل ممکن ہو گی ۔جیسا کہ ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں کو یکجا کرنے کاسلسلہ شروع ہو چکا ہے اور بلوچستان سے باپ پارٹی کے لوگوں کی آصف علی زرداری کے ہاتھ پر بیعت ہو چکی ہے جس کے بعد یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کواقتدار میں لانے کی راہ ہموار کرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔بقول عمران خان، انہیں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کیلئے بعض اداروں نے سفارش کی تھی لہٰذا جس طرح اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کو حیلے بہانوں سے التوا میں ڈالا گیا ہے اسی طرح آئندہ سال اکتوبر میں عام انتخابات کے انعقاد کو موخر کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کر لیا جائے گالہٰذا جب تک پیپلز پارٹی کو اقتدار میں لانے کی راہ پوری طرح ہموار نہیں ہوتی اس وقت ملک میں عام انتخابات کا ہونا یقینی نہیں۔بلوچستان سے باپ پارٹی کے ارکان، ایم کیو ایم کے دھڑوں کو ضم کرنااور خیبر پختونخوا سے تحریک انصاف کے رکن کا پارٹی چھوڑنے کا اعلانی تحریک انصاف کی عام انتخابات سے پہلے کمر توڑنے کاواضح اعلان ہے اورپنجاب اسمبلی کے ارکان بعض ارکان کو نیوٹرل ہونے کی تاکید اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button