ColumnZameer Afaqi

پبلک ریلیشن آفیسر کیسا ہونا چاہیے؟ .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

پبلک ریلیشننگ کا فن غالباً بہت پرانا ہے اس شعبے کی افادیت صرف یہیں تک محدود نہیں بلکہ سچ پوچھیں تو جسے یہ فن آگیا کامیابی کے دروازے اس کیلئے کھل گئے۔اس دور کے پبلک ریلیشنز آفیسر اپنی اعلیٰ کارکردگی، لگن اور فرض شناسی کی بدولت بڑے بڑے کارنامے سر انجام دے سکتے ہیں، رابطہ کاری ایک ایسا ہی فن ہے جس میں مہارت حاصل کئے بنا اس شعبے کو اختیار کرنے والے ناکامی سے دو چار ہو سکتے ہیں۔دنیا بھر میں یہ شعبہ اپنی ایک بے لاگ اور منفرد پہچان رکھتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹرز برسلز میں لابنگ کرنے والے کم ازکم پندرہ ہزار ماہرین موجود ہیں۔ وہ اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے تعارف کیلئے مختلف اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ ایسے ماہرین اپنی مصروفیات کو پبلک ریلیشنز، گورنمنٹ ریلیشنز، پبلک کمیونی کیشن اور پبلک ایڈووکیسی یا عوامی مفادات کے تحفظ کی وکالت جیسے نام دیتے ہیں۔ آج جمہوری طرز حکومت والے معاشروں میں پبلک ریلیشنگ ایک شعبے کے طور پر اتنا بااثر ہے کہ صحافت کو اگر کسی بھی ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے، تو لابیئسٹ اپنی طاقت کی بنا پر ریاست کا پانچواں ستون کہلاتے ہیں۔ یہ شعبہ یا اس سے مسلک افراد اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب یہ اپنے فن پر عبور رکھتے ہوں اور اعلیٰ اخلاقی مہارتوں کے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جس طرح ایک اچھا کاروباری اپنے چہرے کی مسکراہٹ کو کبھی ختم نہیں ہونے دیتاایسے
ہی اس شعبے کے افراد کے چہرے خوش آمدیدی ہونے چاہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ پاکستان میں اس شعبے سے منسلک افراد کرخت چہروں کے حامل اور بدزبانی کرتے دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بھاری معاضوں پر رکھے جانے کے باوجود یہ لوگ اپنے ادارے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا پاتے بلکہ بعض اوقات اپنے ادارے کیلئے سبکی کا باعث بھی بنتے ہیں جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ پبلک ریلشننگ نہ صرف ایک فن ہی بلکہ اس عہدے پر کام کرنے والے افراد کو اس شعبے کی مہارتوں کا بھی علم ہونا چاہیے یہ عہدہ اخلاق اور محبت بانٹنے کا نام کے ساتھ اپنے محکمے کی کارکردگی کو اجاگر کرنے کیلئے بھی اپنی صلاحتیں بروے کار لاتا ہے۔میڈیا میں نئی جہتیںدریافت ہونے کےساتھ اس شعبے کی اہمیت بہت بڑھ چکی ہے ہر ادارے میں آپ کو پی آر او نظر آئیں گے محکمہ پولیس جس کا واسطہ عوام سے سب سے زیادہ پڑتا ہے وہاں بھی یہ شعبہ فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ آئی جی، ڈی آئی جی،سی سی پی او، ڈولفن فورس اور ایس پی آفس میں پی آر و کام کر رہے ہیں جن میں سے بعض پی آر او کی کارکردگی
بہت اچھی ہے اور کئی ایسے بھی ہیں جو خود کو اپنے افسران سے بھی بڑا سمجھتے ہیں ایسے پی آر و نہ صرف محکمے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں بلکہ محکمہ کی کارکردگی کو بھی زیرو کی سطح پر لے آتے ہیںبلکہ اپنے افسران کا مثبت چہرہ دکھانے کی بجائے ان کا امیج خراب کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ پی ایس پی افسران کی اکثریت روشن خیال انسان دوست اور اپنے فرائض کی بجا آواری میں نیک نام اور بااخلاق ہیں جن کی تعریف لاہور کے ہر حلقے میں سنائی دیتی ہے اور وہ آنے والے ہر صحافی سے بلا امتیاز انتہائی محبت اور حسن سلوک سے پیش آتے ہیں لیکن معلوم نہیں کہ آخر کیوں ان میں سے اکثر کے پی آر او ایسے افراد کو تعینات کیا گیا جن کے رویے سے قریباً سارے صحافی نہ صرف شاکی نظر آتے ہیں بلکہ شکوے شکایت بھی کرتے پائے جاتے ہیں، شہر میں ہونے والے چھوٹے بڑے واقعات کے حوالے سے لاہور کے صحافی ان سے رابطہ کرتے ہیں لیکن ان کی جانب سے کسی کو بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملتا بلکہ پسند نہ پسند، چھوٹے بڑے ادرائے کا امتیاز روا رکھنا معمول بن چکا ہے،یوں حقائق عوام تک نہیں پہنچ پاتے بلکہ ان کے تعاون نہ کرنے کی بنا پر سنسنی زدہ خبریں پھیلتی ہیں۔ چھوٹے اخبارات اور میگزین کے صحافیوں(حالانکہ نہ کوئی اخبار چھوٹا ہوتا ہے اور نہ صحافی) سے ہتک آمیز رویے سے پیش آنا معمول ہے،یہی صورتحال ٹریفک میں ہے کہ ٹریفک پولیس
کی جانب سے جہاںآگہی کیلئے اقدامات کیے جاتے ہیں وہیں ترش رویہ اور بیوروکریٹک سٹائل میں صحافیوں کی ہتک معمول کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو بھی سی ٹی او ٹریفک پولیس کو متحرک کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ جتنی وہ کوشش کرتا ہے اتنا ہی پی آر اوز کا رویہ اور مزاج اس سارے نیک کام کو سبوتاژ کر دیتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ میڈیا ہاوسز پریس کلب جائیں، پولیس اور میڈیا میں تعلقات بہتر بنائیں انہیں اس کیلئے انٹرٹینمنٹ فنڈ دیا جاتا ہے لیکن کیا کوئی افسر ان کی گاڑیوں کی لاگ بک چیک کرتا ہے ؟ کیا ان کی لاگ بکس کا آڈٹ ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی پی آر او میڈیا ہاوسز میں جانا، صحافیوں سے ملنا گوارہ نہیں کرتا۔ جا کر ملنا تو دور کی بات ہے یہ تو اپنے دفاتر میں بھی صحافیوں کی آمد پسند نہیں کرتے۔ اگر کوئی ان کے دفتر چلا ہی جائے تو اس کی بات تک سننا گوارہ نہیں کرتے۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ افسران اور میڈیا کے درمیان فاصلہ قائم رکھیں تاکہ ان کی کارکردگی کا پول نہ کھل جائے۔ لاک بک پوری نہیں ہے تو ڈرائیور سے انکوائری کی جائے۔ یہ جو گاڑیاں استعمال کرتے ہیں وہ صحافیوں سے ملاقات کرنے کیلئے محکمے کا امیج بہتر بنانے کیلئے دی گئی ہیں نہ کہ ذاتی اور فیملی کی عیاشیوں کیلئے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جب کوئی آفیسر تعینات ہو تو اسے بیٹ کے صحافیوں کے بارے میں درست بریفنگ دیں ملاقات کروائیں اور بتائیں کہ کون کون ادارے کیلئے مثبت کام کر رہا ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ نہ تو درست بریفنگ دیتے ہیں، نہ افسر کو ملنے دیتے ہیں اور پولیس کیلئے مثبت کام کرنے والوں کا ذکر تک نہیں کرتے ہیں بلکہ انہوں نے تیسرے درجے کے چند ٹائٹوں کا گروپ بنا رکھا ہوتا ہے جسے صحافی کے طور پر متعارف کرواتے ہیں تاکہ افسر کے سامنے سب اچھا کی رپوٹ ظاہر ہوتی رہے اس عمل سے جو لوگ محکمہ پولیس کیلئے مثبت کام کرتے ہیں وہ بھی بدظن ہو جاتے ہیں۔ یہاں اتنی لابنگ ہے کہ قانون کے مطابق پی آر او کو چینج نہیں کیا جاتا۔ ایس پی، ڈی ایس پی، ایس ایچ او، بدل جاتے ہیں تو پی آر او کیوں نہیں بدلتا، ایک ہی پی آر او کئی کئی سال ایک ہی سیٹ پر کیوں تعینات رہتا ہے ؟کیا ڈی جی پی آر کے پاس پی آر و ختم ہو گئے ہیں۔ سینئر افسران کو بھی سوچنا ہو گا کہ پی آر او مافیا ان کی اور محکمہ کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچا رہا ہے۔ کون کتنے برس سے اسی عہدے پر ہے اور ہٹنے کو تیار نہیں۔ پنجاب پولیس میں پی آر اوز کی ایسی سیٹ ہے جسے ہر وقت محبت بانٹنی چاہیے اور جو معلومات کوئی مانگے دینے کے ساتھ ساتھ، آنے والے کو عزت و احترام دینے کے ساتھ چائے پانی سے تواضع کرنی چاہیے کیونکہ محکمہ یہاں ایسے عہدے بھی ہیں کہ ان کو محکمہ کی جانب سے ریفریشمنٹ کیلئے ہزاروں اور اس سے زیادہ ماہوار بھی ملتا ہے جبکہ انہیں ٹرانسپورٹ،رہائش اور دیگر سہولتیں بھی محکمہ پولیس دیتا ہے۔ انہیں ماہانہ ڈیزل، پٹرول، سرکاری ڈالا، گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں الاٹ کی ہوئی ہیں جن کیلئے الگ سے پٹرول دیا جاتا ہے مگر کارکردگی صفر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button