CM RizwanColumn

سیاستدان تو زیرک ہوتے ہیں .. سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

اقتدار سے محرومی کے بعد متعدد بار سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے کئی سیاسی اور انتظامی معاملات میں یہ اقرار کیا گیا ہے کہ فلاں فلاں معاملات میں مجھ سے بڑی غلطیاں ہوئیں۔ صرف ایک نہیں کئی معاملات میں غلطیوں کے اعتراف نے کم از کم یہ ثابت کیا ہے کہ موصوف زیرک نہیں ہیں حالانکہ قوم کو اپنے پیچھے لے کر چلنے کی سب سے اہم اور ضروری شرط یہی ہوتی ہے کہ قائد زیرک اور معاملہ فہم ہو۔ دیوار سے پرے اور حال سے مستقبل کو جاننے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ کسی پر اعتبار کرنے سے پہلے یہ ادراک کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو کہ وہ اس کے اعتبار کو ٹھیس نہیں پہنچائے گا لیکن اگر قائد یہی اقرار کر لے کہ فلاں پر اعتبار کرنا میری سب سے بڑی غلطی تھی تو پھر ایسے کج فہم اور کج بصر شخص پر اعتبار کرنے والے افراد اور ووٹروں کو آئندہ اس پر اعتبار ترک کرنے پر غور کرنا چاہیے تاکہ آئندہ ملاح کو ساری کشتی ڈبو کر یہ کہنے کا موقع ہی نہ ملے کہ ٹوٹا چپو استعمال کرنا میری غلطی تھی اور اگر میں یہ غلطی نہ کرتا تو بیڑہ غرق نہ ہوتا۔ آئیے ان غلطیوں کا جائزہ لیتے ہیں جن کی وجہ سے عمران خان ملکی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ثابت ہوئے ہیں جن کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ جب اگست 2018 میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پاکستان کے بائیسویں وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا تو اس وقت پاکستانی عوام کی ایک محدود تعداد پر امید تھی کہ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان اپنے متعدد وعدوں اور دعووں کو عملی جامہ پہنائیں گے جن کے تحت پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ، احتساب اور بیرون ملک سے کرپشن کے پیسے کی واپسی، بیرونی قرضوں میں کمی، اداروں خصوصاًپولیس کی اصلاحات، جنوبی پنجاب صوبے، وزیر اعظم ہاؤس میں یونیورسٹی کا قیام، ایک کروڑ نوکریاں، پچاس لاکھ گھروں کے ساتھ ساتھ ملک میں معاشی ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔ مگر افسوس یہ تمام وعدے پورے نہ ہو سکے۔ خود عمران خان اور ان کے وفاقی وزراء نے بھی متعدد بار اعتراف کیا کہ الیکشن سے پہلے کے تمام وعدے وفا نہیں ہو سکے جس کی مختلف وجوہات بھی گنوائی جاتی ہیں لیکن یہ وجوہات بالآخر یہی پتا دیتی ہیں کہ عمران خان کے فیصلے غلطیوں سے معمور تھے۔
2018 کے عام انتخابات سے قبل احتساب تحریک انصاف کی انتخابی مہم کا ایک اہم نصب العین تھا۔ لیکن حکومت میں آنے کے بعد یہ عمل متنازع اور سیاست کی نذر ہوتا نظر آیا۔ گرفتاریوں اور کیسز کا سلسلہ شروع ہوا تو اپوزیشن کی جانب سے جوابی الزامات لگے لیکن مجموعی طور پر کیسز منطقی انجام تک نہ پہنچ سکے۔ عمران خان نے احتساب کے عمل کی ناکامی کا اعتراف خود بھی کیا۔ دو اپریل 2022 کو حکومتی اراکین سے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت کوشش کی لیکن نیب اور عدالتیں ہمارے کنٹرول میں نہیں تھے۔ اس سے قبل یکم اپریل کو ایک نجی ٹی وی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ انہوں (اپوزیشن) نے کیس مکمل نہیں ہونے دیئے، کبھی پیش نہیں ہوتے تھے، کبھی کمر میں درد ہو جاتی تھی۔ سب سے زیادہ میرے لیے تکلیف دہ چیز یہ تھی کہ احتساب کے عمل کو ڈس رپٹ کیا گیا، بچایا گیا ان کو، ڈیلز کے تحت، مجھے پتا ہے جان کر ان کے کیسز پر تاخیر کی گئی۔ مجھے سب پتا ہے، ہم بے بس بیٹھے ہوئے تھے۔ اب میں عوام سے کہوں گا کہ مجھے بھاری اکثریت دیں کیونکہ کمزور اکثریت سے کمپرومائز کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بھی یکم اپریل کو کہا تھا کہ حکومت کا احتساب ایک فراڈ تھا، بدترین انتقام تھا۔ نیب کا کوئی ایک کیس بتا دیں جو منطقی انجام تک پہنچا ہو۔ ہمارے خلاف کمیشن بنائے گئے، ان کے نتائج کہاں ہیں، یہ ہمارے خلاف لندن اور پتا نہیں کہاں کہاں گئے لیکن ان کو کچھ نہیں ملا۔ اپوزیشن لیڈر نے الزام عائد کیا کہ اس حکومت کے دوران چینی،گندم، ادویات، گیس کے اربوں روپے کے سکینڈلز ہیں، وہ کہاں گئے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت احتساب کے محاذ پر بری طرح ناکام ہوئی۔ احتساب کے
معاملے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں کرپشن میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ عمران حکومت میں منظر عام پر آنے والے چینی اور گندم کے سکینڈلز میں ملوث افراد کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہو سکی پھر یہ کہ عمران خان کا بیانیہ الیکشن سے پہلے جو بھی تھا، حکومت میں آنے کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ اپوزیشن سے کم از کم ایک بنیادی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوتی، سیاسی درجہ حرارت کم ہوتا تاکہ ریاستی معاملات آسانی سے چل سکتے اس سے حکومت کو اپنے اصل ایجنڈا پر کام کرنے کا بھی موقع ملتا لیکن گورننس اور ڈلیوری سے ہٹ کر غلط ہدف کا پیچھا کیا جاتا رہا۔ عمران خان کا معاشی محاذ پر دعویٰ تھا کہ وہ ملکی معیشت کی کایا پلٹ دیں گے، آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، قرضے کم کریں گے، مہنگائی کا خاتمہ کریں گے لیکن یہ مشکل دعوے تھے۔ ان کے دور میں پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ گراوٹ، مہنگائی سے لے کر قرضوں کے حجم میں اضافے تک کئی معاشی چیلنجز نمایاں ہوگئے۔ تین بار وزیر خزانہ بھی تبدیل ہوئے لیکن معیشت زیر بار ہی رہی۔ عمران حکومت اقتصادی شرح نمو کو جس طرح زیادہ پیش کرتی رہی اور افراطِ زر کو کم سطح پر دکھاتی رہی اسی طرح زیادہ ملازمتوں کے پیدا ہونے کو بھی اپنے فائدے کیلئے بیانیے کے طور پر استعمال کیا۔ معاشی اعشاریوں میں بہتری کے بیانات محض ڈھونگ تھے کیونکہ ان کی معاشی پالیسیاں مجموعی طور پر انتظامی ناکامی اور نااہلی کا شکار رہیں۔ بنیادی معاشی اعشاریے وہی رہے جو چالیس سال سے چلے آ رہے ہیں، ان میں کوئی بہتری نہیں ہوئی۔ ایسا بھی نہیں کہ کسی بھی گزشتہ حکومت میں حالات بہت اچھے تھے، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہو یا قرضوں کا حجم پی ٹی آئی حکومت کے دور میں معاملات میں بگاڑ میں تیزی آئی۔ تحریک انصاف نے کسی بھی گزشتہ حکومت کے مقابلے میں سب سے زیادہ قرضے لیے۔ کمزور حکومت میں اتحادیوں کو ساتھ رکھنے میں ناکامی، پنجاب میں عثمان بزدار کا بطور وزیر اعلیٰ انتخاب، جہانگیر ترین اور علیم خان کی ناراضگی، کابینہ اور وفاقی
وزراء کے اندرونی اختلافات، اپوزیشن سے محاذ آرائی کے نتیجے میں قانون سازی میں مشکلات ان چند سیاسی معاملات میں شامل ہیں جو عمران حکومت کی غلطیوں کا شاخسانہ ہیں۔ تحریک انصاف میں سب کو علم تھا کہ اسٹیبلشمنٹ سے تعلق سب سے اہم ہے لیکن اسی ایک تعلق کو تماشا بنا دیا گیا۔ دوسرا بڑا معاملہ اپوزیشن سے تعلق خراب کرنا تھا اور تیسرا معاملہ پنجاب میں عثمان بزدار کی تعیناتی کا تھا۔ تحریک انصاف کے گورنر پنجاب رہنے والے چوہدری سرور نے بھی کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ تعیناتی کو غلط فیصلہ قرار دیا تھا۔ تحریک انصاف کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ٹیم کا چناؤ بھی تھا۔ وزیر اعظم کی کابینہ غالباً اب تک کی کمزور ترین کابینہ تھی جس میں چند افراد، جیسے ڈاکٹر فیصل سلطان اور ثانیہ نشتر کے علاوہ زیادہ تر وزراء اپنے محکموں کے اہل نہیں تھے۔ تحریک انصاف کی بری کارکردگی کے تاثر کو ترجمانوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے بھی تقویت ملی جن کی توجہ کارکردگی دکھانے کی بجائے اپوزیشن کو رگڑا دینے پر مرکوز رہی۔
عمران خان کا دور حکومت ان کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ انڈیا، امریکہ سمیت تمام ممالک سے بہتر تعلقات قائم کئے جائیں گے لیکن حکومت کے اختتام پر پاکستان کی سیاست میں امریکہ پر حکومت گرانے کی سازش کے الزامات کی گونج تھی۔ گو کہ حکومت کے آغاز میں خارجہ محاذ پر بہتر کارکردگی دکھائی گئی۔ 2019 کے آغاز میں سعودی ولی عہد محمد بن سلیمان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر کا دورہ پاکستان یا اسی سال عمران خان کا دورہ امریکہ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات میں مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی کی پیشکش، پاکستان کو افغانستان میں امریکی انخلا کی کوششوں کے دوران بھی ایک اہم کردار حاصل ہوا لیکن دوسری جانب انڈیا سے تعلقات میں نریندر مودی کے وزیر اعظم منتخب ہونے سے پہلے وزیر اعظم کی امید کشمیر کے خصوصی سٹیٹس کو ختم کرنے کے بعد ختم ہو گئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی سرد مہری پلوامہ حملے اور بالا کوٹ فضائی حملے کے جواب میں پاکستان کی جوابی کارروائی اور انڈین طیارے کی تباہی کے بعد کشیدگی میں بدل گئی۔ خارجہ محاذ پر اپوزیشن نے حکومت پر چین، سعودی عرب اور امریکہ سے تعلقات خراب کرنے کا الزام درست لگایا تھا۔ ایک جانب جہاں امریکہ میں جوبائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد عمران خان کی فون کال اٹینڈ نہ کرنے کا معاملہ اٹھا تو دوسری جانب وزیر اعظم کی طرف سے امریکہ پر ان کی حکومت گرانے کی سازش کے الزام نے ان تعلقات کی خرابی پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ وزیر اعظم کے مشیر رزاق داؤد کی جانب سے چین اور سی پیک پر متنازع بیان ہو یا پھر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا سعودی عرب کے بارے میں بیان، حکومتی وزراء کے ایسے بیانات نے تعلقات پر اثر ڈالا۔ عمران حکومت کا دور میڈیا کے حوالے سے بھی متنازع رہا کبھی سوشل میڈیا پر ناپسندیدہ صحافیوں کی فہرستیں سامنے آئیں تو کبھی صحافیوں کے خلاف آن لائن ٹرولنگ کے الزامات لگے۔ آزادی اظہار رائے پر پابندی کی کوششوں سمیت ایسے قوانین متعارف کروانے کی بھی کوشش کی گئی جن پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر صحافتی تنظیموں نے احتجاج کیا۔ اس دور میں میڈیا پر جو قدغنیں لگیں وہ کسی بھی گذشتہ دور حکومت بشمول پرویز مشرف دور سے زیادہ تھیں اور بین الاقوامی اداروں (جو میڈیا کی آزادی کی مانیٹرنگ کرتے ہیں ان) کی جانب سے بھی کہا گیا کہ پاکستان میں آزادی صحافت گراوٹ کا شکار ہے۔ اس کی کئی وجوہات تھیں جن میں پہلے دو سال کئی اپوزیشن لیڈرز کے انٹرویوز پر براہ راست ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے پابندی لگائی گئی، چاہے آصف زرداری کا انٹرویو ہو، یا مریم نواز ہوں حالانکہ آئین یا قانون نہیں کہتا کہ کسی بھی سزا یافتہ شخص کا انٹرویو نہیں کیا جا سکتا۔ بعض ایسے صحافی جن کو حکومت کا ناقد سمجھا جاتا تھا ان کو میڈیا سے آہستہ آہستہ ہٹایا گیا جن میں بڑے نام شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے کیسز بھی سامنے آئے جن میں صحافیوں پر تشدد ہوا، سی سی ٹی وی فوٹیجز کے باوجود ملزمان کے خلاف کیسز انجام تک نہیں پہنچائے گئے۔ سوشل میڈیا پر پابندی لگانے یا اسے کنٹرول کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ ان حقائق کے باوجود یہ کہنا کہ اگلی بار دوتہائی اکثریت دی جائے محض لاڈلا پن ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button