ColumnImtiaz Ahmad Shad

سیاست، ریاست کیلئے خطرہ؟ .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

دنیا کی چند گنی چنی اعلانیہ ایٹمی طاقتوں میں شمار ہونے والے پاکستان کی سرحدیں افغانستان، چین، بھارت اور ایران سے ملتی ہیں اور اپنی جغرافیائی حیثیت کے باعث وہ بہت منفرد اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل ملک ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں سے اسلام کے نام پر آزادی حاصل کرنے اور برصغیر کے مسلمانوں کی ایک علیحدہ اور خود مختار ریاست کے طور پر قائم ہونے والا پاکستان آج تک بے پناہ مصائب میں گھرا ہو ا ہے،ہر گزرتے دن کے ساتھ آگے کے بجائے پیچھے جارہا ہے۔گزشتہ تین چوتھائی صدی کے دوران اس ملک پر آمروں کے اقتدار کا مجموعی عرصہ بھی عشروں میں بنتا ہے۔ اس لیے جب بھی یہاں جمہوریت آئی، مشکلات ہی کا شکار رہی اور المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں جمہوری طور پر منتخب کوئی ایک بھی سربراہ حکومت آج تک اپنی طے شدہ مدت اقتدار پوری نہیں کر سکا،اور بدقسمتی سے جو بھی اقتدار میں آیا وہ عقل کل بن گیا۔اپنے علاوہ سب میں اسے خرابیاں دکھائی دی۔احتساب کے ڈرامے سے لے کر انتقام کی سپر ہٹ فلم تک کہیں بھی پاکستان کی بھلائی نظر نہیں آئی۔ ان حالات نے ملکی معیشت اور سیاست کی گاڑی کو کئی مرتبہ چلتے چلتے رستے سے اتار دیا اور نتیجہ وہ سیاسی اور معاشی بحران رہے، جن کی تازہ ترین مثالیں حالیہ دنوںمیں بھی دیکھنے میں آ چکی ہیں ۔جس قدر بھونڈے انداز سے ریاست کو چلایا گیا یا چلایا جارہا ہے اس طرح تو کوئی کریانے کی دکان نہیں چلا سکتا یہ تو پھر ریاست ہے۔
کمزور سے کمزور انسان بھی کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے گھر کا چولہا جلے،اس کے بیوی بچے بھوکے نہ سوئیں،معاشرے میں وہ بہتر دکھائی دے مگر افسوس پاکستان کو چلانے والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں کہ ریاست کے باشندوں پر کیا بیت رہی ہے؟ اپنے ارگرد ممالک کو ترقی کرتے دیکھ کر یہ سوال ہر باشعور شخص کے ذہن میں وقتاً فوقتاً ابھرتا ہے کہ پاکستان اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی کیوں نہیں کر سکا خصوصاً اس بات سے لوگوں کو ایک اذیت سی ہوتی ہے کہ آخر ہم میں کیا خرابی ہے کہ ہم خطے میں بھی شاید سب سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
اگرچہ خطے میں پاکستان بھارت کے بعد ایک بڑا ملک ہے۔ ہماری آبادی 22 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے ہمارے پاس ایک مضبوط پروفیشنل آرمی ہے ،ہمارے پاس ایٹم بم ہے اس کے علاوہ دریا ہیں،خوبصورت وادیاں ہیں ،بلند پہاڑ ہیں، زراعت کیلئے بہترین زمین ہے،چار موسم ہیں، ہر طرح کی نعمتیں ہیںلیکن پھربھی ہم پسماندہ ترین ہیں اور ہمارا ملک ڈیفالٹ کے قریب تر ہے؟ کوئی مانے یا نہ مانے سب کو نظر آ رہا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے کی راہ پر گامزن ہے لیکن اب بھی جو کرنا چاہیے وہ نہیں کیا جا رہا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ ایک دو ماہ معاملات اسی طرح چلے تو پاکستان ڈیفالٹ کر جائے گا۔ حکومت کے اندر بھی اس حوالے سے بڑی پریشانی پائی جا رہی ہے، کچھ لوگ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ سعودی عرب سے کوئی دو چار ارب ڈالر ملنے والے ہیں لیکن کیااس سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟مانا کہ اس سے ڈیفالٹ کا خطرہ چند ایک ماہ کیلئے مزید ٹل جائے گا لیکن ہماری معاشی حالت مستحکم ہونے کے کوئی آثار نہیں۔ اسحاق ڈار کا تجربہ بھی ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔بات اب اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی نہیں رہی۔ ان حالات میںکسی کوبھی لے آئیں ہمارے حالات بہتر نہیں ہو سکتے کیوں کہ حالات بدلنے کیلئے سیاستدانوں اور مقتدر حلقوں کو اپنا رویہ بدلنا پڑے گا۔ اپنے اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر سوچنا ہو گا جس کیلئے بدقسمتی سے اس وقت تک بالکل بھی کوئی تیار نہیں۔ شہباز شریف حکومت کسی کرشمے کے انتظار میں ہے جبکہ عمران خان کہتے ہیں کہ حالات کی بہتری کا صرف ایک ہی حل ہے کہ فوری الیکشن کرائے جائیں اورحکومت اُنہیں سونپ دی جائے تو پھر دیکھیں سب کچھ کیسے بدلے گا!مگر سوال یہ ہے کہ کیسے؟
جن حالات میں پاکستان کی معیشت چلی گئی ہے عمران خان دوتہائی اکثریت بھی لے کرحکومت بنا لیں تو بھی کچھ نہیں بدلے گا کیوں کہ جن کو وہ مورد الزام ٹھہراتے ہیں وہ ریاست کے معاملات میں اتنا گہرا رشتہ رکھتے ہیں کہ انہیں کسی صورت کٹہرے میں نہیں لایا جا سکتا۔ اگر ایسا ہو بھی گیا تووہی کچھ ہو گا جو ہم نے عمران خان کی ساڑھے تین سال کی حکومت کے دوران دیکھا۔ ’’چور چور، ڈاکو ڈاکو‘‘کی گردانیں ہی سنائی دیتی رہیں گی، ایک طرف گرفتاری ہو گی دوسری جانب ضمانت، شہباز شریف جن کو بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور پر جانا جاتا تھا وہ بھی ابھی تک کچھ نہیں کر سکے۔وزیر اعظم بننے کا اُن کا شوق تو پورا ہوگیا لیکن عمران خان کی حکومت کو ختم کر کے پی ڈی ایم کی حکومت کے قیام کا تجربہ بھی ناکام ہوا اور
ہمارے سیاسی اور معاشی حالات بد سے بدتر ہو گئے۔ کسی سے بھی بات کر لیں، سب مانتے ہیں کہ ہمارے حالات کا واحدحل سیاست دانوں کا آپس میں مل بیٹھنا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے، یعنی یہ سب مانتے ہیں کہ ہماری عافیت و بھلائی اسی میں ہے کہ سب مل بیٹھ کر پاکستان کو اس مشکل سے نکالیں۔تاہم اس کا فیصلہ سیاستدانوں کو کرنا ہے اور اُنہی کو کرنا چاہیے لیکن صد حیف کہ سیاست دان آپس میں مل بیٹھنے کیلئے تیار نہیں اور ایسااس لیے نہیں کہ وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں بلکہ اس لیے کہ اگر وہ مل بیٹھے تو پاکستان اور عوام کے مفاد کا تحفظ تو ہو جائیگا لیکن اُن کے اپنے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات شاید پورے نہ ہوپائیں گے۔ساری لڑائیاں، ساری جنگ اقتدار کے حصول یا اس کے بچائو کیلئے ہے، ساری سیاست عہدوں کی ہے، الیکشن جیتنے کی ہے،اس کیلئے معیشت تباہ ہوتی ہے تو ہوتی رہے، پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان ہوتاہے توہوتارہے۔المیہ یہ ہے کہ سیاستدان وقت کے تقاضوں کے برعکس ایسا طرز عمل اختیارکئے ہوئے ہیںکہ جس سے سیاسی عدم استحکام بڑھے، آپس کی نفرت میں اضافہ ہو، مزید دوریاں پیدا ہوں۔ یہ سب کچھ پاکستان اور عوام کی خدمت کے نام پر ہو رہا ہے تو جناب ایسی خدمت اور ایسی سیاست کا کیا کرنا ہے جس نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچا دیاہے، ہماری دنیا میں کہیں عزت نہیں رہنے دی اور ہمیں بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ہر بار کی طرح اس دفعہ بھی یقیناً سیاستدان فیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ضد اور انا کے اتنے بڑے پہاڑ کھڑے کر رکھے ہیں کہ دوسری جانب انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ افغانستان کے بارے میں مشہور ہے کہ جب کبھی کوئی بیرونی قوت ان پر حملہ آور ہوتی ہے تو وہ آپس کے اختلافات بھلا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور بیرونی حملہ آور کو مات دیتے ہیں اس کے بعد بھلے وہ آپس میں لڑتے رہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک ہر سپر پاور نے ان پر قابض ہونے کے تمام حربے استعمال کیے مگر منہ کی کھانا پڑی۔ افسوس صد افسوس پاکستان پر ہر جانب سے حملے ہو رہے ہیں مگر یہاں اتحاد اور اتفاق نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔شاید ان تمام سیاستدانوں کی انا اور ضد ریاست پاکستان سے بڑی ہے۔یہ بات واضح ہے کہ سیاست نے ریاست کا وجود ختم کرنے کی ٹھان لی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button