Editorial

دہشتگردی کیخلاف حتمی جنگ کا نقطہ آغاز

 

بنوں آپریشن کے بعد آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا وزیرستان اور ایس ایس جی ہیڈ کوارٹرز کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور کامیاب آپریشن کے بعد فوج، عوام اور دہشت گردوں، سبھی کو یہ مضبوط پیغام گیاہے۔ آرمی چیف نے واضح کیا ہے کہ لڑائی کو دہشت گردوں کے گڑھ تک لے جائیں گے۔جنرل عاصم منیر نے دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو حتمی طور پر توڑنے کا پیغام بھی دیا ہے اور ان کے عزم سے واضح ہوتا ہے کہ بنوں آپریشن دہشت گردی کی جنگ کی آخری لڑائی کا نقطہ آغاز ثابت ہو گا۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر ریاستی رٹ چیلنج کرنے کا ماحول بنایا جا رہاہے اور بنوں آپریشن میں دہشت گردوں کی بڑی تعداد مارے جانے سے ٹی ٹی پی بھی اپنا بڑا نقصان سمجھ رہی ہے۔بنوں آپریشن بہترین پیشہ وارانہ طریقے اور انتہائی صبر آزما مراحل میں مکمل کیا گیااور فوج نے پیچیدہ ماحول یا کسی اور فیکٹر کا کوئی پریشر نہیں لیا۔بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کمپاؤنڈ میں مارے گئے چودہ دہشت گردوں کا تعلق بنوں اور ڈومیل سے جبکہ چار کا تعلق شمالی وزیرستان اور چھ کا لکی مروت سے بتایاگیا ہے۔ ترجمان پاکستانی فوج میجر جنرل احمد شریف چودھری نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ سی ٹی ڈی کمپاؤنڈ میں زیرِ تفتیش 35 دہشت گردوں نے ہتھیار چھین کر فائرنگ کی ،سی ٹی ڈی کے دو جوانوں کو ہلاک کیا اور باقی اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ دہشت گرد افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستہ مانگ رہے تھے مگر اس مطالبے کو رد کیا گیا۔دہشت گرد ہتھیار ڈالنے کو تیار نہ تھے اور اسی وجہ سے بھرپور آپریشن کیا گیا پھر تحریک طالبان پاکستان سے متعلق حکومت کی پالیسی کے حوالے سے سوال پر فوج کے ترجمان نے کہا کہ کسی مسلح جتھے کو پاکستان میں کسی قسم کی گنجائش نہیں دی جاسکتی اور ریاست کی رٹ کو ہر صورت قائم کیا جائے گا۔میجر جنرل احمد شریف چودھری کا یہ کہنا کہ دہشت گردی کی تازہ ہوا مغربی جانب سے چلی ہے مگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اِسے اُبھرنے نہیں دیں گے کیونکہ افواج پاکستان دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے لیے پُرعزم ہیں۔چونکہ تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک بار پھر
ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بنوں میں سکیورٹی فورسز کا آپریشن اور سربراہ پاک فوج کی جوانوں سے ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کو اب بھرپور جواب کے لیے ہمہ وقت منتظر رہنا چاہیے اور جیسا کہ آرمی چیف نے واضح بھی کیا ہے کہ لڑائی کو دہشت گردوں کے گڑھ تک لے جائیں گے، اِس سے عزم مصمم سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اب دہشت گردوں کو اُن کی پناہ گاہوں پر پہنچ کر جواب دیا جائے گا اُس جنگ کا، جس میں انہوں نے نہ صرف ریاست کی رٹ ماضی میں چیلنج کرنے کی کوشش کی اور اِس کے نتیجے میں بے گناہ پاکستانی شہریوں کا خون بہایا اور شہروں کو بارود کی بُو سے آلودہ کیا۔ ایک روز قبل ہی ہم نے اسلام آباد میں خودکش دھماکہ کے معاملے پر بات کی تھی، اگرچہ اِس کارروائی میں اسلام آباد پولیس کا ایک جوان شہید اور بعض دوسرے لوگ زخمی ہوئے لیکن دراصل اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت کو بڑے نقصان سے بچایا ہے، دہشت گردوں نے بلاشبہ ایسا ٹارگٹ مقرر کیا ہوگا جس کے ذریعے وہ زیادہ سے زیادہ نقصان کے ساتھ خوف و ہراس پیداکرسکیں لیکن ان کا مذموم منصوبہ خاک میں مل گیا، اس سے چند روز قبل ہی بنوںمیں سی ٹی ڈی کے تحقیقاتی سینٹر سے دہشت گردوںنے فرار ہونے کی کوشش کی مگر پاک فوج کی بروقت کارروائی کے نتیجے میں افغانستان پہنچنے کی بجائے وہاں پہنچ گئے جو ان کا اصل ٹھکانہ تھالہٰذا دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جب سے ٹی ٹی پی نے حکومت پاکستان کے ساتھ مذاکرات ختم کرکے کارروائیوں کا اعلان کیا ہے تب سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد کسی نہ کسی اہم مقام کو نشانہ بنانے کی تاک میں رہتے ہیں لیکن بنوںمیں پاک فوج نے فوری جوابی کارروائی کرکے ٹی ٹی پی کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ بلاشبہ کسی مسلح جتھے کو ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، خصوصاً پاک فوج نے دہشت گردی کی طویل ترین جنگ میں کامیابی بڑی محنت اور قربانیوں سے حاصل کی ہے لہٰذا قطعی ممکن نہیں کہ شہدا کی قربانیاں رائیگاںجانے دی جائیں اور دہشت گردوں کے وجود اور اُن کے مطالبات کو تسلیم کرلیا جائے بلکہ وطن عزیز میں وہی سب کچھ ہوگا جو آئین و قانون کے مطابق ہوگا ، اگر کوئی ریاست کے مفادات کو کسی غیر ملکی طاقت کے ایما پر چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اِسے دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیاں اور اُن کے نتیجے میں دہشت گردوں کو پہنچنے والے نقصان کو بھی قبل ازیں مدنظر رکھنا چاہیے۔ پاک فوج کسی صورت دہشت گردوں کو اُن کے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دے گی اور سربراہ پاک فوج نے بھی عزم مصمم کے ذریعے یہی پیغام دیا ہے کہ لڑائی دشمن کے گڑھ میں ہوگی یعنی اب دہشت گردوں کو جواب ان کے پاس خود پہنچ کر دیا جائے گا۔ میجر جنرل احمد شریف چودھری کے مطابق دہشت گرد افغانستان جانے کے لیے محفوظ راستہ مانگ رہے تھے، یعنی انہیں سرحد پار افغانستان میں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں نہ تھااور نجانے کتنے ہی ایسے دہشت گرد اور گروہ ہیں جو وہاں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں۔ چند روز قبل ہی افغانستان کی جانب سے سرحد پر نصب باڑ کو توڑنے کی کوشش کی گئی اور جب انہیں روکا گیا تو انہوںنے زبردست مزاحمت کی اور پاکستان کے شہری آبادی والے حصوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں کوئٹہ شہر میں ایمرجنسی سی صورتحال تھی، اگرچہ منہ توڑ جواب کے بعد دوسری طرف سیز فائر کا اعلان کردیاگیا مگر ایک دو روز بعد دوبارہ ایسی ہی کارروائی کی گئی مگر اِس بار ان کا لحاظ کرنے کی بجائے انہیں منہ توڑ جواب دے کر خاموش کرادیاگیا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاںکرنے والے کیوں افغانستان کو اپنے لیے محفوظ ملک سمجھتے ہیں اور وقفے وقفے سے کیونکہ وہاں سے مسلح حملہ آور پاکستانی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنارہے ہیں اِس کا تفصیلی جواب افغان وزارت خارجہ کی جانب سے آنا چاہیے کیونکہ ایک طرف پاکستان لاکھوں بلکہ اب کروڑوں افغانوں کو اپنی سرزمین پر پناہ دیکر وسائل کا حصہ دار بنایا ہوا ہے اور اب بھی عالمی برادری کو بارہا متوجہ کررہا ہے کہ افغان عوام کی حالت زار پر رحم کھائے تو دوسری طرف افغانستان کی طرف سے ہی پاکستان پر حملے بھی کیے جارہے ہیں اور دہشت گرد یہاں پاکستان میں کارروائیاں کرنے کے بعدفرار ہونے کے لیے افغان سرزمین کو موزوں سمجھ رہے ہیں۔ افغان حکام کے لیے متذکرہ صورتحال لمحہ فکریہ ہونی چاہیے کہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کی جارہی ہیں اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوںمیں ملوث دہشت گرد افغانستان میں اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں ہیں، دونوں ملکوںکے درمیان تعلقات کو ایسے واقعات نقصان پہنچاتے ہیں لہٰذا افغان حکام کو دہشت گردعناصر سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور دہشت گردوں کے لیے افغانستان کی سرزمین تنگ کردینی چاہیے، ہمیں یقین ہے کہ اب شہ سرخیاں چیخ چیخ کر دہشت گردوں کے قلع قمع کی خبر دیں گی اور ہم دہشت گردوںکو ان کی کمین گاہوں تک پہنچ کر مارئیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button