ColumnNasir Sherazi

ڈوب مرنے کا اور مقام کیا ہوگا؟ ۔۔ ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

صدیوں سے شیر جنگل کا بادشاہ چلا آرہا ہے، اب تو مجھے یقین ہوچلا ہے کہ جو مجلس شوریٰ شیر کو جنگل کا بادشاہ منتخب کرتی ہے، اس کے بیشتر ارکان کو شیر قبل از وقت خرید لیتا ہے اور وہ ہمیشہ شیر کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں، آج تک چیتا، ہاتھی، گینڈا یا زرافہ جنگل کے بادشاہ نہیں بن سکے، اس سے ایک اور بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ مذکورہ جانوروں کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے، ان کے پاس سرمائے کی کمی ہے، اس کے ساتھ ساتھ عقل کی کمی بھی ہے ورنہ وہ سب اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ سرمایہ ایک جانور کے پاس جمع کراتے پھر اس مشترکہ سرمائے سے وہ جنگل کے بادشاہ کی دوڑ میں شامل ہوتے اور اپنی اپنی باری پر بادشاہ بن جاتے حیرت کی بات ہےکہ جنگل کے تمام جانور ہر مرتبہ شیر کی بادشاہت کو چپ چاپ تسلیم کرلیتے ہیں کسی نے آج تک شیر کے کرتوتوں سے اہل جنگل کو آگاہ نہیں کیا، شیر کا میڈیا سیل صدیوں سے شیر کی بہادری، جرأت و ہمت کی فرضی داستانیں سناسنا کر جنگل بھر کو مرعوب کررہا ہے جبکہ شیر درحقیقت بہت ہی کمینہ اور بزدل جانور ہے، وہ کبھی تنہا شکار نہیں کرتا ، اُس نے اول تو یہ ذمہ داری شیرنی کے سپرد کر رکھی ہے وہ شکار مارے بچوں کو کھلانے کے ساتھ ساتھ اپنے پیٹ کا جہنم بھرے اورساتھ ہی ساتھ شیر کی شکم سیری کا انتظام بھی کرے، کبھی کبھار شیر کا موڈ ہو تووہ اپنے بھائیوں اور کزنز کو ساتھ لے کر شکار پر نکلتا ہے، سب ایک غول کی صورت کسی غریب مسکین جانور کا پیچھاکرتے ہیں کوئی
اُسے ٹانگوں سے پکڑ لیتا ہے، کوئی سینگوں سے کوئی اُسے گلے سے پکڑ لیتا ہے، کوئی اس کی عزت پر حملہ آور ہوتا ہے تو کوئی اپنے پنجے گاڑ دیتا ہے۔ اُسے گراکرسب خوشی سے پھولے نہیںسماتے سب مل کر اس کی بوٹیاں اڑاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بہادر ہیں۔ وہ بہادر ہوں تو ایک کے مقابل ایک آئے، یوں لگ پتا جائے کہ شیر صاحب کتنے پانی میں ہیں یا ان کے پلے کہیں کچھ پانی ہے بھی کہ نہیں۔
شیر کی جھوٹ موٹ کی بہادری کا بھرم وائلڈ لائٹ پر بننے والی فلموں نے کھول کر رکھ دیا ہے، ایک شیر کبھی ایک بھینسے کے مقابل اول تو آتا ہی نہیں اس کی شامت اعمال اگر ایسا ہو بھی جائے تو اکثر دیکھنے میں آیا کہ بھینسے نے شیر کو اپنے سینگوں پر اٹھاکر متعدد مرتبہ ایسے زمین پر پٹخا کہ اُسے بھاگتے ہی بنی جنگل کے تمام جانور شیر کی اس کمزوری سے واقف ہوتے ہیں کہ شیر پانی سے بہت دور بھاگتا ہے وہ شکار کا گوشت کھانے کے بعد پانی پینے جوہڑ تک ضرور آتا ہے گھر کے راستے میں اگر ندی
آجائے تو اُسے تیر کر عبور بھی کرلیتا ہے لیکن وہ یہ سب کچھ بادل نخواستہ کرتا ہے اُسے پانی میں گھسنا پسند نہیں اور پانی میں گھس کر شکار کوپکڑنا تو اس کے بس کی بات ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جانور اور بالخصوص بھینس فیملی میں سے کسی کو شیر دبوچ بھی لے تو اس جانور کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس کی گرفت میں آنے کے باوجود اُسے اپنے وزن کے زور پر گھسیٹ کر پانی میں لے جائے، جونہی شکار پانی میں گھستا ہے شیر اُسے چھوڑ کر دورہٹ جاتا ہے، شیرکی اس عادت سے معلوم ہوتا ہےکہ اُسے گندہ رہنے کی عادت ہوتی ہے وہ کہنے کو تو بلی کا بھانجا ہے لیکن بلی کی طرح اسے اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھنا پسند نہیں دوسرے لفظوں میں آپ اسے غلیظ جانور کہہ سکتے ہیں وہ سست الوجود بھی ہے شاید نشئی بھی، دن اللہ تعالیٰ نے کام کے لیے بنایاہے وہ تمام نشیوں کی طرح سو کر گذارتا ہے جلد بیدار ہو بھی جائے تو اسوقت اٹھتا ہےجب کام کا وقت گذر چکا ہوتا ہے۔
شیر کوشکار کا خون پینا اور گوشت کھانا بہت مرغوب ہے، ان عادات کے مالک کو جنگل کا بادشاہ بنانا کہاں کی عقل مندی ہے عین ممکن ہے جنگلی جانوروں نے انسانوں کی زندگی کا بغور مطالعہ کیا ہو اور اس نتیجے پر پہنچے ہوں کہ انسان جسے اپنا بادشاہ بناتے ہیں اُس میں یہ خوبیاں بکثرت ہوتی ہیں پس انہوں نے اپنی خوبیوں والے جانور کو بادشاہ بنانے کا احمقانہ فیصلہ کرلیا ہے اور آج تک اپنے اس فیصلے پر قائم ہیں پس انسانوں کو چاہیے کہ وہ کسی ایسے شخص کو بادشاہ بنائیں جس میں مذکورہ خوبیاں نہ ہوں یعنی اسے رعایا کا خون پینا، گوشت نوچنا، ایک غول کی صورت میں اس پر حملہ آور ہونا، اپنے آپ کو غلیظ رکھنا، غلیظ حرکتیں کرنا پسند نہ ہوں بلکہ وہ نرم دل ہو، عام انسانوں کی طرح رہتا ہو، عام انسانوں کی طرح سوچتا ہو، ایمان دار ہو دوسروں کا حق غصب کرکے خوش نہ ہوتا ہو جو اپنے لیے پسند کرتا ہو وہی دوسروں کے لیے چاہتا ہو۔ دوسروںکی عزت کرتا ہو اسے اپنی عزت کا بھی پاس ہو اس کے دوست مشیر، وزیر عزت دار افراد ہوں، بے غیرت نہ ہوں وہ بے غیرتی پھیلانے کی بجائے اسے ختم کرنے پر یقین رکھتے ہوں، وہ اپنے لیے خاص قانون اور رعایا کے لیے دوسرے قانون کی خواہش نہ رکھتا ہو، وہ چور چور کا شور مچاکر اپنی چوریوں سے توجہ ہٹانے کے جتن نہ کرتا ہو، اگر اس سے اس کے لمبے کُرتے کا کوئی حساب مانگے تو بلا چوں چرا حساب دے جواب میں یہ نہ کہے کہ ’’میرا کرتا میری مرضی‘‘اُسے کتے پالنے ان کی نگہداشت پر گھنٹوں صرف کرنے امریکہ کو خوش کرنے کے لیے کتوںکو اپنے ساتھ بستر میں سلانے کی بجائے انسانوںکی خدمت کرکے خدا کو خوش کرنے کا شوق ہو، اربوں ڈالر کے قرض کو ترقی کا زینہ نہ سمجھے بلکہ اپنی محنت کی حلال کمائی پر انحصار کی خو ڈالے، صرف امر بالمعروف کی گردان نہ کرے ، صرف اس بات کو حق قرار نہ دے جو اپنے حق میں ہو، اسے اتنا شعور ہو کہ مثبت خیال ہی الفاظ کا روپ دھاریں پھر یہ الفاظ اعمال کی شکل اختیار کریں تو اسے شرمندگی نہ ہو، اعمال کردار میں ڈھل کر اس کی پہچان بن جائیں تو اُسے رسوائیوں کا سامنا نہ ہو پھر بھی اگر کوئی اس پر اخلاق باختہ آڈیو یا ویڈیو کا الزام دھردے تو یملا بن کر خاموش نہ ہوجائے بلکہ خود مدعی بن کر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے اور درخواست کرے کہ ان کا فرانزک کرایا جائے، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیاجائے، اگر ہم کسی ایسے بادشاہ کا انتخاب کرنے میںکامیاب ہوگئے تو اس کا اثر جنگل کے جانوروں پر بھی پڑے گا وہ بھی کسی ظالم، خون آشام، بزدل ہڈ حرام جانور کی بجائے کسی حقیقی دلیر، منصف اور اہل جنگل کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے جانور کوبادشاہ بنانے کے لیے سوچیں گے، اگر اس کے برعکس ہوا یعنی جانوروں نے انسان سے پہلے اپنے رویے پر نظرثانی کرلی اور وہ انسان سے پہلے شیر کی بجائے کسی ڈھنگ کے جانور کو بادشاہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو پھر انسانوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہوگا۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر ڈوب مرنے کا مقام آگیا تو کوئی ازخود اختیار کے تحت بنا ہوا فرزند راولپنڈی یہ نہ کہہ دے کہ انسان کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے سےکوئی نقصان نہ ہوگا، بالکل ایسے جیسے اُس نے کہا کہ خان کی ہزار آڈیو یا ویڈیوز بھی آجائیں ، اسے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ڈوب مرنے کا کوئی اور مقام کیا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button