ColumnM Anwar Griwal

موسمی ،سیاسی دُھند اور حکومتی بے حسی! ۔۔ محمد انور اگروال

محمد انور گریوال

 

یار لوگوں کو سردی کا انتظار تھا، دسمبر گزرنے کو تھا مگر لحاف تک نوبت نہیں آئی تھی۔بس دسمبر کی شاعری وغیرہ پر ہی گزارہ تھا، سردی کے بغیر ہی دسمبر کے نام پر سردی پر شاعری ہوتی رہی ، بس رسمِ دنیا نبھانے کے سلسلے تھے۔ سردی آئی تو یک دم ہی آگئی، اس نے آنا ہی تھا۔ سردی لانے میں دُھند کا اہم کردار ہے، دُھند بھی ایسی کہ موٹر وے کو بند کر دیا گیا، ائیر پورٹ پر جہازوں کی آمدورفت کم ہوگئی، ریل گاڑیاں گھنٹوں تاخیر کا شکار ہونے لگیں۔دھند سے جہاں انسان لطف اندوز ہوتا ہے، گرم لحافوں میں سمٹ کر آرام کرتا ہے، خشک میوہ جات کے مزے لیتا ہے، ہیٹر جلا کر ماحول کی ٹھنڈک کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوٹ ، مفلر ، جیکٹ وغیرہ پہن کر خود کو ذرا وی آئی پی تصور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہاں دھند سے کاروبارِ زندگی معطل ہوکر رہ جاتے ہیں، سفر مشکل تر ہو جاتا ہے، کام رُک جاتے ہیں، مزدوری کے مواقع کم ہو جاتے ہیں، اور سب سے خطرناک بات یہ کہ سڑکوں پر حادثات کے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے، جس سے بہت سے انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔سردی اور دھند کے مندرجہ بالا دونوں پہلو دو مختلف طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔
دُھند تو موسمی تغیر کا ایک استعارہ ہے،پیارے پاکستان میں ہر موسم کی جھلک اور ادا موجود ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں سمندر، صحرا، میدان، پوٹھوہار سے لے کر برفیلے پہاڑوں، آبشاروں، دریائوں اور جنگلات سمیت ہر نعمت مہیا کر رکھی ہے، جن میں سے ہر عنصر الگ موسم کا تقاضا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بیک وقت بھی کئی موسم دیکھے اور محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ مگر دو موسم بہت پریشانی کا موجب بنتے ہیں، ایک دھند اور دوسرے گرمیوں میں سیلاب۔ دھند میں سوائے احتیاط کے انسان اور کچھ نہیں کر سکتا۔ سو ہر انسان اپنی ضرورتوں اور حالات کے مطابق دھند سے نبرد آزما ہوتا ہے، غریب اور عام آدمی نے اپنا نظامِ زندگی چلانے کیلئے لازمی طور پر گھر سے نکلنا ہے، کہ وہ روز کی روزی روز ہی کماتا ہے، نہیں نکلے گا، تو بچوں کا بِلکنا نہیں دیکھ سکے گا، اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ بھوکے پیٹ نہیں رہ سکے گا۔ پھر دُھند بھی ایسی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے، حالات کی سختی اور مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ حادثات کا شکار بھی یہ غریب ہی ہوتے ہیں۔ دُھند جہاں امیر طبقے کیلئے لطف اٹھانے کا ذریعہ بنتی ہے، وہیں غریب کیلئے وبالِ جان ہوتی ہے۔
موجودہ حالات میں پاکستان کی سیاست بھی دُھند کے ماحول سے مختلف نہیں۔ جس طرح دھند میں چند گز آگے تک دکھائی نہیں دیتا، اسی طرح سیاست میں چند منٹ آگے کا کسی کو علم نہیں۔ گویا سیاست میں بھی سب کچھ دھندلایا ہوا ہے۔کون سی اسمبلی ٹوٹے گی، کون سے ’معزز‘ ممبران استعفے دیں گے، کہاں گورنر راج لگے گا، کہاں ، کس وقت، کون معطل ہو جائے گا، کون فارغ ہو کر گھر کی راہ دیکھے گا؟ سب کچھ غیر یقینی ہے۔ اپنے معاشرے میں ’’سیاستدان‘‘ کا لفظ بڑی حد تک فراڈ اور چکر دینے والے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اِسی نسبت سے یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ’’فلاں نے سیاسی بیان دیا ہے‘‘۔ یعنی معاملات میں حقیقت یا سنجیدگی وغیرہ کی بجائے دکھاوے کی کہانی ہے جو دوسروں کو دکھا اور سُنا کر بیوقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔عوام نہ صرف بھر پور طریقے سے بے وقوف بنتے ہیں بلکہ اپنے اپنے ’’سیاستدان‘‘ قائد کے ’’سیاسی‘‘ بیانات
کی تشریح اور ترویج پر جُت جاتے ہیں۔ اختلافات یہاں تک پہنچتے ہیں کہ نفرتوں کی دیواروں گھروں کے اندر بھی کھڑی ہو رہی ہیں، گھروں میں ’’خانہ جنگی‘‘ کا ماحول بن رہا ہے۔
سیاسی قائدین نے سیاست کو مکروہ بلکہ غلیظ عمل بنا کر رکھ دیا ہے۔ غیر یقینی صورت حال کے ساتھ ساتھ غیر سنجیدہ حالات میں شرمناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور دُھول چٹانے کیلئے ہر قسم کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں، آئینی و قانونی ماہرین اپنے اپنے مفاد کی تشریح کرنے میں مصروف ہیں، ایک طرف ایک بڑے خان صاحب اسمبلیاں توڑنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف انہی کے وزرائے اعلیٰ اس ’کارِ خیر‘ میں روڑے اٹکانے کے چکر میں ہیں، پنجاب حکومت جمعۃ المبارک کو اَنا کی بھینٹ چڑھنی تھی، اب وزیراعلیٰ ،گورنر اور سپیکر وغیرہ کی باہمی چپلقش (جسے دراصل ’’چپّل کش‘‘ کہنا مناسب ہوگا) کی وجہ سے معاملہ عدالت پہنچ گیا، اور خان کا وعدہ یا خواہش خود اُن کے اپنے وزیر اعلیٰ کی خواہش کے سامنے یو ٹرن لینے پر مجبور ہو گئی۔ اگلے دنوں میں کیا ہوتا ہے، کچھ بھی معلوم نہیں کہ سیاسی دھند میں حدّ ِ نظر صفر ہے۔
ٹانگیں کھینچنے، دھوکہ دینے، بے وفائی کرنے اور آئین کی من مانی تشریح پر بات ختم نہیں ہو رہی۔ مرکز اور پنجاب نے استحصال، اقربا پروری اور سیاسی لوٹ مار کی انتہا کر رکھی ہے۔ آج کل جبکہ ملکی معیشت تمام خطرناک سرحدیں عبور کرتی جارہی ہے، ایسے میں حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں سے ایک روپیہ بھی کم نہیں کیا۔ کیا معاشی حالات میں سخت خرابی کے بعد ایک سادہ سا گھر بھی اپنے بجٹ پر نظر ثانی نہیں کرتا؟ غیر ضروری اخراجات میں کمی نہیں کی جاتی؟کیا مرکزی یا صوبائی حکومتوں میں سے کسی نے وزراء ، ممبرانِ اسمبلی، مشیروں وغیرہ کی بے جا اور ظالمانہ تنخواہوں اور مراعات میں ایک دھیلے کی کمی کا اعلان کیا؟ چھوڑیئے، ستم نہیں ، ظلم سے بھی آگے شاید بے حسی کا لفظ کچھ مناسب ہو۔ مرکز اور پنجاب میں گزشتہ تین روز پہلے بھی مشیر بھرتی کئے جارہے تھے۔ ـجب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں، حکمرانوں کو کشتی ڈوبنے سے کوئی غرض نہیں، کہ تمام کی تجوریاں محفوظ ہیں۔ یہ سارا بوجھ عوام پر ڈال رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہی ستم رسیدہ عوام سیاستدانوں کی شاطرانہ چالوں پر تالیاں ہی نہیں پیٹ رہے، بھنگڑے ڈال رہے ہیں، وقت سر پیٹنے کا ہے۔ سیاستدان ایک بھیانک کھیل کھیل رہے ہیں اور عوام اُن کی اِسی کارکردگی پر داد دے رہے ہیں۔ دُھند موسم کی ہو یا سیاست کی، ملبہ عوام پر گر رہا ہے، عوام رو بھی رہے ہیں اور اپنی پسند کے سیاستدانوں کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button