ColumnJabaar Ch

لاہوردا’’پاوا‘‘۔۔۔!۔۔ جبار چوہدری

جبار چودھری

 

لاہور،لاہورایسے ہی تھوڑی ہے،لاہور پاکستان کا دل ہے۔لاہور پاکستان میں سیاسی تحریکوں کا مرکزرہتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جس تحریک کو لاہور قبول کرلے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتی۔ بے نظیر کا لانگ مارچ ہویا عدلیہ بحالی تحریک کا لانگ مارچ ،سب کا آغاز اسی شہر سے ہوا۔ لاہور سیاسی سوجھ بوجھ میں انتہائی زرخیز،لاہوری سیاسی طورپرانتہائی باشعوربھی،پاکستان پیپلزپارٹی جو آج صرف سندھ تک سمٹ گئی ہے اس کا جنم لاہور میں ہواتھا۔ستر کی دہائی میں پورے پنجاب کی طرح لاہور نے بھی کھلے دل سے پاکستان پیپلزپارٹی اور بھٹوصاحب کو یہاں خوش آمدید کہا۔ویسے تو ان کا نعرہ روٹی کپڑااور مکان ، ان کی سیاست کا طرز عوامی اور سب سے بڑھ کر پاکستان کی تاریخ کا دھارا کہ ملک آمریت سے جمہوریت کی طرف سفرشروع کررہا تھا اور اوپر سے بھٹو صاحب کی اپنی شخصیت۔یہ سب عناصر ملے تو لاہور پر بھی پیپلزپارٹی کا رنگ چڑھ گیا۔پیپلزپارٹی نے تلوار کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑااورلاہورکے لوگوںنے اسی نشان اوربھٹوصاحب کی تصویرکے علاوہ کسی امیدوار کی شکل دیکھے بغیرہی ووٹ ڈالے۔اُس وقت اگرکوئی لاہور کا پاواتھا توبھٹو صاحب اوران کی پیپلزپارٹی تھی۔
بھٹوصاحب کو جس طرح راستے سے ہٹایا گیا وہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔ ان کو پھانسی ہوئی اورملک میں دوبارہ آمریت آگئی۔ضیاالحق نے اپنے دور میں شریعت سے لیکر اسلامی نظام کے ریفرنڈم تک ہر وہ اقدام کیا جس سے پاکستان سے بھٹوصاحب اور ان کی پارٹی کے نقوش مٹائے جاسکیں۔انیس سو چھیاسی میں جب ضیا کی آمریت زوال کی طرف گامزن تھی تو بھٹوکی صاحبزادی بے نظیر بھٹونے جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آنے کا اعلان کیا توانہیں بھی لاہورنے ہی خوش آمدید کہا۔لاہور نے ایسا استقبال کیا کہ تاریخ بن گئی۔ مینار پاکستان پر آج بھی جب کوئی اجتماع ہوتا ہے توانیس چھیاسی والے بے نظیر بھٹوکے جلسے کو لازمی یاد کیا جاتا ہے۔یہ کہا جاتا ہے کہ لاہور کی تاریخ کا اب تک بھی سب سے بڑااجتماع وہی ہے۔بے نظیر بھٹو کو امید تھی کہ لاہور ان کی پارٹی کا اسی طرح گڑھ بن جائے گا جس طرح وہ بھٹوصاحب کے دورمیں تھا لیکن لاہور آہستہ آہستہ اپنا’’پاوا‘‘تبدیل کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔
لاہور میں آنے والی تبدیلی کی وجوہات کئی ہوسکتی ہیں لیکن جو مجھے سمجھ آیا ہے وہ یہ ہے کہ ضیا کے مارشل لاکے دورمیں لاہورنے بھی وہ تبدیلی قبول کی جو اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ملک میں لانا چاہتی تھی۔بھٹوصاحب کی پھانسی کو پیپلزپارٹی بمقابلہ اسٹیبلشمنٹ لیا جاچکا تھااورپنجاب کی تاریخ تو سب کومعلوم ہی ہے کہ پنجاب میں پاک فوج کی محبت پہلے دن سے ہی سب سے زیادہ رہی ہے۔یہ خطہ پرواسٹیبلشمنٹ کہلاتا ہے اس لیے پیپلزپارٹی سے نفرت نے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لیا تو لاہور نے بھی اس کا اثرقبول کیا۔دوسری طرف جنرل جیلانی کے زیر سایہ لاہورکا ایک اور’’پاوا‘‘پروان چڑھایا جارہا تھا۔انیس سو اٹھاسی کے الیکشن ہوئے تو لاہور سمیت پاکستان کے لوگوں نے میاں نواز شریف کو سیاست کی پہلی صفوں میں کھڑاپایا۔وہ دن تھا کہ لاہور نے مڑکرنہیں دیکھا۔پھر تیس سال تک لاہورکا ایک ہی ’’پاوا‘‘رہا اور وہ تھا میاں نوازشریف اور اس کی پارٹی مسلم لیگ ن۔
نوے کی دہائی ہو یا چار سال پہلے ہونے والے الیکشن۔لاہوروالوں نے میاں نوازشریف کے ساتھ ہمیشہ وفاداری کی۔کسی اور کو سیاسی آپشن کے طوپرنہ دیکھا نہ قبول کیا۔نوازشریف نے بھی لاہور کو اپنا سمجھا۔اس کی ترقی کاخیال رکھا۔ اندرون لاہورکے علاقوں کو خاص طورپراپنے ساتھ۔ وہیں سے خود بھی الیکشن لڑااورفیملی کے دوسرے لوگ بھی اندرون لاہور سے الیکشن لڑتے اور جیتتے رہے۔ لاہور کی تنظیم سازی اور لوگوں سے رابطہ کاری کا کام حمزہ شہبازکے سپرد تھا۔نوازشریف اس کام کی خبر گیری باقاعدگی سے کیا کرتے تھے۔لاہوری اپنے اس ’’پاوے‘‘سے اس قدر مانوس تھے کہ مشرف کے مارشل لامیں جب شریف فیملی نے’’ ڈیل‘‘ کرکے جیل سے سعودی عرب جانے کا اچانک فیصلہ کیا اورپارٹی کے باقی لوگوں کو جیلوں میں چھوڑکرخصوصی طیارے سے اپنا سامان اور دولت سمیٹ کر سعودی عرب چلے گئے توباقی لوگوں نے اس کو ڈیل اور بزدلی کہا لیکن لاہوریوں نے اس کو میاں صاحب کی مجبوری قراردے کر قبول کیا۔اس مشکل وقت میں جب ان کے پاس میاں صاحب سے جان چھڑانے کاموقع تھا لاہوروالوں نے ان سے ہمدردی دکھائی اور ان کا سعود ی عرب جانا جائزسمجھا اور کبھی اس کو ڈیل تسلیم نہ کیا۔
دوہزار دومیںپرویز مشرف نے الیکشن کروائے تو نون لیگ کو توڑدیا گیا۔نون لیگ کے اندر سے قاف لیگ نکال کر چودھریوں کو سالار بنادیا۔اس وقت کے الیکشن نون لیگ کا اب تک کا سب سے بڑا امتحان تھا لیکن لاہور اس امتحان میں بھی سرخرو ہوا۔ مارشل لامیں ہونے والے انتخابات میں نون لیگ پورے ملک سے شکست کھا گئی لیکن لاہور سے جیت گئی۔قومی اسمبلی میں نون لیگ کی جو بھی نمائندگی تھی وہ لاہور سے تھی۔کوئی ایک آدھ سیٹ پنجاب کے دوسرے علاقوں سے جیتی جاسکی۔ میاں صاحب دوہزار سات میں واپس آئے تو لاہورنے پھر انہیں قبول کیا۔دوہزار آٹھ میں الیکشن ہوا۔پورا ملک بے نظیر بھٹوکی شہادت کے غم میں تھا۔ عوام میں پیپلزپارٹی سے ہمدردی کی لہر تھی۔ پیپلزپارٹی الیکشن جیت گئی مرکز میں ان کی حکومت بن گئی لیکن لاہورمیں نون لیگ ہی لاہور دا’’پاوا‘‘ بن کر قائم رہی۔دوہزار تیرہ کے الیکشن میں لاہور کے نئے ’’پاوے‘‘ نے جنم لینا شروع کردیا تھا۔اس الیکشن میں لاہور کے دوحلقوں میں نون لیگ کو شکست ہوگئی۔تیسرے حلقے کا نتیجہ متنازع رہا۔ مرکز اور پنجاب میں نون لیگ کی حکومت بن گئی تو اس شکست کو نون لیگ نے اپنی ناکامی کے طور پر قبول کرنے سے انکار کردیا۔یہی وہ نقطہ تھا جب لاہورکا نون لیگ سے رومانس پھیکا پڑنے کا آغاز ہوگیا۔دوہزار اٹھارہ میں یہ دو نشستیں بڑھ کر چار ہوگئیں اور صوبائی اسمبلی میں بھی نون لیگ کی نشستیں کم ہونا شروع ہوگئیں۔
نوازشریف جب دوہزار انیس میں جیل سے نکل کر علاج کی خاطر لندن گئے تو اس وقت بھی لاہورنے ان کی مجبوری ہی کہا لیکن جب وہ واپس نہیں آئے تو لاہوریوں نے اس کو بزدلی سمجھا۔ سب نے کہا کہ آصف علی زرداری ٹھیک کہتے ہیں کہ میاں صاحب جیل سے ڈرتے ہیں۔ نواز شریف نے لندن کو لاہور پر ترجیح دی تو لاہور یوں کے دل سے بھی اترنا شروع ہوگئے۔یہ ایک فطری عمل ہے وہ لاہور جس نے مارشل لاجیسے مشکل دورمیں بھی نوازشریف اور نون لیگ کا ساتھ نہ چھوڑا وہ اب نوازشریف کو ماضی سمجھ کر آگے بڑھ رہے ہیں کہ نون لیگ کے کارکنوں کی خبر لینے والے سب لندن جابیٹھے ہیں۔ حمزہ شہبازاپنے حلقے اور لاہور کے کارکنوں سے رابطے کب کے توڑ چکے۔ مریم نوازبھی سب کو یہاں چھوڑکرلندن کے عالیشان محلوں کی نشین ہوگئیں۔لاہورمیں نون لیگ کی ناکامی کا مظاہرہ ہم نے چارماہ پہلے پنجاب اسمبلی کے ضمنی الیکشن میں دیکھا۔پنجاب کے بیس حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوئے ان میں سے چار حلقے لاہورکے تھے۔نون لیگ لاہور کے چارمیں سے تین حلقے ہار گئی۔جو ایک سیٹ جیتی اس میں بھی نون لیگ کے ووٹ بینک کا اثر کم اور اسدعلی کھوکھر کی ذات کاجادو زیادہ تھا۔اسد کھوکھر اس حلقے میں اپنی برادری اور عوام میں بہت مقبول ہیں۔
اس وقت لاہور میں قومی اسمبلی کی چار کے علاوہ باقی ساری سیٹیں نون لیگ کے پاس ہیں لیکن اب لاہور کے عوام نون لیگ کاساتھ چھوڑرہے ہیں۔ میں یہ بات فی الحال انتخابی پیمانے پرنہیں ناپ رہا لیکن لاہور کی گلیوں اور سڑکوں سے جو آوازیں آرہی ہیں وہ بتارہی ہیں کہ لاہور دا ’’پاوا‘‘ بدل رہا ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ عدم اعتمادکی تحریک منظورہونے کے بعد دیکھا گیا جب اس رات بن بلائے لبرٹی چوک میں احتجاجی مظاہرہ ہوا۔پھر احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔اب لاہور کی سڑکوں اور گھروں پر پی ٹی آئی کے جھنڈے لگے نظر آتے ہیں۔پورے ملک کی طرح لاہورمیں بھی تیس سال بعد نیالاوانکل آیا ہے۔یہ کپتان کا لاوا ہے۔اختر لاواتوصرف دکھاوا ہے اب لاہور کا اگلا’’پاوا‘‘عمران خان ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button