CM RizwanColumn

شاباش سلیمان شہباز! ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

 

کسی بھی شخص یا گروہ کو مخالف گروہ یا شخص کی جانب سے مسلسل پانچ سال تک گالیوں، دھمکیوں اور ہر قسم کے جھوٹے سچے الزامات کے تحت کڑی تادیبی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہو اور اس ضمن میں کسی اصول، ضابطے، قانون یا قاعدے کی بھی پرواہ نہ کی جائے تو دیکھنے والے ہر غیر جانبدار کو اس وقت بہت اطمینان اور خوشی ہوتی ہے جب وہ پانچ سالہ مظلوم گروہ نہ صرف طاقت میں آکر جعلی اور جھوٹی کارروائیوں سے بچ جائے بلکہ اسی زبان اور لہجے میں جواب بھی دینے لگے جس زبان اور انداز تخاطب سے اسے چور، ڈاکو، بدمعاش یا مجرم قرار دیا جاتا رہا تھا۔ یہ تو بات ہے ایک خاموش اور غیر جانبدار رہنے والے باشعور شہری کی جبکہ اب تک کے نتائج کے مطابق مقبولیت اور پذیرائی کا معیار تو ہمارے ملک میں یہی ہے کہ جو اونچی آواز میں گندی گالیاں دے اور جس کے پاس طاقت آجائے تو مخالف کو خوب رگڑا دے اور مسلسل رگڑا دینے پر مصر رہے اور بے تکان گالیاں، الزام اور دھمکیاں دیتا رہے وہ ہی ہیرو اور مقبول ترین کردار ہے تو لا محالہ اس کے مخالف بھی اسی طرح کی صفات کے حامل ہوں گے تو عام عوام اور دیکھنے والے اسے پسند کریں گے۔ بات آپ ساری سمجھ گئے ہوں گے کہ عمران خان ایک عالمی کرکٹ چیمپئن ایک بڑا سوشل ورکر ہونے کے باوجود قومی سیاست میں بیس سال تک ایڑیاں رگڑ کر بھی ایک تانگہ پارٹی کے سربراہ ہی ٹھہرائے گئے۔ پھر کسی’’ ہمدرد‘‘ نے گیٹ نمبر چار دکھا دیا تو’’ مقبول سیاست‘‘ کا گر مل گیا بڑے بڑے کاری گر مل گئے اور دنوں میں ایک سیاسی ساکھ بن گئی۔ پھر بولنا اور تقریر کرنا تو آتا ہی تھا کسی نے لائن دے دی کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ کو چور چور کہو۔ بے تکان کہو۔ مسلسل کہو اور بلا جھجک کہو۔ نتیجتاً اس سیاسی قائد کے مخالف بھی آ ملیں گے اور گالیاں، دھمکیاں پسند کرنے والے عوام کی ایک بڑی تعداد بھی پسند کرنے لگے گی۔
عمران خان نے پھر یہی کیا۔ حکومت اشرافیہ نے دلوا دی تھی۔ زبان انہوں نے خود اپنی استعمال کی۔ اتنی محنت کی ضرورت ہی نہیں تھی بس گالیاں، الزام اور بہتان لگانے تھے اور مخالفین کو بلا لحاظ و تمیز پکڑ پکڑ کر جیلوں میں بند کروانا تھا۔ بندہ وزیراعظم ہو تو پاکستان میں یہ کون سا مشکل کام ہے۔ ساری سرکاری مشینری کنٹرول میں ہوتی ہے۔ خفیہ اطلاعات بھی مل جاتی ہیں اور سرکاری خزانہ بھی زیر تصرف ہوتا ہے۔ اختیار اور اقتدار کے سارے ہتھیار آزماتے ہوئے عمران خان نے پھر ہر چھوٹے بڑے سیاسی مخالف کو خوب رگڑا دیا۔ مولا جٹ کے شوقین پاکستانی عوام بھی بڑے خوش تھے،روزانہ ٹی وی دیکھنے اور سوشل میڈیا پر نت نئی گالیاں، الزام اور جھوٹ دیکھنے اور سننے کا گویا نشہ لگ گیا۔ ہر کوئی عمران خان کی تقریر اور دھمکیاں بڑے انہماک اور توجہ سے سنتا اور محفلوں اور سوشل میڈیا پر مزے مزے سے جھوٹ کو اس طرح جہاد سمجھ بیٹھا کہ ملک میں انقلاب آگیا۔ یہاں تک کہ فوج سے لے کر میڈیا تک اور ہر تنظیم اور فرقہ سے لے کر گھروں، خانوادوں اور خاندانوں تک ایک واضح تقسیم سامنے آگئی۔ پورا ملک صرف دو ہی خانوں میں منقسم ہو گیا۔ ایک پرو عمران اور دوسرا اینٹی عمران۔یہ کوئی تعمیری، مثبت اور مفید تقسیم نہیں تھی کیونکہ عملاً عمران خان بھی ایک عام سیاستدان اور ٹکٹوں، سیٹوں اور دولت کی بنیاد پر سیاسی اور مالی مفاد حاصل کرنے کا اسی طرح قائل ہے جس طرح کہ ہمارے یہاں سیاست دان ہوتے ہیں۔ مگر اس کے اکثر ’’عاشقوں‘‘ کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ کوئی فرشتہ صفت انسان ہے اور قوم کے درد میں دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ بہرحال حالات تھوڑے پلٹے تو گھڑیوں، ہیروں اور سونے چوری کے قصے سامنے آنے لگے۔ پھر یہ کہ عدم اعتماد اور حکومت سے فراغت کے بعد جلسوں اور عوامی اجتماعات کا ایک دور شروع ہوگیا۔ بڑے بڑے جلسوں اور ریلیوں نے بھی لوگوں کو کافی متاثر کیا۔ اس ساری جعلی اور ہائبرڈ قسم کی کارروائی کا بھی اب اختتام ہو گیا ہے اور اب یہ بھی یقین ہو چلا ہے کہ اس طرح کے بڑے اجتماعات بھی عمران خان نہیں کروا سکے گا کیونکہ بڑے انویسٹرز گارنٹی کے بغیر سرمایہ نہیں لگاتے اور گارنٹی دینے والے اب’’فیض یافتہ‘‘ نہیں رہے۔
عجیب تماشا ہے کہ عمران خان کی گالیاں، الزام اور دھمکیاں اب بھی کم نہیں ہوئیں۔ ظاہر ہے اب اس کا توڑ کرنے والے بھی گالیوں، الزامات اور دھمکیوں سے ہی کام لیں گے۔ جس طرح کہ مریم نواز پچھلے چار سالوں میں کبھی کبھار سامنے آکر اسی زبان میں جواب دیتی تھیں اور حیران کن بات ہے کہ مریم نواز کے جلسوں میں بھی اسی لہجے کو سننے کیلئے بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو جاتے تھے۔ یعنی قوم کا مجموعی مزاج یہی ہے کہ مخالف کو اونچی آواز میں گالیاں دینے والا ان کا ہیرو پوتا ہے۔ خیر مریم نواز شاید اپنی کسی ذاتی، جماعتی یا خاندانی وجوہ کی بناء پر عازم لندن ہو گئیں اور تاحال وہیں مقیم ہیں مگر ان کی جماعت کا’’برے کو اس کے گھر تک چھوڑ کر آنے والا‘‘ الزام پسند ہجوم مضطرب تھا کہ کاش ہماری طرف سے بھی کوئی قومی سطح کا لیڈر ایسا ہو جو
عمران خان کو اس کی پسندیدہ زبان میں جواب دے سکے۔ سلیمان شہباز نے آکر اس مقصد کو کافی حد تک پورا کرنے کا ایک نمونہ دوچار روز تک پیش کیا ہے۔ غیر جانبدار عوام اور نون لیگ کے جذباتی عناصر خوش ہیں کہ کم از کم ہمارے ہاں بھی پی ٹی آئی کی ٹکر کا کوئی ایک ’’ دانہ‘‘ آیا ہے مگر سلیمان شہباز بھی اب مایوس کرنے پر مجبور نظر آتا ہے کیونکہ پچھلے چند دنوں سے وہ بھی ’’ ٹکر‘‘ کے بیانات نہیں دے رہا اور خاموشی اختیار کر کے بیٹھ گیا ہے، حالانکہ ادھر تو روزانہ صبح، دوپہر، شام تین خوراکوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
وزیرِاعظم شہباز شریف کے صاحبزادے سلیمان شہباز لگ بھگ چار برس بعد گزشتہ دنوں پاکستان واپس آئے۔ یہاں ان کے خلاف عدالتوں میں مبینہ منی لانڈرنگ کے مقدمات زیر التوا ہیں۔ ان مقدمات میں عدالتوں میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے ماضی میں انہیں اشتہاری اور مفرور قرار دیا جا چکا تھا۔ سلیمان شہباز نے پاکستان پہنچنے پر اپنے خلاف قائم مقدمات میں ممکنہ گرفتاری سے بچنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کیلئے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے ایف آئی اے کو ہدایت کی تھی کہ انہیں پاکستان آمد پر گرفتار نہ کیا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کیلئے ضروری تھا کہ ملزم پہلے عدالت کے سامنے پیش ہوتا۔ اس کی غیر موجودگی میں عدالت حفاظتی ضمانت کی تصدیق نہیں کرتی۔ ہائیکورٹ میں اپنی پہلی پیشی پر سلیمان شہباز نے عدالت کے سامنے سرنڈر کیا اور عدالت نے ان کی درخواست پر ان کو حفاظتی ضمانت دے دی۔ خیال رہے کہ منی لانڈرنگ کے اسی مقدمے میں سلیمان شہباز کے والد وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے بھائی حمزہ شہباز کو عدالت پہلے ہی رواں برس اکتوبر کے مہینے میں تمام الزامات سے بری کر چکی ہے۔
سلیمان شہباز کے خلاف مقدمات کا پس منظر یہ ہے کہ ایف آئی اے نے نومبر 2020 میں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادوں حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز کے خلاف کرپشن کی روک تھام کے قانون اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔ اس مقدمے میں مرکزی اور دو شریک ملزمان کو عدالت پہلے ہی بری کر چکی ہے۔ اس مقدمے کی عدالتی کارروائی کے دوران ہی مرکز میں حکومت بدل گئی اور پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی جگہ اتحادی جماعتوں کی حکومت آئی جس میں پاکستان مسلم لیگ نون سب سے بڑی جماعت تھی۔ اس مقدمے میں مرکزی ملزم شہباز شریف وزیراعظم بھی بن گئے۔ ایف آئی اے بنیادی طور پر وفاقی حکومت کے ماتحت ادارہ ہے۔ پیروی میں استغاثہ کی مشکلات کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس قانون کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا وہ خود ایک ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے۔ مثال کے طور پر اس قانون کے تحت یہ ثابت کرنے کیلئے کہ منی لانڈرنگ کی گئی ہے۔ پہلے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ جس پیسے کو لانڈر کرنے کی بات کی جا رہی ہے وہ غیر قانونی ذرائع سے حاصل کیا گیا۔ اگر یہ ثابت نہیں کیا جاتا تو پھر اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ لاگو نہیں ہوتا اور اس طرح استغاثہ کا پورا مقدمہ ہی کمزور پڑ جاتا ہے۔ ایف آئی اے کے اس مبینہ منی لانڈرنگ کے مقدمے میں مرکزی ملزمان تو بری ہو گئے تاہم شریک ملزمان کو تاحال عدالت کے سامنے اپنا دفاع کرنا ہے۔ لہٰذا اس مقدمے میں اب شریک ملزمان کیلئے بھی بری ہونا زیادہ مشکل نہیں ہو گا۔ لیکن بات پھر وہی آجاتی ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی تنقیدی اور الزاماتی توپوں سے جو گولے نون لیگی قائدین پر برسائے جاتے ہیں کیا سلیمان شہباز مسلسل ایسے گولے اپنے ناقدین پر داغ سکیں گے اور اگر ایسا نہیں کر سکیں گے تو کیا فائدہ ان کے والد کے وزیراعظم بننے کا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button