ColumnNasir Naqvi

ضرورت ہے ایک صادق و امین کی .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

نہ سیاسی بحران ختم ہونے کی کوئی راہ نکلتی دکھائی دے رہی ہے، نہ ہی معاشی بحران کا خاتمہ، پاکستانی سیاسی تاریخ میں طویل ترین مارشل لاء اور آمریت کا براستہ اسلام جادو چلانے والے صدر ضیاء الحق کے حقیقی صاحبزادے اعجاز الحق کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ہو چکا، صرف اعلان باقی ہے لیکن ان کے منہ بولے بیٹے نواز شریف کا اعلان ہے کہ ان کے ارسطو اسحاق ڈار حالیہ معاشی بحران کے خاتمے کی نوید سناتے ہوئے دعویدار ہیں کہ اپوزیشن جان بوجھ کر ڈیفالٹ کا شور مچا کر بہتری کے راستوں میں رکاوٹ کھڑی کر رہی ہے۔پھر عمرانی حکومت کی غلط پالیسیوں اور نااہلی سے ہمیں یہ مشکل دن دیکھنے پڑے ہیں ورنہ نواز شریف کا دور کامیابیوں کادور تھا جبکہ سابق وزیراعظم اور عدالت عظمیٰ سے ’’صادق و امین‘‘ کی ڈگری حاصل کرنے والے عمران خان کہہ رہے ہیں امپورٹڈ حکومت ناکام ہے۔ مہنگائی کا نعرہ لگا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والی پی ڈی ایم کا ٹولہ مہنگائی میں نہ کمی کر سکا نہ ہی اس سے حکومت سنبھالی جا رہی ہے۔ لہٰذا تمام بحرانوں کا ایک ہی حل الیکشن ہے۔ حکومت آج الیکشن کرائے یا ایک سال بعد عوام انہیں شکست سے دوچار کریں گے۔ معیشت کی بہتری کیلئے سیاسی استحکام اور انتخابات ناگزیر ہیں ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہوا وہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی پالیسیوں اور ڈبل گیم کا نتیجہ ہے۔ درپردہ ان کی خواہش تھی کہ اگلی باری پھر نون لیگ کی ہو۔ این آر او کی گنتی جارہی ہے، ون، ٹو، تھری ، تمام چوروں اور لٹیروں کے کیسز ختم کئے جا رہے ہیں اسی لیے چوروں اور لٹیروں کی واپسی بھی شروع ہو چکی ہے لیکن جس طرح اسحاق ڈار معیشت ٹھیک نہیں کر سکا اسی طرح نواز شریف اور ان کے حواریوں کی واپسی بھی کسی طرح مثبت نتائج مرتب نہیں کر سکے گی۔
عمران خان کے وزیر باتدبیر فواد چودھری کا دعویٰ ہے کہ نواز شریف جیسے ہی پنجاب کی حدود میں داخل ہوں گے انہیں گرفتار کر لیا جائے گا جبکہ مسلم لیگ نون اپنے قائد کا پرتپاک اور والہانہ استقبال کی تیاری میں ابھی سے جت گئی ہے حالانکہ ابھی حتمی تاریخ کا فیصلہ بھی نہیں کیا جا سکا۔ سوشل میڈیا پر شور ہے کہ جب سلیمان شہباز واپس پہنچے تو وہ ایک انجانے خوف میں مبتلا تھے، ان سے پائوں اٹھائے نہیں جا رہے تھے کہ کھلاڑی ان کا چور چور کے نعروں سے استقبال نہ کریں ان کی آمد کا جو منظرنامہ پیش کیا جا رہا ہے اس پر ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی عام آدمی اور غریب الوطن واپس آیا ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں لیکن حقیقت تو یہ نہیں، سلیمان کے پردادا کی جو دل چاہے کہانی سنائی جائے وہ تو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والوں میں سے ایک ہے۔اس کا باپ پاکستان کا وزیراعظم ہے۔تایا جان نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے والے واحد پاکستانی ہیں۔بڑا بھائی، والد اور تایا نواز شریف ایک نہیں کئی مرتبہ ملک کے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اب تو حالات ایسی کروٹ لے چکے ہیں کہ مسلم لیگی متوالے انہیں بھی مستقبل کا وزیراعلیٰ دیکھ رہے ہیں حالانکہ وہ رکن پنجاب اسمبلی بھی نہیں،یہ اہمیت اور انفرادیت اندھوں کو بھی نظر آ رہی ہے کہ اشرافیہ کے اس چہیتے کی وطن واپسی سے پہلے ہی ہائی کورٹ نے کارروائی کر کے گرفتاری سے روک دیا ہے۔
پھر بھی سوشل میڈیا پرکھلاڑی یکطرفہ ٹریفک سے اپنے من مرضی کا سودا نہ صرف بیچ رہے ہیں بلکہ عمران فین کلب کے ارکان بڑھ چڑھ کر اس بات کی تشہیر اپنا قومی و سیاسی فریضہ سمجھ کر مصروف ہیں کہ سلیمان شہباز بہت شرمندہ اور خوفزدہ واپس آیا ہے غرضیکہ ایسی کوئی کوئی بات نہیں، اشرافیہ اور شرم و حیا کسی لطیفے سے کم نہیں، شرم اور شرمندگی تو سردی کی طرح محسوس ہونے والی شے ہیں اور بڑے لوگوں میں یہ ’’حِس‘‘ ہوتی ہی نہیں، وہاں انا، غرور اور ضد ان محسوسات کو کھا جاتی ہے، سابق ریکارڈ ہولڈر تین بار منتخب اور تین مرتبہ نکالے جانے والے قائد مسلم لیگ نون میاں نواز شریف کو کیا کچھ نہیں کہا گیا، الزامات بھی لگے اور مقدمات بھی بنے پھر بھی ان کا سر بالکل نہیں جھکا بلکہ وہ کہتے ہیں سر سے پائوں تک کرپشن میں ڈوبا ہوا شخص الزامات لگاتے جھجکتا نہیں، عمران خان پورا ملک مشکلات کے سمندر میں ڈبو کر بھی اپنے آپ کو مقبول لیڈر سمجھتا ہے حالانکہ اسے تو ’’ڈیلی میل‘‘ کی معافی پر شرم سے سر جھکا لینا چاہیے تھا اس کے کیس ہماری طرح محض الزام نہیں، ثابت شدہ ہیں ہمیں چور کہنے اور کہلانے والوں کو آج بچہ بچہ گھڑی چور کہہ رہا ہے۔ توشہ خانہ کے قصے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ جس کی بات دھیان سے سنیں ، وہی سچا لگتا ہے کیونکہ 75سالہ لوٹ مار کسی ایک کے ذمے نہیں لگائی جا سکتی، دو پارٹی سسٹم کی نفی کر کے تیسرے دودھ کے دھلے کو بھی عام نہیں خاص لوگوں نے اسی لیے پسند کیا تھا کہ دو بڑی پارٹیوں نے میثاق جمہوریت کر کے باریاں لگائی ہیں۔ تیسری پارٹی اُبھرے گی تو انہیں بھی آٹے دال کا بھائو پتا چلے گا۔ لہٰذا اسی خواہش کو پورا کرنے کیلئے کئی سال جدید انداز میں ایسی تیاری کرائی گئی کہ کوئی کمی نہیں رہے البتہ الیکشن اور سلیکشن میں ہمیشہ پھڈا پڑتا ہے اس لیے آر ٹی ایس کو وقت ضرورت چھڑی دکھا کر بٹھا دیا گیا۔ کچھ پہلے منصوبہ بندی کی گئی جو بچی وہ بعد میں مکمل ہو گئی اور عمران خان ریاست مدینہ، انصاف اور احتساب کے نام پر اقتدار میں آ گئے جن کے ہاتھ میں اس جھولے تک پہنچنے کی لکیر ہی نہیں تھی لیکن صاحب کشوف نے وہ کچھ کر دکھایا جو ناممکن تھا کسی نے کہا کہ پیرنی صاحبہ سے شریک حیات بننے کا معاہدہ کارگر ثابت ہوا، دو ستاروں کے ملن نے حیران کن کامیابی کی راہ ہموار کر دی۔ ریحام خان اور سیتا وائٹ سکینڈل نے شور شرابا کیا لیکن عمران خان مقبولیت اور قبولیت کی اس سیڑھی پر چڑھ چکے تھے کہ جہاں سے ہر بات پر ایک ہی آواز آئی ’’حدِ ادب‘‘ یقیناً آواز میں دم خم ہو تو اچھے بھلے بغلیں جھانکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں عوام نے مجبوراً احتساب کا تماشا دیکھا اور خواص کچھ زیادہ ہی امید باندھ بیٹھے تھے لہٰذا اپوزیشن کو پکڑ دھکڑ اور جکڑ کے فارمولے پر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیاپھر بھی وہ نہیں ہو سکا جس کی خواہش تھی۔ عمرانی حکومتی وزراء آئندہ دس سالہ اقتدار کی خوشخبری سناتے رہے۔ ڈیوٹی فل شیخ رشید اور فواد چودھری سب سے بڑے دعویدار تھے ایسا لگتا تھا کہ سلیکٹرز اور کوچ نے انہیں ریاست ٹھیکے پر دے دی ہے لیکن سیاست میں تو کوئی بات آخری نہیں ہوتی، جیسے ہی ’’خاص لوگ‘‘ نیوٹرل ہوئے، اقتدار دھڑام سے زمین بوس ہو گیا اکثریت اقلیت ہو گئی، اپوزیشن اتحاد نے اقتدار سنبھال لیا، وقت کی گردش ’’مکافاتِ عمل‘‘ کے تابع ہو گئی، مستند صادق و امین پر ایک نہیں کئی ایسے مقدمے ہو گئے جن سے ’’بادشاہ سلامت‘‘ ہی گھڑی چور کہلانے لگے۔ ماضی کی اپوزیشن کے گلے شکوے سابق حکمرانوں کی زبان پر آ گئے۔ سیاسی انتقام، ناجائز مقدمات، جھوٹے الزامات وغیرہ، ایک کیس میں نااہل ہو کر قومی اسمبلی کی رکنیت سے بھی محروم ہو گئے لیکن آدھی درجن سے زائد ضمنی الیکشن جیت کر بھی حلف نہ اٹھایا، پہلے اسمبلیوں سے استعفے دئیے ، مراعات پوری پوری لیں پھر ’’لانگ مارچ‘‘ کر کے گولی کا نشانہ بن گئے، انہیں اس عمل سے روکنے کیلئے کروڑوں روپے وفاق نے قومی خزانے سے لٹا دئیے اور وہ پنڈی فیض آباد میں ہی ’’میلہ ٹھیلہ‘‘ کرکے لوٹ گئے۔
ملک اس صورتحال میں نہ سیاسی اور نہ معاشی بحران سے نکلا، ان سرگرمیوں پر لاکھوں کروڑوں نہیں اربوں روپے خرچ ہوئے دونوں جانب سے اور نتیجہ صفر رہا اس لیے کہ پورا سچ کوئی نہیں بولنا چاہتا، سند یافتہ’’ صادق و امین‘‘ بھی قدم قدم پر جھوٹ اور سچ کی تکرار میں پھنس چکا ہے حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت کی سمت درست ہے ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ سابق وزیراعظم عمران خاں اور ان کے ساتھی جنرل (ر) باجوہ کی ڈبل گیم کے بیانیے پر قائم ہیں، ان کی پارٹی کے منتخب وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس اس بیانیے کو حقیقت سے منافی قرار دے رہے ہیں۔ فواد چودھری کا کہنا ہے کہ عمران خان پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں اسی دسمبر میں تحلیل کر دیں گے۔ عمران خان کہتے ہیں اس مسئلے پر ہمارے لوگ بھی گھبرا رہے ہیں لیکن ان کے خلاف مقدمات سر اٹھا کر کھڑے ہیں ، کل کیا ہو گا کوئی نہیں جانتا؟ کیونکہ مستند ’’صادق و امین‘‘ پر بھی الزامات لگ چکے ہیں۔ اب پوری قوم ’’سکتے‘‘ میں ہے۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسے حقیقت اور پورا سچ جاننے کیلئے ’’ضرورت ہے ایک صادق و امین ‘‘حکمران کی جو سب کچھ سچ سچ بتا کر مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنے کیلئے انہیں تحریک پاکستان کے جذبے سے ایک بار پھر تیار کرے کیونکہ ’’پاکستان‘‘ ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا ہے، صرف لوٹ مار کیلئے نہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button