Anwar Ul HaqColumn

16دسمبر 1971ء سانحہ عظیم .. میاں انوار الحق رامے

میاں انوار الحق رامے

 

16دسمبر 1971کو ڈھاکہ میں جنرل امیر عبداللہ نیازی نے سرنڈر کیا، اس بحث کو تج دیں کہ یہ شکست سیاسی تھی یا فوجی۔ اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرلیں کہ ایک آمرڈکٹیٹر نے نفرتوں کی فصل کو کاشت کیا اور دوسرے ڈکٹیٹر کے اقتدار پر ملال میں کاٹا گیا۔پاکستان کسی اور نے نہیں بلکہ سب نے مل کر توڑا ہے۔ ہم خود بنگالیوں سے جان چھڑانا چاہتے تھے جو غلطیاں مشرقی پاکستان میں کی گئی تھیں کیا اس قسم کی غلطیاں کسی اور صوبے میں تو دہرائی نہیں جا رہی ہیں؟اسلام آباد میں چار مرکزی شاہراہیں تحریک پاکستان کے چار اہم کرداروں کی عظمتوں کو سلام کرتی ان کی یادوں کے چراغوں کو دلوں میں روشن کرتی نظر آ رہی ہیں ، ان چار کرداروں میں 3کا تعلق مشرقی پاکستان سے ہے جو آج بنگلہ دیش کہلاتا ہے۔ اسلام آباد کے زیرو پوائنٹ سے اگر اسلام آباد میں داخل ہوں تو کشمیر روڈ کے بعد خیابان سہروردی آتی ہے،اتاترک روڈ اس شاہراہ کو اے کے فضل الحق روڈ سے ملاتی ہے ، اس سے آگے جناح ا یونیو ہے جس کے بعد ناظم الدین روڈ آتی ہے جو نئے اور پرانے اسلام آباد کو آپس میں ملاتی ہے ۔ ہماری نئی نسل قائد اعظم محمد علی جناح سے تو اچھی طرح واقف ہے لیکن حسین شہید سہروردی، اےکے فضل الحق اور خواجہ ناظم الدین کے بارے میں زیادہ شناسائی نہیں رکھتی ۔ ان تین عظیم رہنماؤں کی ایک مشترکہ یاد گار بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے علاقے شاہ باغ میں بھی موجود ہے۔ شاہ باغ میں خواجہ سلیم اللہ کی رہائش گاہ احسن منزل پر 1906میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی تھی۔محترم خواجہ ناظم الدین کا تعلق خواجہ سلیم اللہ خاندان سے تھا۔ خواجہ ناظم الدین، حسین شہید سہروردی اور اے کے فضل الحق قیام پاکستان سے پہلے متحدہ بنگال کے وزیر اعظم رہے تھے۔ اے کے فضل الحق کو آج بھی بنگلہ دیش میں شیر بنگال کہا جاتا ہے، جس نے مارچ 23 1940کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قرارداد لاہور پیش کی تھی جو قیام پاکستان کی بنیاد بنی۔ 1954 میں وہ مشرقی پاکستان کے وزیر اعلیٰ تھے لیکن وطن دشمنوں نے انہیں غدار قرار دے کر اقتدار سے نکال دیا تھا۔آئندہ سال حالات کے تناظر میں انہیں پورے پاکستان کا وزیر داخلہ بنا دیا گیا تھا۔ مشرقی پاکستان سے وابستہ حسین شہید سہروردی کے ساتھ اس سے بھی زیادہ برا برتاؤ کیا گیا۔ 1936 میں وہ آل انڈیا یونائیٹڈ بنگال مسلم پارٹی کے سربراہ تھے، قائد اعظم محمد علی جناح نے خواجہ ناظم کی سربراہی میں ایک وفد ان کی خدمت میں ارسال کیا تھا اور انہیں مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی تھی، انہوں نے اپنی پارٹی کو آل انڈیا مسلم لیگ میں ضم کردیا تھا اور خود مسلم لیگ میں شامل ہو گئے تھے۔1946 میں انہوں نے متحدہ بنگال میں مسلم لیگ کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور پھر بنگال کے وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے مسلم لیگ کے دہلی میں ہونے والے اجلاس میں ایک قرارداد کے ذریعے بنگال کو پاکستان میں شامل
کرنے کا مطالبہ کیا،جب پاکستان معرض وجود میں ا ٓگیا تو سہروردی کے شہر کلکتہ میں ہندو مسلم فسادات کا آغاز ہو گیا انہوں نے مہاتما گاندھی سے مل کر فسادات روکنے کی کوشش کی جس کا ذکر لیفٹیننٹ جنرل عبدالمجید ملک نے اپنی کتاب ’’ہم بھی وہاں موجود تھے‘‘میں کیا ہے۔ فسادات کو ختم کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں انہیں پاکستان آنے میں تاخیر ہوگئی، چند عناصر نےاس تاخیر کو بہانہ بنا کر انہیں اسمبلی کی نشست سے محروم کرنے کی سازش کا آغاز کیا۔ شائستہ سہروردی اکرام اللہ نے اپنی کتاب ’’حسین شہید سہروردی اے بائیو گرافی‘‘ میں لکھا ہے کہ جس دن سہر وردی پاکستان پہنچے اسی دن مشرقی پاکستان کے آئی جی پولیس ذاکر حسین نے تحریری حکم نامے کے ذریعے انہیں پاکستان سے نکلنے جانے کیلئے کہا ۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد انہیں اسمبلی سے فارغ کر دیا گیا۔ڈھاکہ میں ان کی رہائش کیلئے کوئی انتظام نہیں تھا آخر کار وہ لاہور میں نواب افتخار ممدوٹ کے پاس آگئے ، حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ لاہور اور کراچی میں انہیں وکالت کی رجسٹریشن نہ مل سکی لیکن ساہیوال ڈسٹرکٹ بار ایسو سی ایشن نے انہیں بار کی ممبر پیش کرکے اعزاز اپنے نام کر لیا۔
1949 میں حسین شہید سہروردی نے ڈھاکہ میں عوامی لیگ کی بنیاد رکھی تھی، شیخ مجیب الرحمان اس تنظیم کے جوائنٹ سیکرٹری بنائے گئے ، یہ جماعت چند سالوں کے اندر اندر مشرقی پاکستان کی بڑی جماعت بن گئی تھی اور 1956 میں سہر وردی پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے تھے۔سہروردی مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہتے تھے لیکن آرمی چیف ایوب خان سیاست میں مداخلت کا منصوبہ بنا چکے تھے۔ پاکستان کے پہلے چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل شیر علی پٹودی سیاست میں مداخلت کے حق میں نہیں تھے۔انہوں نے اپنی کتاب دی سٹوری آف سولجرنگ اینڈ پالیٹیکس میں لکھا ہے کہ ایک دن جنرل ایوب نے مجھ سے کہا کہ میں سیاست سنبھالوں گا تم فوج کو سنبھالو۔جنرل شیر علی نے بنگالیوں کو فوج میں بھرتی کرنے کے بارے میں رولز میں ریلیکس کرنے کی تجویز دی تو ایوب خان نے اس تجویز کو رد کردیا ۔ ایوب خان نے پہلے اسکندر مرزا سے مل کر سہروردی کو وزارت عظمیٰ سے الگ کیا پھر فیروز خان نون کو ہٹایا اور زبردستی بر یگیڈیئر یحییٰ خان کو گیارھویں نمبر پر جونیئر ہونے کے باوجود میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی تھی، یہی بدمست یحییٰ خان بعد ازاں پاکستان کے آرمی چیف اور صدر بنے تھے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ فوجی مداخلتوں کی داستان غم ہے۔اکتوبر 1958 میں جنرل ایوب خاں نے مارشل لا لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا جس جس نے 1956 کے دستور کی بحالی کا مطالبہ کیا اس کو غداری کے منصب پر فائز کر دیا گیا۔ مارشل لاء کی زیادہ تر مخالفت مشرقی پاکستان سے کی گئی۔ 1962میں ایوب خان نے پاکستان پر ایک صدارتی نظام مسلط کرنے کا فیصلہ کیا , تو ان کے بنگالی وزیرقانون جسٹس (ر)محمد ابراہیم نے صدارتی نظام کی مخالفت کی ۔
ڈائریز آف جسٹس محمد ابراہیم جو سابق وزیر قانون ایوب خان تھے، ان کے اور ایوب خان کے درمیان ہونے والی سرکاری خط و خطابت کا ذکر کیا گیا ہے۔جسٹس محمد ابرایم نے کہا تھا کہ صدارتی نظام ملک کو توڑ دے گا۔جسٹس ابراہیم کے مستعفی ہونے کے بعد سابق چیف جسٹس محمد منیر کو وزیر قانون بنا لیا تھا۔ سہروردی پر غداری کا مقدمہ قائم کیا گیا اور انہیں جلاوطنی کے صدمے سے نوازا گیا اور وہ جلا وطنی کے دوران ہی بیروت میں انتقال کر گئے۔ مشرقی پاکستان میں ایوب خان کو فاطمہ جناح کا مقابلہ کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ایوب خان دھاندلی اور دھونس کی بنیاد پر پورے پاکستان میں فاطمہ جناح کے مقابلے میں الیکشن جیت گئے تھے۔ ایوب خان کو جنرل یحییٰ نے زبردستی اقتدار سے الگ کر دیا تھا 1970 میں ایک آدمی ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کروائے گئے ۔یحییٰ خان نے اکثریتی پارٹی کو اقتدار منتقل کرنے کی بجائے فوجی آپریشن کا آغاز کر دیا تھا،اس پر محترم سابق وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ اللہ کا شکر ہے پاکستان بچ گیا ہے ۔ڈاکٹر نذیر شہید سابق ممبر قومی اسمبلی نے اپنی تقریر میں سیاسی وجدان کو بروئے کار لاتے ہوئے کہا تھاکہ پاکستان توڑنے میں تین کردار شامل ہیں یحییٰ خان، مجیب الرحمان اور ذوالفقار بھٹو۔ ان تینوں کا انجام دردناک ، خوفناک، عبرت ناک ہوگا۔ جو غلطیاں ہم نے مشرقی پاکستان میں کی تھیں آج وہی غلطیاں بلوچستان میں دوہرا رہے ہیں آج بھی اختر مینگل پارلیمان کے فلور پر آہو و فغاں کر رہا ہے۔ خیابان سہروردی، فضل الحق روڈ،جناح ایونیو اور ناظم الدین روڈ اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر ختم ہوتی ہیں۔ ہم نے دستور کو متعدد مرتبہ پامال کرکے پاکستان کو لخت لخت کیا ہے ۔آج بھی ہمارے طرز عمل میں کوئی جوہری تبدیلی ظاہر نہیں ہو رہی ۔ہم نے آج بھی دستور اور پارلیمان کو بازیچہ اطفال بنایا ہوا ہے۔ ہم کب سنبھلیں گے اور دستور اور پارلیمان کی عظمت کے سامنے سرنگوں ہوں گے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button