ColumnZameer Afaqi

مقامی حکومتوں کے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

پاکستان میں مقامی حکومتیں، 2001 میں جاری ہونے والے’’مقامی حکومتوں کے آرڈیننس‘‘ کے تحت ضلعی سطح پر حکومت کے قائم ہونے کے آئینی فرمان کے تحت تشکیل پاتی ہیں۔ پاکستان میں ضلع حکومت کا تیسرا درجہ ہے، جو صوبہ کے زیر انتظام قائم رہتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے آرڈیننس سے پیشتر، ضلع کو سب ڈویژن بھی کہا جاتا تھا۔ پاکستان میں مقامی حکومت کا سربراہ ضلعی ناظم ہوتا ہے جبکہ انتظامی امور کا ذمہ دار ضلعی رابطہ افسر ہوتا ہے جو ضلعی ناظم کے ماتحت کام کرتا ہے۔ اس طرح، ضلعی ناظم، ضلع کا آئینی و انتظامی سربراہ قرار دیا جاتا ہے جو عوامی رائے شماری سے منتخب کیا جاتا ہے۔ضلعی رابطہ افسر ضلعی انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے اور ان کے اختیارات اور فرائض وسیع ہوتے ہیں، جس کے تحت وہ ضلعی حکومت کے امور کی تیاری، نگرانی، تعمیل اور کامیاب تکمیل کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ضلعی رابطہ افسر، ضلعی ناظم کو جوابدہ ہوتا ہے۔ضلعی ناظم، ضلعی انتظامیہ اور آئینی اسمبلی کا سربراہ ہوتا ہے۔ ضلعی ناظم کے پاس وسیع تر انتظامی و آئینی اختیارات ہوتے ہیں جن کے تحت وہ ضلع میں حکومت کی عملداری اور ترقیاتی منصوبہ جات کی تیاری اور تکمیل کو یقینی بناتا ہے۔ انہی اختیارات کو استعمال کر کے ضلعی ناظم، ضلع میں امن و امان کی صورت حال اور معاملات کو کامیابی سے چلاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 140 اے کے تحت تمام صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ صوبے میں مقامی حکومت کا نظام بنائیں اور انہیں سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات بھی منتقل کریں اور اس کا اختیار مقامی حکومتوں کے منتخب نمائندوں کے پاس ہو گا جب کہ اس کیلئے انتخابات کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کے پاس ہو گی،البتہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق کے بجائے صوبوں کے پاس اختیارات آجانے کے بعد سے اکثر اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی سے اجتناب دیکھا گیا ہے۔
پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اراکین اسمبلی قانون سازی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے ترقیاتی منصوبوں کی سیاست سے باہر نہیں آنا چاہتے۔ مقامی حکومتوں کا نظام آنے سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ ایسا ہونے سے ترقیاتی فنڈز سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں اور مقامی ترقیاتی امور میں ان کا کردار محدود ہو سکتا ہے۔ مقامی سیاست پر اجارہ داری رکھنے والے کئی پرانے سیاسی خاندان مقامی حکومتوں کے نتیجے میں سامنے آنے والی نئی قیادت کو بھی اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔مقامی حکومتوں کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ سرکاری ملازم پانچ بجے کے بعد چھٹی کرکے گھروں کو چلے جاتے ہیں جبکہ کونسلرعلاقے میں چوبیس گھنٹے موجود رہتا ہے۔ اگر آج مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہوتا تو ہم ڈینگی، کرونا اور اسی طرح کے دیگر مسائل سے با آسانی نبٹ سکتے تھے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سیاسی حکومتوں کی یہ ترجیح ہی نہیں۔
مغربی ممالک میں جمہوریتیں مقامی حکومتوں کی بنیاد پر ہی مستحکم ہوئی ہیں اور اسی نظام کے تحت ان ملکوں میں قانون کی حاکمیت ملکی ترقی اور شہریوں کے مسائل حل ہوتے نظر آتے ہیں اور یہی طور ہمیں بھی اپنانے کی ضرورت ہے اگرچہ مقامی حکومت کا درجہ وفاقی اور صوبائی حکومت کے بعد تیسرا ہے مگر جمہوریت کے حوالے سے یہ پہلے درجے پر ہے۔ ایک اچھی مقامی حکومت کی موجودگی کے بغیر جمہوریت نا مکمل ہے اور نہ ہی ملک ترقی کر سکتا ہے اور نہ عوامی مسائل حل ہو سکتے ہیں اسی اہم موضوع پر سائوتھ ایشین کالمسٹ کونسل(ساک تھنکر فورم کے زیر اہتمام ’’میٹ دی کالمسٹ‘‘ میں فکری نشست ساک کے چیئرمین میاں سیف الرحمان ،سیکرٹری جنرل ضمیر آفاقی کی زیر صدارت ’’مقامی حکومتوں کے بغیر ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس کے مہمان خصوصی معروف دانشور اورمقامی حکومتوں کے ماہر زاہد اسلام تھے ،جبکہ ڈاکٹر الیاس نے معاونت کی ،ساک کے دیگر اراکین میں روشن لال،شیر علی خالطی،عمر فاروقی،خواجہ آفتاب، چودھری وقاص افضل،اکبر سیال، عمران یوسف، حنیف انجم، رقیہ غزل،فرینڈ آف ساک افشاں کیانی، عبیدہ فیض سمیت سول سوسائٹی سے بھی احباب نے شرکت کی۔چیئر مین ساک میاں سیف الرحمن نے ساک کی جانب سے اس اہم موضوع پر فکری کے نشست کے انعقاد کو ایک بہترین عمل قرار دیتے ہوئے اس طرح کی تقریبات کو جاری رکھنے کا کہا، انہوں نے کہا کہ آج اگر ہمارا ملک ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہے تو اس کی بنیادی وجہ مقامی حکومتوں کا فعال نہ ہونا ہے۔
معروف دانشور اورمقامی حکومتوں کے ماہر زاہد اسلام اس اہم موضوع پر کئی دہائیوں سے تسلسل سے فکری کام کرکے عوام میں شعوری بیداری پر کام کر رہے ہیں۔انہوں نے اپنی کتاب میں برصغیر کے مقامی حکومتوں کے تصور،پاکستان کا سیاسی وسماجی ارتقا، حکمرانی کا بحران،مقامی حکومتوں کے مختلف ماڈلز،محروم طبقات اور ان کی نمائندگی،مقامی حکومتوں کی قانون سازی سمیت دیگر موضوعات پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے یہ کتاب راہنما اصول فراہم کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ جنرل الیکشن ہوتے نظر نہیں آرہے مگر بلدیاتی انتخابات کی کوششیں جاری ہیں اور لوکل گورنمنٹ ایسا پرائمری سکول اور نرسری ہے جہاں جمہوری اصولوں اور طریقہ کار سے آگاہی ملتی ہے،یہاں سے ہی تربیت یافتہ افرادآگے چل کر پارلیمان میں پہنچتے اور عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرتے ہیں، جبکہ مقامی حکومتیں جو خالصتاً عوام کی نمائندہ ہوتی ہیں عوامی مسائل کے حل کیلئے بڑا فعال کردار ادا کرتی ہیں۔ مقامی حکومتیں پائیدار ترقی کا عمل یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مقامی حکومتوں کو مالیاتی اور انتظامی اختیارات دینا پائیدار ترقی کیلئے ناگزیر ہے مخصوص مقاصد کیلئے مقامی حکومتوں کے کام میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، عوامی شرکت اور جوابدہی یقینی بنائی جائے۔ قانونی ڈھانچے میں موجود ابہام ان مقامی حکومتوں کے نظام کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس ابہام کو دور کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے،بر سر قتدار جماعتیں مقامی حکومتوں کو اختیار اور وسائل نہیں دینا چاہتیں اور انہیں اپنے مقاصد کیلئے خطرہ سمجھتی ہیںلہٰذا ہمیں اس پہلو کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ غیر جمہوری حکومتوں نے سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی نظام کے ذریعے نشانہ بنایا۔ ہمیں نظام میں لوگوں کی شرکت اور جوابدہی کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ مقامی حکومتوں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے تربیت اور استعداد کاری پر توجہ دی جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان اداروں کو تقویت دی جائے اورفرائض کی مؤثر انجام دہی کیلئے مالی اور انتظامی اختیارات دیے جائیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مقامی حکومتوں کے نطام کو فعال کرے تاکہ عوامی کی حکومت عوام کے ذریعے عوامی مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے ویسے بھی مقامی حکومتوں کے بغیر کوئی بھی حکومت جمہوری حکومت نہیں کہلا سکتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button